آزاد کشمیر میں صنعتی بحران ، سینکڑوں کارخانے بند ، متعدد پنجاب اور خیبر پختونخوا منتقل

image

اسلام آباد: (زاہد گشکوری، مجاہد حسین، ابوبکرخان) آزاد جموں و کشمیر گزشتہ کئی ماہ سے سیاسی ، سماجی اور معاشی حوالے سے کشمکش کا شکار ہے۔

ریاست کے عوام نے چند ماہ قبل مہنگی بجلی کیخلاف سڑکوں پر آ کر حکومت سے اپنا مطالبہ تسلیم کرایا تاہم اس وقت کشمیر میں صنعت کے حوالے سےغیر یقینی صورتحال ہے۔

ریاست کے سامنے ایک اور بحران خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا ہے۔ اس بحران کی شروعات سات برس پہلے ہوئی جس پر نئی ٹیکس پالیسی، ٹیکس چوری، کرپشن اور بدانتظامی نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور آج آزاد کشمیر میں اسی فیصد انڈسٹری مکمل طور پر بند یا ریاست کی حدود سے باہر منتقل ہو چکی ہے۔

خیبر پختونخوا اسمبلی،اینٹوں کے بھٹوں کو صنعت کا درجہ دینے کا بل پاس

ہم انویسٹی گیٹس کی ٹیم نے آزاد جموں و کشمیر میں صنعت کی بربادی اور بڑھتی ہوئی بیوزگاری کا کھوج لگانے کے لیے ریاست کے کئی شہروں میں تحقیقات کے دوران حکومتی عہدیداروں، بیوروکریسی اور صنعتکاروں سے موجودہ بحران کے حوالے سے گفتگو کی۔ صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ صنعتی شہر میرپور میں 220 چھوٹے بڑے صنعتی یونٹس میں سے 150 یونٹس بند یا راولپنڈی، روات، کلرکہار،جہلم، لاہور، مردان، صوابی اور ملک کے دوسرے کئی شہروں میں منتقل ہو چکے ہیں۔

صنعتکاروں نے بتایا کہ انہوں نے حکومت کی نئی ٹیکس پالیسی کی وجہ سے آزاد کشمیر سے اپنے کارخانے منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ سرکاری حکام کا موقف  ہے کہ انڈسٹری بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کر رہی تھی ،ٹیکس چوری روکنے پر لوگوں نے انڈسٹری بند کر دی یا دوسرے شہروں کی طرف منتقل ہونا شروع کر دیا۔ بیوروکریسی کے نمائندوں کا موقف بھی یہی ہے کہ ٹیکس چوری اس تنازعے کی اصل وجہ ہے۔

حکومتی نمائندوں کا دعوی ہے کہ صنعتکار، بالخصوص سگریٹ انڈسٹری  سالانہ کی بنیاد پر مجموعی طورپر دو سو ارب روپے کا ٹیکس چوری کر رہی ہے، تاجروں اور کاروباری طبقہ نے کئی سال تک ٹیکس فری زون کا فائدہ  اٹھایا ہے لیکن فائدہ اٹھانے کے بعد کوئی نیا لاگو ٹیکس دینے کو تیار نہیں ۔

سندھ کے بیروزگار نوجوانوں کو آسان اقساط پر ای وی ٹیکسی فراہم کرنے کا فیصلہ

ہم انویسٹی گیٹس کو بتایا گیا کہ آزاد کشمیر ٹیکس فری زون ہونے کی وجہ سے ٹیکس چوروں کیلیے جنت بن گیا تھا، حکام دعوی کرتے ہیں کہ سگریٹ کی کئی کمپنیاں ، کچھ تاجر پام آئل کے نام پر اور کچھ چائے کے کاروبار کے نام پر سالانہ ایک سو ساٹھ ارب روپے کا ٹیکس مقامی حکومت سے چرا رہے ہیں۔

آزاد کشمیر کی حکومت سالانہ پچاس ارب روپے ٹیکس کی مد میں  صنعتکاروں، کاروباری حضرات اورعام شہریوں سے اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، مبینہ ٹیکس چوروں میں بڑے بڑے نام  ہیں جویا تو وہاں مقامی حکومت کا حصہ تھے یا پھر کچھ سیاستدان اور تاجرحضرات جو پاکستان کے کئی شہروں میں بیٹھ کریہ سارا دھندا چلا رہے تھے،   لیکن دوسری طرف تاجروں کا کہنا ہے کہ وہ آزاد کشمیر میں مزید کاروبار اس لیے نہیں کر سکتے کیونکہ حکومت کی جانب سے کوئی ریلیف دیا گیا نہ ہی کوئی کاروبار کے تحفظ کی اہم ضمانت موجود ہے، اس کے علاوہ حکومت نے صنتعکاروں کیخلاف ٹیکس چوری کے نام پر کریک ڈاون شروع کر دیا۔

سگریٹ انڈسٹری کا میر پورمیں راج، ٹیکس چوری اورجاری کریک ڈاون کے پیچھے چھپی کہانی کیا ہے؟ یہ وہ مسائل ہیں جس کو ہم انویسٹی گیٹس نے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم انوسٹی گیٹس نے کچھ کارخانوں کا دورہ کیا ، ان فیکٹریوں کے ڈھانچے اور مشینری سے لگتا ہے کہ یہ چھوٹے سے یونٹ ہیں لیکن ان کے مالکان کا بتانا ہے یہ یونٹس ماہانہ کروڑوں روپے کا ٹیکس ادا کر رہے ہیں لیکن پھر بھی کشمیر انتظامیہ انکو کام نہیں کرنے دے رہی ہے۔

مقامی حکومت یہ دعوی بھی کرتی ہے  کہ یہ یونٹس اربوں روپے کی سگریٹ کا سامان پورے ملک کو بھیج رہے ہیں لیکن اپنی فائلنگ میں یہ کاروباری طبقہ کاروبارمیں مندی دکھا رہا ہے۔دوسری طرف سگریٹ کے کاروباری حضرات کا یہ دعوی ہے کہ حکومت ان سے سیلز ٹیکس کی مد میں سالانہ تقریبا تیس ارب روپے اکٹھا کرتی ہے۔

وزیراعظم کی ٹیکس چور اور کم ٹیکس دینے والی شوگر ملز کیخلاف کارروائی کی ہدایت

دوسری جانب آزاد میرپور میں آج بھی فوم انڈسٹری کو سب سے بڑی انڈسٹری قرار دیا جاتا ہے ، اس کاروبار سے منسلک لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ انڈسٹری بھرپور انداز میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے لیکن جس انڈسٹری کو موجودہ حالات میں سب سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے وہ سگریٹ انڈسٹری ہے جبکہ موبائل فون انڈسٹری ٹیکس چھوٹ کے ابتدائی پانچ سال پورے کرنے کے بعد یہاں سے منتقل ہو چکی ہے۔

وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر چوہدری انوار الحق سگریٹ انڈسٹری کے حوالے سےخاصا سخت موقف رکھتے ہیں۔ وہ کچھ سوالات بھی اُٹھاتے ہیں۔

سگریٹ انڈسٹری بنیادی طور پر ایک بڑے بحران سے دوچار ہے اور اس انڈسٹری کا مستقبل حالات کے پیش نظر مخدوش نظر آ رہا ہے ، سب سے بڑی فیکٹری والٹن سگریٹ کمپنی کے ایڈمن آفیسر سید عمر فاروق کا دعوی ہے کہ اربوں روپے ٹیکس ادا کرنے کے باوجود اُن کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے۔

سگریٹ انڈسٹری کے علاوہ پام آئل انڈسٹری کے بارے میں عام تصور یہی ہے کہ چونکہ پاکستان کی نسبت آزاد جموں و کشمیر میں درآمدی خام مال پر ٹیکس کی شرح کم ہے اس لیے صنعتکاروں کی بہت بڑی تعداد یہ خام مال یہاں لے آتی ہے اور اصل مینوفیکچرنگ کہیں دوسرے علاقوں میں ہوتی رہتی ہے لیکن اس قسم کی تکنیکی فراڈ کے بارے میں تفصیلات نہ تو بیوروکریسی فراہم کرتی ہے اور نہ ہی حکمرانوں کو اس قسم کی جزئیات کا علم ہے۔  ایک بیان جاری کر دیا جاتاہے کہ اس مد میں بہت زیادہ ٹیکس فراڈ ہو رہا ہے۔

آزاد کشمیر میں انڈسٹری کا یہ جاری بحران بہت جلد ختم ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ فریقین اپنے اپنے موقف پر سختی سے قائم ہیں۔ اگر آزاد جموں و کشمیر حکومت صنعت کے فروغ کے حوالے سے رویہ تبدیل کرتی ہے تو آزاد کشمیر کو ایک نئے مالی بحران کا بھی سامنا ہوگا۔

ہم انویسٹی گیٹس کی ٹیم کے دورے کے دوران پتہ چلا کہ سگریٹ انڈسٹری کی مشینری مینئول دور کی مشینری سے تعلق رکھتی ہے اور زیادہ تر یونٹس پچاس سال سے بھی پرانی مشینوں سے کام چلا رہے ہیں۔

نوٹ: (اس رپورٹ کو تیار کرنے میں نعمان قدوس اور طارق وسیم نے بھی معاونت کی ہے)

 

 

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.