"انسانی اسمگلرز نے ہمیں بیچ سمندر میں یرغمال بنایا، پیسے نہ دینے والوں کو سردی میں پھینک دیا اور بیماروں پر ظلم کیا،" کشتی حادثے سے بچ جانے والے زاہد بٹ نے اپنے خاندان کو فون پر دل دہلا دینے والی تفصیلات بتائیں۔
افریقی ملک موریطانیہ سے اسپین جانے کی کوشش میں ایک کشتی حادثے کا شکار ہوگئی، جس میں 44 پاکستانیوں سمیت 50 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کشتی پر 66 پاکستانی سوار تھے، جن میں سے 36 کو معجزانہ طور پر بچا لیا گیا۔
زاہد بٹ، جو گجرات کے رہائشی ہیں اور حادثے سے زندہ بچ نکلے، نے بتایا کہ، "ہمیں موریطانیہ کے ویزوں پر لے جایا گیا، جہاں ہمیں ایک سیف ہاؤس میں رکھا گیا۔ کشتی میں روانہ ہونے کے بعد، انسانی اسمگلرز نے بیچ سمندر میں کشتی کھڑی کرکے مزید پیسوں کا مطالبہ شروع کر دیا۔"
زاہد کے مطابق، کشتی میں نہ صرف راشن ختم ہو چکا تھا بلکہ شدید سردی کے باعث کئی لوگ بیمار بھی ہو گئے۔ انہوں نے مزید بتایا، "ان اسمگلرز نے بیمار لوگوں کو زبردستی سمندر میں پھینک دیا اور پیسے نہ دینے والوں پر تشدد کرکے انہیں مار دیا۔"
حادثے میں جاں بحق ہونے والے 44 پاکستانیوں میں سے 12 نوجوان گجرات سے تعلق رکھتے تھے۔ گاؤں جوڑا کرنانہ کے 5 افراد بھی اس کشتی میں سوار تھے، جن میں سے 4 افراد جان کی بازی ہار گئے۔
یہ کشتی 2 جنوری کو موریطانیہ سے روانہ ہوئی، لیکن انسانی اسمگلرز نے اسے 8 دن تک سمندر میں کھڑا رکھا۔ یہ نہ صرف ایک حادثہ بلکہ انسانی اسمگلنگ کی بھیانک حقیقتوں کی جھلک ہے، جس میں معصوم زندگیاں برباد ہو گئیں۔
یہ واقعہ انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت اقدامات اور آگاہی مہم کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس سانحے نے ان ہزاروں خاندانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے جو بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنے پیاروں کو کھو بیٹھتے ہیں۔