امریکہ کی ایک عدالت نے پاکستانی نژاد تاجر طہور رانا کو انڈیا کے حوالے کرنے کی منظوری دے دی ہے جو وہاں سنہ 2008 کے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں مطلوب ہیں۔
امریکہ کی سپریم کورٹ نے پاکستانی نژاد کینیڈین تاجر طہور رانا کی شکاگو کی عدالت کی جانب سے انڈیا حوالگی کے خلاف دائر درخواست مسترد کر دی ہے۔
مئی 2023 میں شکاگو کی ایک عدالت نے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں انڈین حکومت کو مطلوب تاجر طہور رانا کو انڈیا کے حوالے کرنے کی منظوری دی تھی۔
تاہم عدالت نے کہا تھا کہ رانا اس وقت تک امریکہ کی حراست میں ہی رہیں گے جب تک امریکی وزارتِ خارجہ اس بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کر لیتی۔
اس موقع پر مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ممبئی حملہ کیس میں سرکاری وکیل اجوال نکم نے کہا ہے کہ ’یہ انڈیا کے لیے ایک بڑی فتح ہے کیونکہ طہور رانا وہ شخص ہے جسے ممبئی حملوں کے پیچھے مجرمانہ سازش کے حوالے سے متعدد تفصیلات معلوم ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے پاکستان کی اس حملے میں ملوث ہونے کے حوالے سے مزید معلومات سامنے آئیں گی۔
نومبر 2008 میں انڈیا کے شہر ممبئی میں ہونے والے حملوں میں 166 افراد ہلاک ہوئے تھے اور ان کے لیے عسکریت پسند تنظیم لشکر طیبہ کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا تھا۔
2011 میں شکاگو کی وفاقی عدالت کے ججوں نے طہور رانا کو لشکر طیبہ کی مدد کرنے کا مجرم قرار دیا تھا لیکن انھیں ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی اور ان میں براہ راست ملوث ہونے کے الزامات سے بری کر دیا گیا تھا۔
ان جرائم پر انھیں 2013 میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ 2020 میں طہور رانا کو کووڈ 19 کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ہمدردی کی بنیاد پر امریکی جیل سے رہا کیا گیا تھا لیکن انڈیا کی جانب سے حوالگی کی درخواست کے بعد انھیں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔
طہور رانا نے اپنے خلاف عائد تمام الزامات سے انکار کیا ہے۔
انڈین حکام نے طہور رانا پر الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے اپنے بچپن کے دوست ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے ساتھ مل کر سازش کی اور پاکستانی عسکریت پسند گروپ لشکر طیبہ کی مدد کی۔
اس کیس میں استغاثہ نے کہا کہ 2006 میں رانا نے ہیڈلی کو ممبئی میں شکاگو میں واقع اپنی امیگریشن سروس فرم کا دفتر کھولنے کی اجازت دی تھی، جسے ہیڈلی نے 2008 کے حملے کے لیے مقامات کی تلاش کے لیے کور کے طور پر استعمال کیا تھا۔
رانا پر یہ بھی الزام تھا کہ اس نے ہیڈلی کو اپنی فرم کے نمائندے کے طور پر پیش کرنے کی اجازت دی تاکہ اشتہارات کے لیے جگہ خریدنے میں دلچسپی ظاہر کرکے اخبارات کے دفاتر تک رسائی حاصل کی جا سکے۔
ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں امریکہ میں 35 سال قید کی سزا کاٹنے والے ہیڈلی نے 2011 میں طہور رانا کے خلاف گواہی دی تھی۔ رانا کی دفاعی ٹیم نے اس وقت کہا تھا کہ ان کے پرانے دوست ہیڈلی نے اس انھیں استعمال کیا اور گمراہ کیا۔
ممبئی حملوں کے مقدمے کے سپیشل پبلک پراسیکیوٹر اجول نکم نے انڈین خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے طہور رانا کی حوالگی کے فیصلے کو ایک 'اہم پیش رفت' قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ 'امریکی عدالت کا طہور رانا کی حوالگی کا حکم انڈیا کے لیے بڑی فتح ہے۔ میری معلومات کے مطابق ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ امریکی حکومت نے انڈین تحقیقاتی ایجنسی کے شواہد پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے'۔
انھوں نے مزید کہا کہ 'میرے خیال میں طہور رانا کی حوالگی کا یہ حکم مجرمانہ سازش کا دروازہ پوری طرح سے کھولنے میں کئی طریقوں سے ہماری مدد کرے گا۔'
طہوررانا کون ہیں اور انھیں کن جرائم میں سزا ہوئی؟
59 سالہ طہور حسین رانا کی پرورش پاکستان میں ہوئی اور انھوں نے میڈیکل کی ڈگری لینے کے بعد پاکستانی فوج کی میڈیکل کور میں شمولیت اختیار کی۔
وہ اور ان کی اہلیہ، جو خود بھی ایک ڈاکٹر ہیں، 2001 میں امیگریشن لینے کے بعد کینیڈا کے شہری بن گئے تھے۔
سنہ 2009 میں گرفتاری سے قبل رانا شکاگو میں رہتے تھے اور امیگریشن اور ٹریول ایجنسی سمیت کئی کاروبار چلاتے تھے۔
طہور رانا پر 12 الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں امریکی شہریوں کو قتل کرنے میں مدد کرنا بھی شامل تھا۔
ان پر ہیڈلی کو کور فراہم کرنے اور اپنے سابق دوست اور ’میجر اقبال‘ نامی شخص کے درمیان پیغامات بھیجنے کا بھی الزام ہے، جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی کا حصہ ہیں۔
طہور رانا کو لشکر طیبہ کو مادی مدد فراہم کرنے اور ڈنمارک کے ایک اخبار کے خلاف ناکام سازش میں کردار ادا کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا لیکن پاکستانی نژاد کینیڈین شہری کو ممبئی حملوں میں براہ راست ملوث ہونے کے الزامات سے بری کر دیا گیا تھا، جس میں چھ امریکیوں سمیت 160 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔