صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے علاقے گڑھی حبیب اللہ کی بعض ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جن میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹریفک پولیس کے ایک اہلکار کو ایک کمرے میں لایا جاتا ہے اور پھر انھیں ایک پردہ پوش خاتون تھپڑ مارتی ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے علاقے گڑھی حبیب اللہ کی بعض ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جن میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹریفک پولیس کے ایک اہلکار کو ایک کمرے میں لایا جاتا ہے اور پھر انھیں ایک پردہ پوش خاتون تھپڑ مارتی ہیں۔
اسی سے جڑی ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مانسہرہ میں واقع برار کوٹ چوکی کے پاس پولیس اہلکار نے کسی جھگڑے کے دوران اسی خاتون کو تھپڑ مارا تھا۔
علاقے کے سیاسی و سماجی رہنما محمد صالح نے تھانہ گڑھی حبیب اللہ میں درخواست دائر کی ہے جس میں دعویٰ کیا کہ یہ سب بالاکوٹ پولیس کے اعلیٰ افسران کی ایما پر ہوا جنھیں ’عوامی دباؤ‘ کا سامنا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکار کو سب کے سامنے تھپڑ مارنے اور معافی منگوانی سے خیبر پختونخوا پولیس اور عوام کی توہین ہوئی ہے لہذا اس پر کارروائی کی جائے۔
ضلع مانسہرہ پولیس کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق ڈی آئی جی ہزارہ نے ان واقعات کی انکوائری کا حکم دے رکھا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ ہائی وے پولیس کے ایک اہلکار نے گاڑی کا چلان کیا اور خاتون سے بدتمیزی کی جس پر پولیس افسران اور متاثرہ فیملی نے جرگے کے ذریعے معاملات حل کیے تاکہ احتجاج ختم ہو سکے اور سڑک کو ٹریفک کے لیے دوبارہ کھولا جاسکے۔
یہ معاملہ آخر ہے کیا؟
سنیچر کے روز صوبہ خیبر پختونخوا اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی سرحد برار کوٹ پر مشتعل مظاہرین نے کئی گھنٹوں تک سڑک بلاک کی تھی۔
اس حوالے سے یہ ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں پولیس اہلکار ایک خاتون کو تھپڑ مارتا ہے۔ خاتون کے ہمراہ سفر کرنے والے ان کے بھائی محمد خورشید کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگ مظفر آباد سے گڑھی حبیب اللہ تعزیت کے لیے جا رہے تھے۔ خیبر پختونخوا کی حدود میں داخل ہوئے تو ٹریفک پولیس اہلکار نے روکا اور کاغذات مانگے جو دے دیے تھے جبکہ میرے پاس لائسنس کی کاپی تھی، لائسنس نہیں تھا۔‘
محمد خورشید کا کہنا تھا کہ 'میں نے پولیس اہلکار کو کہا کہ لائسنس تیاری کے مراحل میں ہے، کشمیر میں (عموماً) لائسنس ملنے میں تاخیر ہوتی ہے۔۔۔ مگر اس کے باوجود اہلکار نے کہا کہ پانچ ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔'
کچھ بحث کرنے پر ان کے بقول پولیس اہلکار نے ایک ہزار روپے جرمانے کا مطالبہ کیا تھا۔
محمد خورشید نے الزام عائد کیا کہ ’میں ابھی وہاں پر موجود انچارج سے بات ہی کر رہا تھا کہ وہی پولیس اہلکار آیا اور کہا کہ 'یہ بہت باتیں کرتا ہے، اس کو اٹھا کر (پولیس) موبائل میں ڈالیں اور اس کو چوکی لے جاتے تھے۔‘
’جب اس نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو گاڑی میں میری بہن باہر نکل آئی اور اس نے کہا کہ ’ایسا مت کرو تم کسی کو ہاتھ نہیں لگا سکتے‘۔ تو اس اہلکار نے میری بہن کو تھپڑ مار دیا جس کے بعد لوگ مشتعل ہوئے اور روڈ بلاک ہوگیا۔‘
مانسہرہ کے ڈسڑکٹ پولیس آفیسر شفیع اللہ گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ’جو واقعات ہوئے وہ انتہائی افسوسناک ہیں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق مظفر آباد سے ایک گاڑی آئی جس میں ایک مرد اور چار خواتین تھیں۔ ڈیوٹی پر تعینات ہائی وے ٹریفک پولیس کے اہلکار نے اس کو روکا تو ڈرائیور کے پاس لائسنس نہیں تھا اور گاڑی کے شیشے کالے تھے۔'
ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر ایک ہزار روپے جرمانہ کیا گیا جس پر بات بڑھی جبکہ مذکورہ ٹریفک پولیس اہلکار نے خاتون کے ساتھ بدتمیزی کی جس کی ویڈیو بھی موجود ہے۔
’میری بہن بھی پولیس اہلکار کو تھپڑ مارے گی‘
گڑھی حبیب اللہ یونین کونسل کے سابق چیئرمین محمد نزاکت اس وقت وہاں موجود تھے جب پولیس اہلکار کو تھپڑ مارا گیا اور اس کی ویڈیو بھی بنائی گئی۔
محمد نزاکت کا کہنا تھا کہ خاتون کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر لوگ مشتعل ہوگئے تھے اور انھوں نے روڈ بلاک کر دیا تھا۔ معاملے کو حل کرنے کے لیے کئی جرگے ہوئے۔
ان کے مطابق جرگے نے فیصلہ کیا کہ ’ٹریفک پولیس اہلکار خاتون سے معذرت کرے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب ٹریفک پولیس اہلکار کو لایا گیا تو اس نے پہلے معذرت کی اور پھر خاتون نے اس کو تھپڑ مارے۔
خاتون کے بھائی محمد خورشید کہتے ہیں کہ انھوں نے جرگے کے دوران شرط رکھی تھی کہ 'پولیس اہلکار نے پاکستان کی ایک بیٹی کو تھپڑ مارا جس پر میری بہن بھی اس کو تھپڑ مارے گی۔'
محمد خورشید نے بتایا کہ اسی فیصلے کی روشنی میں ان کی بہن نے پولیس اہلکار کو تھپڑ مارا۔
ڈی پی او مانسہرہ شفیع اللہ گنڈاپور نے بتایا کہ معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے سینیئر افسران کو ٹاسک سونپا گیا تھا کہ وہ معاملے کو حل کرائیں کیونکہ روڈ بلاک ہوچکا تھا۔ ’خاتون کے ساتھ بدتمیزی ناقابل برداشت تھی۔۔۔ جس پر کہا گیا کہ ایک بیٹی کے ساتھ بدتمیزی کرنے پر وہ معذرت کرے گا اور قانونی کاروائی ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ٹریفک پولیس اہلکار کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو بھی سامنے آچکی ہے۔ ’یہ صورتحال ناقابل برداشت ہے، پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو یہ فیصلہ کرے گی کہ یہ سب کیسے اور کیوں ہوا اور کیسےپولیس اہلکار کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو منظر عام پر آئی۔‘
اس واقعے پر اٹھنے والے سوالات
دوسری طرف علاقے کے سیاسی و سماجی رہنما محمد صالح کا دعویٰ ہے کہ ٹریفک پولیس اہلکار نے 'خاتون کے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں کی' بلکہ بالاکوٹ پولیس کے افسران نے اپنے اہلکار کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ 'پہلے اس کو تھپڑ مروایا اور پھر اس کی ویڈیو کو وائرل کر دیا۔ معاشرے میں اس کا بھی مقام ہے اور میرا مطالبہ ہے کہ ان افسران کے خلاف کارروائی کی جائے۔'
ممتاز قانون دان ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ یہ سارا واقعہ تو یہ منظر نامہ پیش کر رہا ہے کہ قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ 'سزا دینے کا اختیار صرف عدالتوں کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ کسی کے پاس نہیں۔ پولیس والے ہوں یا عوام، وہ خود فیصلے نہیں کرسکتے ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ خاتون کے ساتھ مبینہ بدتمیزی پر پولیس اہلکار کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے تھی اور سزا ملنی چاہیے تھی نہ کہ 'از خود جرگہ منعقد کر کے یہ فیصلہ کرنا کہ اب خاتون پولیس اہلکار کو تھپڑ ماریں گی۔'
'میں تسلیم کر لیتا کہ پولیس اہلکار نے زیادتی کی ہوگی مگر اس کو تھپڑ مارنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں ہے۔'
'اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور پولیس کیسے قانون کی پاسداری یقینی بناتے ہیں۔'