ہولوکاسٹ: وہ 90 منٹ جن میں نازیوں نے ’یہودیوں کے مسئلے‘ کا ’حتمی حل‘ تلاش کیا

رین ہارڈ ہائیڈرخ نازی جرمنی کے سب سے خوفناک آدمیوں میں سے ایک تھا، ایسا شخص جو کوئی غلط کام کرنے سے نہیں ہچکچاتا تھا۔ مورخ نوربرٹ کیمپے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ وہ شخص تھا جس کا ہر برے کام کے پیچھے مرکزی کردار تھا۔ اور ظاہر ہے، یہود دشمنی، نازی نظریے کا ایک مرکزی نقطہ تھا۔ ایک طویل عرصے تک وہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے والا واحد شخص بننا چاہتا تھا۔‘
La sede de la Conferencia de Wannsee
Getty Images
وانسی کانفرنس مغربی برلن کی ایک حویلی میں منعقد ہوئی

نوٹ: یہ تحریر بی بی سی نے پہلی بار 2 فروری 2022 کو شائع کی تھی جسے دوسری عالمی جنگ میں یہودیوں کے قتلِ عام (ہولوکاسٹ) کی یاد میں منائے جانے والے عالمی دن کی مناسبت سے آج دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

15 افراد کی یہ ملاقات اگرچہ صرف 90 منٹ تک جاری رہی تھی لیکن اس نے 80 سال قبل یورپ میں لاکھوں افراد کی زندگیوں کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔

20 جنوری 1942 کو جرمنی کے قائد ایڈولف ہٹلر کی نازی حکومت کے 15 کے لگ بھگ اعلیٰ عہدے دار برلن کی جھیل وانسی کے ساحل پر واقع ایک حویلی میں ملے۔

موسمِ سرما میں اس دن کسی بڑی ضیافت کا اہتمام نہیں تھا۔ نازی لیڈروں میں سے ایک، رین ہارڈ ہائیڈرچ کی موجودگی میں ایک بڑی سی میز پر بس دو تین ڈشز ہی پیش کی گئیں۔

وہ وہاں ایک نکتے پر بات کرنے کے لیے موجود تھے: ’یورپ میں یہودیوں کے مسئلے کا حتمی حل۔‘

اس رسمی ملاقات کے دوران نازی حکام خوش گپیاں لگانے کے ساتھ ساتھ یورپ میں یہودیوں کی گرفتاریوں، حراست اور اجتماعی قتل پر اتفاق کر رہے تھے۔

وہ ایک کروڑ دس لاکھ یہودیوں کی بات کر رہے تھے۔

ڈیڑھ گھنٹے جس موضوع پر بحث ہوتی رہی وہ یہودی ہولوکاسٹ تھا اور اس موقع کو ’وانسی کانفرنس‘ کا نام دیا تھا ۔

Reinhard Heydrich
Getty Images
ہائیڈرخ کو 'ہولوکاسٹ کا معمار' کہا جاتا ہے

وہ شخص جس کاہر برے کام کے پیچھے ہاتھ تھا

رین ہارڈ ہائیڈرخ نازی جرمنی کے سب سے خوفناک آدمیوں میں سے ایک تھا، ایسا شخص جوکوئی غلط کام کرنے سے نہیں ہچکچاتا تھا۔

1934 میں اس شخص نے ہی نائٹ آف دی لانگ نائیوز کی منصوبہ بندی کی تھی، جس کا مقصد ہٹلر کی بنائی گئی نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی سے ناپسندیدہ لوگوں کا صفایا تھا۔ اور یہ وہی تھا جس نے پولینڈ پر جرمن حملے کا بہانہ بنایا جس سے دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی۔

مورخ نوربرٹ کیمپے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ وہ شخص تھا جس کا ہر برے کام کے پیچھے مرکزی کردار تھا۔ اور ظاہر ہے، یہود دشمنی، نازی نظریے کا ایک مرکزی نقطہ تھا۔ ایک طویل عرصے تک وہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے والا واحد شخص بننا چاہتا تھا۔‘

پرل ہاربر پر حملے کے بعد دسمبر 1941 میں، امریکہ نے جرمنی اور اس کے اتحادی ممالک کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا، لہذا جرمن رہنماؤں کے پاس نازی نظریے کے فروغ سے متعلق کئی چیزیں قابلِ غور تھیں۔

اور ان میں سے ایک ’یہودی‘ تھے، نازیوں نے خود ہی یہود دشمنی کا دعویٰ کیا تھا اور وہ کئی مہینوں سے یورپ میں ہٹلر کے زیر کنٹرول علاقوں سے دسیوں ہزار یہودیوں کو گرفتار یا مارتے آ رہے تھے۔

ہائیڈرچنے وانسی کانفرنس ایک ’پروٹوکول‘ بنانے کے لیے بلائی تھی، یعنی یہودیوں کو اکھٹا کرکے انھیں مارنے کے عملی اقدامات کیا ہوں گے۔

لیکن میٹنگ میں شرکت کرنے والے 15 سینئر نازی رہنماؤں نے ان اقدامات کو ان الفاظ کے ساتھ پیش نہیں کیا بلکہ جبری جلا وطنی کی جگہ ’انخلا‘ اور اجتماعی قتل کی جگہ ’آبادی میں کمی‘ جیسے الفاظ کا چناؤ کیا۔

Los participantes de la Conferencia de Wannsee
Getty Images
ونسی کانفرنس میں 15 سرکردہ نازی رہنماؤں نے شرکت کی

کیمپے بتاتے ہیں ’ہائیڈرخ نے دو تجربہ کار قاتلوں کو مدعو کیا جن میں ڈاکٹر روڈولف لینج اور ڈاکٹر کارل ایبر ہارڈ شونگارتھ شامل تھے۔ یہ دونوں پہلے ہی یہودیوں کو قتل کر چکے تھے۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’شرکا میں سے کئی کے پاس ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں تھیں اور وہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد تھے۔ یہ قاتلوں کا خاصا پرجوش قسم کا گروپ ہے۔‘

اس منصوبہ بندی کے لیے بعد میں ہائیڈرچ کو ’ہولوکاسٹ کا معمار‘ پکارا جائے گا۔


ونسی کانفرنس میں شریک 15 افراد

رین ہارڈ ہائیڈرخ، جرمن ریخ میں سیکورٹی آفس کے سربراہ

اوٹو ہوفمین، ایس ایس ریس اور مرکزی سیٹلمنٹ آفس کے سربراہ

ہینرک مولر، گیسٹاپو کے سیکشن فور کے سربراہ

روڈولف لینج، لٹویا میں سیکورٹی پولیس کے کمانڈر

کارل شونگارتھ، سیکورٹی پولیس کے کمانڈر

ولہیم سٹکارٹ، سیکرٹری وزارت داخلہ برائے ریخ

جارج لیبرینڈٹ، مقبوضہ مشرقی علاقوں کے انڈر سیکرٹری

ایرک نیومن، فور ائیر پلاننگ دفتر کے سربراہ

فریڈرک کرٹزنجر، ریخ میں چانسلری کے سیکرٹری

گیرہارڈ کلوفر، ریخ میں چانسلری کے سیکرٹری

ایڈولف ایخ مین، گیسٹاپو کے گروپ فور کے سربراہ

الفریڈ میئر، ریخ کے نائب وزیر

جوزف بوہلر، پولینڈ کے سیکرٹری

رولینڈ فریسلر، ریخ کی وزارت انصاف کے سیکرٹری

مارٹن لوتھر، دفتر خارجہ میں انڈر سیکرٹری

Los participantes de la Conferencia de Wannsee
Getty Images

کونیاک (فرانسیسی برانڈی) کے ساتھ ہونے والی ملاقات

ہولوکاسٹ پر تحقیق کرنے والے کئی مورخین اور ماہرین کا اصرار ہے کہ وانسی میں جمع ہونے والے 15 افراد کو انسانیت کے خلاف جرائم کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے کیونکہ انھوں نے وہاں پر اتفاق کیا گیا تھا، اور یہ وہ نظریہ تھا جس کا پرچار ہٹلر سے لے کر نیچلے درجہ تک کئی لوگ کرتے تھے۔

لیکن ان سب کے درمیان، لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں ہائیڈرخ کےخوفناک منصوبے اور سوچ اسے سب سے نمایاں بناتے ہیں۔

ہائیڈرخ، ریخ میں سکیورٹی آفس کے سربراہ کے طور پر ایس ایس کے سربراہ ہینرک ہملر کے بعد دوسرے نمبر پر تھے۔

کیمیے کہتے ہیں ’کانفرنس کا اصل مقصد اس کی طاقت کو ظاہر کرنا تھا اور یہ بتانا تھا کہ اب وہ انچارج ہے۔‘

ہائیڈرخ نے اس گھر میں کچھ نوجوان یہودیوں کو جبری کام کاج پر رکھا ہوا تھا اور اسی باعث سالوں بعد محققین کو اس کانفرنس کی تفصیلات جاننے میں مدد ملی ہے۔

La sede de la Conferencia de Wannsee
Getty Images
یہ مکان اب ہولوکاسٹ کی یادگار کے طور پر عوام کے لیے کھلا ہے

وہاں جو کچھ ہوا اسے جاننے کا دوسرا بڑا ذریعہ وہ نوٹس تھے جو ہیڈرخ کے یہودی امور کے ماہر ایڈولف ایخ مین نے تیار کیے تھے۔ مگر صرف ایک ہی کاپی محفوظ رہ پائی تھی۔

اسرائیل میں 1961 میں اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران، ایخ مین نے مزید تفصیلات فراہم کیں۔

’مجھے یاد ہے کہ وہاں موجود لوگوں میں سے ایک ایک کو بولنے کا موقع دیا گیا، جیسا کہ ان مواقع پر رواج تھا۔ ماحول بہت پرسکون، بہت دوستانہ، بہت شائستہ تھا۔ زیادہ کچھ نہیں کہا گیا تھا اور ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ویٹر شراب سرو کرنے پہنچے۔‘

90 منٹ بعد وہ اس بات پر متفق ہوئے کہ ’یورپ میں یہودیوں کا مسئلے‘ سے کیسے نمٹنا ہے۔

وانسی پروٹوکول

ہائیڈرخ نے میٹنگ کا آغاز یہ اعلان کرتے ہوئے کیا کہ ہٹلر کے ساتھی ہرمن گورنگ نے اسے ’حتمی حل‘ کی تیاریوں کا ذمہ دار بنا دیا ہے۔

کمپے بتاتے ہیں ’حتمی حل سے پہلے صرف یہودیوں کو جرمن اثر و رسوخ کے علاقوں سے نکالا جا رہا تھا، لیکن اس دن کانفرنس کے بعد حتمی حل کا مطلب تھا ’یورپ میں یہودیوں کی زندگیوں کی مکمل تباہی۔‘

Judíos detenidos por los nazis
Getty Images
کانفرنس سے پہلے ہی یہودی یورپ کے کئی شہروں میں بڑے پیمانے پر نظربندی کا سامنا کر رہے تھے

یورپ میں پہلے ہی سے یہودیوں کو جبری ہجرت پر مجبور کیا جا رہا تھا، مگر ہائیڈرخ نے اپنی سرد زبان میں کہا کہ اس کے بعد یہودیوں کو جلاوطنی کے کیمپوں میں بھیج دیا جائے گا۔

پروٹوکول کے مطابق ’فیورر (ہٹلر) کی پیشگی منظوری کے ساتھ، فی الحال یہودیوں کا مشرق کی جانب انخلا ہجرت کے امکان کو ختم کر دیتا ہے اور ایک ممکنہ اضافی حلہے۔ تاہم، آئندہ حتمی حل کے پیشِ نظر ان کارروائیوں کو یہودیوں کے مسئلے کا عارضی حل سمجھا جانا چاہیے۔‘

کیمپے بتاتے ہیں کہ ہائیڈرخ زیادہ بولنے کا شوقین نہیں تھا اور وہ اپنی جسمانیساخت میں اتنا رعب دار بھی نہیں تھا ’لیکن یقیناً سب جانتے تھے کہ وہ ایک خطرناک آدمی ہے‘ اس لیے انھوں نے دھیان سے اس کی بات سنی۔‘

پروٹوکول کے پاس یورپ کے ہر ملک میں کتنے یہودی رہتے تھے، اس کا مکمل ریکارڈ موجود تھا، حتیٰ کہ اس میں نازی کنٹرول سے باہر انگلینڈ اور سوویت یونین وغیرہ میں رہنے والے یہودیوں کا ڈیٹا بھی شامل تھا۔

’حتمی حل‘ میں یورپ میں رہنے والےایک کروڑ دس لاکھ یہودیوں کے مستقبل کا فیصلہ کیا گیا۔

La portada del Protocolo de Wannsee
Getty Images
وانسی پروٹوکول کی ایک کاپی اتحادیوں کو جرمن دفتر خارجہ سے ملی

اس کے بعد ہائیڈرخ کی طرف سے کچھ عجیب و غریب آئیڈیاز سامنے آئے جن میں 65 برس سے زیادہ عمر کے یہودیوں کو بوڑھوں کے لیے بنائی جانے والی یہودی بستیوں میں اور صحت مند افراد کو مشرق میں سخت مشقت کے لیے بھیجنا شامل تھا۔

دستاویزات بتاتی ہیں کہ وہ چاہتے تھے کہ ان میں سے زیادہ سے زیادہ افراد قدرتی موت مر جائیں۔ اور بچ جانے والوں کو ’حتمیٰ حل‘ کا حصہ بننا پڑے گا۔

اس کے متن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کچھ افراد بچ گئے تو وہ دنیا میں یہودوں کے وجود کا سبب بن کر ابھریں گے۔

یہ بھی پڑھیے

نازی کیمپ: جہاں انسان مویشی بوگیوں میں لائے گئے

یہودی لڑکی نازیوں سے چھپنے میں کیسے کامیاب ہوئی؟

’نازیوں کا شکاری‘ جو ہولوکاسٹ کے 80 سال بعد بھی ممکنہ مجرموں کے تعاقب میں ہے

Ancianos judíos detenidos por los nazis
Getty Images
پروٹوکول کے مطابق 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو بوڑھوں کے لیے یہودی بستیوں میں رکھا گیا جن میں سے ہزاروں مارے گئے

پھر پروٹوکول نے اس پر بحث کی کہ ’مخلوطالنسل‘ لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔

جنگی سازوسامان کی وزارت سے تعلق رکھنے والا ایرک نیومن، چاہتا تھا کہ فیکٹریوں میں کام کرنے والے یہودی ملازمین کو ملک بدر نہ کیا جائے۔

اسے یہ یقین دلایا گیا کہ ان یہودی ملازمین کو صرف تب ہی ملک بدر کیا جائے گا جب مشرقی یورپ سے آنے والے غلام مزدور وہاں کام کرنے کے لیے دستیاب ہوں گے۔

’وہاں ختم اور قتل کر دینے کی باتیں ہوئیں‘

اپنی 1961 کی گواہی میں، ایڈولف ایخ مین نے بتایا کہ آفیشل میٹنگ ختم ہونے کے بعد، مزید کونیاک (فرانسیسی برانڈی) منگوائی گئی اور پروٹوکول کی رسمی زبان کے برعکس لوگوں نے کھل کر بات چیت شروع کی۔

ایخ مین کہتے ہیں ’وہاں ختم اور قتل کر دینے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ درحقیقت، مجھے خود ایک ایکٹ لکھنے کے لیے تیاری کرنی تھی اس لیے میں وہاں کھڑے ہو کر سب کچھ سن نہیں پایا لیکن بعد میں ساری باتیں مجھ تک پہنچیں۔‘

Adolf Eichmann en su juicio
Getty Images
ایخ مین پر یروشلم میں مقدمہ چلایا گیا اور انھیں پھانسی دی گئی

کیمپے بتاتے ہیں کہ اس میٹنگ میں موجود ہر شخص بڑے پیمانے پر یہودیوں کی تباہی کے اختیارات ملنے پر مطمئن نظر آتا ہے۔

مورخین کا کہنا ہے کہ ’ایخ مین نے اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا ’میں کانفرنس میں سب سے کم رینک کا افسر تھا اور وہاں جو لوگ موجود تھے وہ تھرڈ ریخ کے پوپ تھے۔ جب وہ اس سے اتنے مطمئن تھے تو میں یہ کیوں سوچتا کہ یہودیوں کو مارنا ٹھیک تھا یا غلط؟‘

وانسی کانفرنس کے ایک ہفتے بعد، ہائیڈرخ نے یہودیوں کے لیے ملک بدری کے پہلے احکامات جاری کیے تھے۔

اگرچہ وہ پانچ ماہ بعد چیکوسلواکیہ میں شدید زخمی ہو گیا تھا لیکن ہولوکاسٹ کا منصوبہ پہلے سے ہی جاری ہو چکا تھا اور پھر اس کے بعد نازی جرمنی کے ہاتھوں یورپ میں تقریباً 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.