یہ کہانی ایک ایسے مبینہ فراڈ کی ہے جس میں گوگل ایپ سٹور پر موجود ایپ کے ذریعے سٹاک میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جاتی ہے اور شروع شروع میں ناقابل یقین منافع بھی ملتا ہے جس کی وجہ سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں۔
اسلام آباد کے رہائشی تیمور رشید شاید کسی عام پاکستانی شہری کے مقابلے سٹاک مارکیٹ کو بہتر سمجھتے تھے کیونکہ انھیں شیئرز کی خرید و فروخت کا خاصا تجربہ تھا۔
مگر زیادہ منافع کی خواہش میں انھوں نے ایک ایسے پلیٹ فارم پر 10 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کر لی جہاں وہ شیئرز خرید تو پا رہے تھے اور ان کی قدر میں تیزی سے ہوتا ہوا اضافہ بھی دیکھ پا رہے تھے مگر انھیں افسوس اس بات کا تھا کہ وہ منافع کے بعد اپنے 50 لاکھ روپے مالیت کے شیئرز فروخت کرنے سے قاصر تھے۔
وہ بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ایک روز پتا چلا کہ وہ ایپ جو کہ انھوں نے گوگل پلے سٹور سے ڈاؤن لوڈ کی تھی اور وہ ویب سائٹس جہاں انھوں نے حصص کے اتار چڑھاؤ پر نظریں تان رکھی تھیں، سب غائب ہوگیا۔
یہ کہانی ایک ایسی مبینہ جعلسازی کی ہے جس کے حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 41 سے زیادہ درخواستیں موصول ہونے کے بعد کم از کم تین مقدمات درج کیے ہیں۔ ان درخواستوں میں متاثرین نے مجموعی طور پر قریب 17 کروڑ روپے کے نقصان کا دعویٰ کیا ہے۔
ایف آئی اے نے اپنی تفتیش کے دوران آن لائن فراڈ کے الزام میں دو چینی شہریوں کو گرفتار کیا ہے۔ 25 جنوری 2025 کو اسلام آباد کی مقامی عدالت کے جج محمد عباس شاہ نے ملزمان کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا جس کے بعد ایک روز کی توسیع بھی دی گئی۔
ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے اس کیس پر سماعت کے دوران عدالت کو بتایا ہے کہ ایجنسی نے مبینہ طور پر دھوکے اور فراڈ سے حاصل کردہ 50 لاکھ روپے ریکور کر لیے ہیں جبکہ ابھی مزید لاکھوں روپے کی ریکوری ہونا باقی ہے۔
دوسری طرف گرفتار چینی شہریوں کے وکیل رضوان عباسی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ان کے ’دونوں کلائنٹ بے گناہ ہیں جنھیں پھنسایا گیا ہے اور اس فراڈ کے اصل ملزمان فرار ہو گئے ہیں۔‘
موبائل ایپ، سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر تشہیر
اسلام آباد ایف آئی اے سائبر کرائم نے چند ہفتوں کے دوران چینی شہریوں کے خلاف کم از کم تین مختلف مقدمات درج کیے ہیں۔ جبکہ ان کے مطابق مبینہ جعلسازی میں متعدد پاکستانی شہریوں کو بھی شریک ملزم قرار دیا ہے۔
24 جنوری 2025 کو محمد انوار الحق اعوان کی درخواست پر ایف آئی اے نے اپنی تفتیش مکمل ہونے کا بعد مقدمہ درج کیا۔
مقدمے کے متن کے مطابق سائبر کرائم کی ایک انکوائری رپورٹ (آر ای 91/2025) میں پایا گیا کہ دو چینی شہری اور ان کے ساتھ موجود پاکستانی شہری مبینہ طور پر آن لائن سرمایہ کاری، پاکستانی سٹاک ایکسچینج اور ’آئی جی آئی ایل‘ نامی ایپ کے ذریعے فراڈ میں ملوث پائے گئے ہیں۔
اس کے مطابق بینک میں فراڈ کے ذریعے جمع کروائی گئی رقم کی تفصیل موجود ہے جو کہ تقریباً 51 ملین روپے بنتی ہے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم اسلام آباد ہی میں ایک دوسرا مقدمہ اس سے قبل 27 دسمبر 2024 کو اسلام آباد کے محمد عمران نوازش کی درخواست پر درج کیا گیا ہے۔ اس مقدمہ میں بھی ان دو چینی شہریوں کو ملزم قرار دیا گیا ہے جن کے خلاف 24 جنوری 2025 میں دوبارہ مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس مقدمہ میں ان کے ساتھ کچھ اور پاکستانی شہری بھی ملزم نامزد ہیں۔
اس مقدمے کے متن کے مطابق انکوائری نمبر (آر ای 1427/2024) میں پایا گیا ہے کہ مبینہ طور پر چین کے دو شہری اور متعدد پاکستانی شہری قریب 6390000 روپے ایک فراڈ کے ذریعے بینک میں جمع کروانے کے مرتکب پائے گئے ہیں۔
ایک اور درج مقدمہ مورخہ 20 اکتوبر 2024 کو اسلام آباد کے حارث شیخ کی درخواست پر درج کیا گیا تھا۔ اس مقدمہ میں ایک اور چینی شہری کو نامزد کیا گیا ہے جو کہ پہلے دو مقدمات میں نامزد نہیں۔ اس کے متن کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم کی انکوائری رپورٹ نمبر (آر ای 1235/2024) میں پایا گیا ہے کہ چین کے شہری اپنے پاکستانی شہریوں کے ساتھ مبینہ طور پر مالی فراڈ کے مرتکب ہوئے ہیں۔
مقدمے کے متن کے مطابق اس فراڈ کا مرکزی ملزم برطانیہ کے بارکلے بینک کا ملازم ہے جس نے بینک کا نام غلط طور پر استعمال کیا۔ اس کے مطابق انھوں پاکستان سٹاک ایکسچینج اور چین سٹاک ایکسچینج کے نام پر ’فراڈ کر کے لوگوں سے غلط طور پر رقوم بینک میں جمع کروائی ہیں‘ جبکہ اس فراڈ کا تخمینہ 1939700 روپے لگایا گیا ہے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم کی عدالت میں جمع کروائی گئی ایک تفتیشی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اور پاکستان کے شہریوں نے سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس کے ذریعے تشہیر کی کہ وہ پاکستان سٹاک ایکسچینج اور چین میں آن لائن سرمایہ کاری آئی جی آئی ایل ایپ کے زریعے سے کرنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔
تفتیش میں کہا گیا ہے کہ اس ایپ کی وائیٹس ایپ گروپوں اور سوشل میڈیا کے زریعے سے تشہیر کی گئی اور غلط طور پر دعوی کیا گیا کہ یہ وہ بین القوامی سٹاک مارکیٹ اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنے کے لیئے قانونی کمپنی ہیں۔
تفتیش میں کہا گیا ہے کہ ’آئی جی آئی ایل‘ نامی ایپ پر ایک جعلی سرمایہ کاری پروگرام کے ذریعے سے سرمایہ کاروں کو راغب کیا جاتا تھا کہ وہ پاکستان اور چین کی مارکیٹ میں اچھا منافع مل کما سکتے ہیں۔ اس کے مطابق نہ صرف شکایت کنندگان سے بینکوں میں پیسے جمع کروائے گئے بلکہ یہ چیز بھی ریکارڈ پر ہے کہ اِن دو چینی شہریوں نے مقامی بینک اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے اپنے تمام کاغذات فراہم کیے تھے۔
خیال رہے کہ 29 نومبر 2024 کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے خبردار کیا تھا کہ ’آئی جی آئی ایل‘ ایک غیر قانونی ٹریڈنگ پلیٹ فارم ہے جو سوشل میڈیا اور واٹس ایپ کے ذریعے سٹاک ایکسچینج اور بین الاقوامی سٹاک مارکیٹ میں بھاری منافع کا وعدہ کرتی ہے۔ اسی طرح ’آئی جی آئی سکیورٹیز‘ نامی کمپنی نے بھی نشاندہی کی تھی کہ گوگل پلے سٹور پر موجود آئی جی آئی ایل ایپ جعلسازی میں ملوث ہے اور اس کا ان کی کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
’ایپ مصنوعی ذہانت سے چلتی تھی، سرمایے سے کرپٹو کرنسی خریدی گئی‘
اس کیس میں ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنےکی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ بظاہر ’فراڈ مکمل منصوبہ بندی سے کیا گیا ہے جس میں زیادہ تر چینی شہری شامل ہیں جنھوں نے اپنے ساتھ پاکستانی شہریوں کو بھی شامل کیا۔‘
تفتیشی افسر کے مطابق ’سب سے پہلے تشہیر کی گئی اور انتہائی غیر معمولی منافع کا کہا گیا ہے جو کہ ناقابل یقین ہے۔‘
’کچھ لوگوں کو سرمایہ کاری کرنے پر (ابتدا میں) معمول سے کئی گنا زیادہ منافع دیا گیا۔ جن لوگوں کو منافع دیا گیا ان کو طریقے کے ساتھ اپنا سہولت کار بنایا گیا تھا کہ وہ اس منافع کا دوسروں سے ذکر کرتے اور ان لوگوں کو (بھی) سرمایہ کاری کے لیے قائل کریں۔‘
تفتیشی افسیر کے مطابق ملزمان نے ’کئی پاکستانیوں کو ملازمتیں دیں اور ان کی ذمہ داری لگائی کہ وہ ان کے لیے سرمایہ کاری لائیں۔ یہ کام ملازمتوں کے علاوہ کمیشن پر بھی کروایا جاتا تھا۔ جو کمیشن دیا جاتا وہ بھی غیر معمولی تھا۔‘
ایف آئی اے کے اہلکار کا کہنا تھا کہ ’جو بھی دھوکے میں آ کر سرمایہ کاری کرتا اس کو پہلے، دوسرے، تیسرے ماہ منافع دیا گیا جس سے ان کی شہرت بڑھی اور مزید سرمایہ آتا تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ملزمان نے ’محتاط رہتے ہوئے بینکوں میں موجود سرمایے کے ذریعے کرپٹو کرنسی خریدی۔‘
تفتیشی افسر کے مطابق کچھ کسیز میں پتا چلا ہے کہ بینک اکاؤنٹ پاکستانیوں کے ذریعے کھلوائے جاتے تھے۔ ’جب وہ بڑی حد تک سرمایہ کاری حاصل کر لیتے تو پہلا کام کرپٹو کرنسی خریدنے کا کرتے تھے اور یہ کام وہ اپنے پاکستانی ساتھیوں کے ذریعے کرواتے اور پھر اس کے بعد ایپ اور ویب سائٹ انٹرنیٹ پر موجود رہنے کے باوجود عملی طور پر غیر فعال ہوجاتی تھی۔‘
تفتیشی افسر کے مطابق یہ ایپ اور ویب سائٹ ’مصنوعی ذہانت کے ذریعے تیار کروائی گئی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا کوئی دفتر وغیرہ نہیں ہوتا تھا اور سرمایہ کاری کر کے دھوکے کا نشانہ بننے والے کبھی بھی اس میں ان کے دفتر نہیں گئے اور نہ ہی ملاقات کی۔ جو کچھ بھی ہوا آن لائن ہوا تھا۔‘
درجنوں متاثرین اور کروڑوں کے نقصان کا دعویٰ
وحید الرحمن ایڈووکیٹ کم از کم 41 متاثرین کے وکیل ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان 41 افراد سے کم از کم 109 ملین روپے کا فراڈ ہوچکا ہے اور اس کے علاوہ اب بھی کئی لوگ رابطے کر رہے ہیں۔ ان کے بقول متاثرین کی تعداد سینکڑوں میں بھی ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس فراڈ کا آغاز گذشتہ سال کے وسط میں بیک وقت پورے ملک میں ہوا تھا۔ ’لوگوں کو بتایا گیا تھا کہپاکستان اور چین کے علاوہ مختلف بین الاقوامی سرمایہ کاری اور منافع کے مواقع ہیں۔ اس کے لیے باقاعدہ بینک میں اکاؤنٹ کھولے گئے تھے۔‘
وحید الرحمن کا کہنا تھا کہ ’لوگوں سے کہا جاتا رہا کہ آپ لوگ بینک میں پیسے جمع کروائے جس کی وجہ سے بھی لوگ اعتماد کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بینک میں کمپنی کے اکاؤنٹ میں پیسے جمع کروانے سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا مگر انھوں نے یہاں ہی سے فراڈ کی بنیاد رکھی تھی۔‘
ان کا دعویٰ تھا کہ ایسے ہی ایک مقدمے میں ایک اور چینی شہری گرفتاری ہوا تھا جس کی ضمانت کی درخواست اس وقت زیرِ التوا ہے۔
وحید الرحمن کا کہنا تھا کہ اس فراڈ میں تین مقدمات تو درج ہوچکے ہیں مگر مزید کئی لوگوں کی درخواستیں جو کہ ایک ہی نوعیت کی ہیں، ان پر ابھی تک باقاعدہ مقدمات درج نہیں ہوئے ہیں۔
ایف آئی اے کے مطابق وصول درخواستوں پر تفتیش ہو رہی ہے اور تفتیش کے بعد مقدمات درج کرنے کے حوالے سے فیصلہ ہوگا۔
’چینی سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری‘ کا جھانسہ
ماضی میں سٹاک ایکسچینج سے منسلک رہنے والے شہری تیمور رشید اس لیے میدان میں اترے تھے کیونکہ اس مبینہ جعلسازی میں ’برطانوی کی مشہورِ زمانہ بین الاقوامی کمپنی کا نام جوڑا گیا تھا۔‘
انھوں نے اس لیے اس میں سرمایہ کاری کی کیونکہ اچھے منافع کا وعدہ کیا جا رہا تھا جس سے انھیں ’تجسس‘ ہوا۔
تیمور رشید کا کہنا تھا کہ ’میں محتاط تھا، ایک ماہ تک دیکھتا رہا کہ کیا ہوتا ہے۔ اس ایک ماہ میں اندازہ لگایا کہ سٹاک ایکسچینج کے اتار چڑھاؤ کے حوالے سے یہ جو پیش گوئیاں کرتے تھے وہ نوے فیصد درست ثابت ہوتی تھیں۔ میں دیگر بروکر کمپنیوں کے ساتھ بھی منسلک تھا، ایسا میں نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔‘
انھوں نے 50 ہزار روپے سے سرمایہ کاری شروع کی اور ’شروع میں تو میرا تجربہ بڑا شاندار تھا۔ مجھے غیر معمولی منافع ہوا جس سے میری حوصلہ افزائی ہوئی اور میں نے اپنی سرمایہ کاری کو بڑھانا شروع کر دیا۔‘
ان کی سرمایہ کاری آہستہ آہستہ تین لاکھ روپے تک پہنچ گئی۔ ’اس موقع پر کہا گیا کہ اس وقت چین کے اندر کچھ شیئرز میں سرمایہ کاری کے بہت اچھے مواقع دستیاب ہیں۔ اس کو آئی پی او کہا جاتا ہے (یعنی کسی کمپنی کی جانب سے ابتدائی طور پر سٹاک ایکسچینج میں لِسٹ ہوجانا اور اپنے شیئرز پہلی بار فروخت کرنا)۔‘
تیمور نے اسی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ’اپنا سارا سرمایہ لگا دیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ایپ پر یہ بتایا گیا کہ میرے اکاؤنٹ میں وہ شیئرز آ گئے ہیں۔ جس وقت انھوں نے شیئرز فروخت کرنا چاہے تو ان کی قدر میں اچانک ’حیرت انگیز اضافہ ہوا تھا۔ مگر میں ان کو فروخت نہیں کر پا رہا تھا۔‘
تیمور رشید نے ’رابطہ کیا تو انھوں نے مجھے کہا کہ اس موقع پر ایسا ممکن نہیں ہے کہ آپ اپنے ان شیئرز کا کاروبار کرسکیں بلکہ آپ کو مزید سرمایہ کاری کرنا پڑے گی جس کے بعد اپ 50 فیصد شئیرز کی خرید و فروخت کرسکیں۔ مجھے یہ بھی کہا گیا کہ میں مزید پیسوں کا انتظام کروں اور کچھ پیسے وہ ادھار دے دیں گے۔‘
لیکن یہ ان کی ’بدقسمتی‘ تھی کہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ ’میرا 10 لاکھ روپے سرمایہ لگ چکا تھا اور میرے شیئرز کی مالیت 50 لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔‘
’ہم بہت خوش تھے مگر جب اس کے ایک دو دن بعد کاروبار کرنا چاہا تو وہاں پر سب کچھ ٹھپ تھا۔‘