مہا کمبھ میلے میں بھگدڑ سے 30 افراد ہلاک: ’ان کا ہاتھ چھوٹا اور وہ پلک جھپکتے ہی غائب ہو گئے‘

انڈیا کے قدیم شہر پریاگ راج (الہ آباد) میں مہا کبھ کے میلے میں بھگدڑ مچنے سے متعدد افراد ہلاک اور درجنوں لاپتا ہو گئے ہیں۔ حکام نے سرکاری حکام نے ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق نہیں کی ہے۔ تاہم ملک کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کا سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' پر ایک پوسٹ میں کہنا تھا کہ انھیں مہا کمبھ میں زائرین کی ہلاکتوں پر افسوس ہے۔
انڈیا
Getty Images

انڈیا کے قدیم شہر پریاگ راج (الہ آباد) میں بدھ کے روز مہا کبھ کے میلے میں بھگدڑ مچنے سے 30 افراد ہلاک ہو گئے۔

حکام کی جانب سے کئی گھنٹوں تک اس واقعے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تصدیق نہیں کی گئی۔ بالآخر بدھ کی شام ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پولیس کے ایک سینیئر اہلکار ویبھو کرشنا نے بتایا کہ حادثے کے بعد 90 افراد کو زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا تھا جن میں سے 30 کی ہلاکت ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں سے 25 کی شناخت کی جا چکی ہے۔

اس سے قبل حکام کی جانب سے اموات کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی تھی تاہم ملک کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں کہنا تھا کہ انھیں مہا کمبھ میں زائرین کی ہلاکتوں پر افسوس ہے۔ لیکن ان کی جانب سے بھی ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔

دوسری جانب بی بی سی ہندی کے نامہ نگار وکاس پانڈے کو محکمہ صحت کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس بھگدڑ میں 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس اہلکار کا کہنا تھا کہ اس نے جائے وقوعہ پر متعدد لاشوں کو پڑے ہوئے دیکھا ہے۔

مہا کمبھ کا میلہ ہر 12 برس میں ایک مرتبہ منعقد ہوتا ہے جس میں کروڑوں افراد شرکت کرتے ہیں۔ یہ میلہ 13 جنوری کو شروع ہوا تھا اور تقریباً چھ ہفتے جاری رہتے ہیں۔

اس میلے کے دوران دنیا بھر سے آنے والے عقیدت مند سنگم پر غسل کرتے ہیں، یہ وہ مقام ہے جہاں ہندو عقیدے کے مطابق مقدس دریا گنگا، جمنا اور اساطیری دریا سرسروتی ملتے ہیں۔

انڈیا
Getty Images

بدھ کو اُتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ مہا کمبھ کے دوران وہاں ایک بہت بڑا جمِ غفیر اُمڈ آیا ہے اور اب تک تقریباً تین کروڑ افراد وہاں غسل کر چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صورتحال قابو میں ہے اور کسی کو منفی خبریں نہیں پھیلانی چاہییں کیونکہ اس کے نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔

میلے میں بھگدڑ کیسے مچی؟

اُتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کے مطابق میلے میں بھگدڑ رات ’ایک اور دو بجے کے درمیان‘ مچی جب کچھ عقیدت مندوں نے پولیس کی جانب سے رکاوٹیں ہٹا کر سنگم پہنچنے کی کوشش کی۔

دوسری جانب اس حادثے سے متاثر ہونے والے افراد کمبھ میلے کی انتظامیہ اور وہاں کیے جانے والے انتظامات پر انگلیاں اُٹھاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

دہلی سے تعلق رکھنے والے عمیش اگروال نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ جب سنگم گھاٹ کی طرف جا رہے تھے تو انھوں نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی جلد بازی میں وہاں جاتے ہوئے دیکھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'جب لوگ غسل لینے جا رہے تھے تو لگائی گئی رُکاوٹوں کے پاس کچھ لوگ سو رہے تھے۔ اسی سبب کچھ سوئے ہوئے افراد سے ٹکرا کر گر گئے اور جب وہ گِرے تو پیچھے سے آنے والے بھی ایک دھکم پیل کی وجہ سے ایک دوسرے پر گِرنا شروع ہو گئے۔'

ودیا ساھو نامی انڈین شہری بیلجیئم سے خاص طور پر مہا کمبھ میں شرکت کے لیے انڈیا آئی تھیں۔ انھوں نے انڈو ایشیا نیوز سروس کو بتایا کہ وہ یہاں 60 افراد کے گروپ کے ساتھ آئیں تھیں اور ان کے پانچ ساتھی اب بھی لاپتا ہیں۔

انڈیا
Getty Images

مدھیا پردیش سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کا کہنا تھا کہ 'میری والدہ بھگدڑ میں زخمی ہوئی ہیں، وہاں پولیس نہیں تھی اور کوئی ہماری مدد کو نہیں آیا۔ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میری ماں بچیں گی بھی یا نہیں۔'

بی بی سی کو مہا کمبھ میں درجنون افراد اپنے اہلخانہ کو ڈھونڈتے ہوئے دکھائی دیے۔

جھانسی شہر سے تعلق رکھنے والی انیتا دیوی اپنے شوہر کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'میرے شوہر کو دوائیوں کی ضرورت ہو گی لیکن وہ تو میرے پاس ہیں۔ جب بھگدڑ مچی تو ان کا ہاتھ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور وہ پلک جھپکتے ہی غائب ہو گئے۔'

'اتنے گھنٹے گزر چکے ہیں اور میں انھیں اب تک ڈھونڈ نہیں پائی ہوں۔ میں دعا کر رہی ہوں کہ وہ زندہ اور محفوظ ہوں۔'

حکومت اور میلے کی انتظامیہ تنقید کی زد میں

گذشتہ رات مچنے والی بھگدڑ میں ہلاکتوں کے بعد سادھو حصرات اور حکام لوگوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ سنگم کی طرف نہ جائیں بلکہ اپنے قریب ہی واقع دریا کے کنارے پر غسل لے لیں۔

تاہم بااثر ہندو مذہبی شخصیت پریم آنند پوری کا الزام ہے کہ انتظامیہ نے وی آئی پیز کو ترجیح دی اور عام زائرین کے لیے مناسب انتظامات نہیں کیے۔

انڈیا
Getty Images

'ہم تمام فرقوں نے مطالبہ کیا تھا کہ میلے کے انتظامات انڈین فوج کو سونپے جائیں۔ اگر ایسا کر دیا جاتا تو میرا نہیں خیال کہ اتنا بڑا حادثہ ہوتا۔'

اپوزیشن لیڈر راہُل گاندھی نے حادثے کی وجہ 'بدانتطامی' کو قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وی آئی پی لوگوں کو خصوصی توجہ دی گئی اور عام زائرین کو فراموش کیا گیا۔'

کمبھ میلہ کیا ہے؟

چھبیس فروری کو اختتام پذیر ہونے والے اس تہوار کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے انسانیت کے ناقابل تسخیر ورثے کے طور پر تسلیم کیا ہے۔

اس کی بنیاد دیوتاؤں اور راکشسوں کے درمیان امرت کے ایک کمبھ (ایک گھڑے) کے لیے لڑائی کے بارے میں ایک افسانوی کہانی میں پنہاں ہے جو سمندر کے منتھن (کھنگالنے) کے دوران نکلا تھا۔

جیسے ہی دونوں فریق امرت کے کمبھ (برتن) پر لڑ رہے تھے کیونکہ اس کے پینے سے ان سے لافانی ہونے کا وعدہ کیا گیا تھا تو اس میں سے چند قطرے چھلک پڑے اور چار شہروں پریاگ راج، ہریدوار، اجین اور ناسک میں گرے۔

یہ لڑائی 12 آسمانی سالوں تک جاری رہی تھی اور ہر ایک آسمانی سال زمین کے 12 سال کے برابر ہے۔ اس لیے کمبھ میلہ ان چاروں شہروں میں ہر 12 سال منعقد ہوتا ہے۔ درمیان میں ایک اردھ کمبھ یعنی نصف کمبھ ہوتا ہے جسے ہر چھ سال پر منعقد کیا جاتا ہے۔

انڈیا
Getty Images

میلے کا انعقاد چاروں شہروں میں ہوتا ہے لیکن سب سے بڑا مجمع ہمیشہ پریاگ راج میں ہوتا ہے اور وہی ریکارڈ میں جاتا ہے۔

مہا کمبھ 12 سال یا 144 سال بعد آتا ہے

معمر ہندو سادھو مہنت رویندر پوری نے کہا کہ اس بار کا تہوار 'زیادہ خاص' ہے اور اس لیے اسے انھوں نے 'مہا (عظیم) کمبھ' کے طور پر بیان کیا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 'اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاروں اور ستاروں کی موجودہ صف بندی اس سے ملتی جلتی ہے جو اس کے چھلکنے کے وقت موجود تھی۔'

انھوں نے کہا: 'اس طرح کا کمال 12 کمبھ تہواروں یا 144 سال کے بعد دیکھا جا رہا ہے۔'

تہوار میں جانے والوں کے لیے ایک بڑی کشش برہنہ ناگا سادھوؤں، یا سنیاسیوں کی موجودگی ہے۔ اور انھیں ٹھنڈے پانیوں میں غوطہ لگاتے ہوئے دیکھا ایک تماشہ ہے۔

انڈیا
Getty Images

لیکن عقیدت مندوں کے لیے اس کی خاص اہمیت ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ پانی سادھوں کے افکار و خیالات اور اعمال کی پاکیزگی سے متاثر ہوتا ہے۔

دو دن قبل سنیچر کو ناگا سادھوؤں کا یا گروہ بہت شور شرابے کے ساتھ میلے کے میدان میں پہنچے۔

جسم پر راکھ ملے آدمیوں کا ایک گروہ جن میں کچھ ننگے اور کچھ نے صرف کمر کے کپڑے میں ملبوس یا گلے میں گیندے کی مالا، ترشول، تلواریں اور ڈھولک لیے وہاں پہنچے۔

ایک اور گروپ اپنے رہبروں کو رتھوں پر سوار کراکے ایک بڑے جلوس میں میوزک بینڈ، رقاصوں، گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ اپنے کیمپ کی طرف لے گئے۔

حالیہ برسوں میں انڈیا میں بھگدڑ کے واقعات

بدقسمتی سے انڈیا میں بھگدڑ کے واقعات رونما ہونا کوئی نئی بات نہیں بلکہ حالیہ برسوں میں ایسے حادثات میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

اسی مہینے انڈیا ریاست آندھرا پردیش میں مچنے والی بھگدڑ کے سبب چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ گذشتہ برس اُتر پردیش کے ہی ضلع ہتھارس میں ایک مذہبی تقریب کے دوران ایسے ہی واقعے میں 120 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

انڈیا
Getty Images

انڈین حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2021 اور 2022 میں ملک بھر میں بھگدڑ مچنے کے 47 واقعات رونما ہوئے تھے۔

عام طور پر ایسی واقعات کی وجہ مذہبی تقریبات اور تہواروں میں لوگوں کی بڑی تعداد کی موجودگی ہی ہوتی ہیں۔

عام طور پر حکام بڑے اجتماعات کے لیے انتظامات کرتے ہی ہیں لیکن خراب منصوبہ بندی، لوگوں کو کنٹرول کرنے کے انتظامات نہ ہونا اور حادثات کے رونما ہونے کی صورت میں احتساب کا نہ ہونا بھی ایسے واقعات میں بڑھتی ہوئی اموات کی وجہ ہے۔

یہاں تک کہ ایسے واقعات بڑے شہری علاقوں میں بھی رونما ہو جاتے ہیں۔ سنہ 2017 میں ممئی کے ریلوے سٹیشن پر رش کے سبب بھگدڑ مچنے سے 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اسی طرح ایسا ہی ایک حادثہ سنہ 1997 میں اس وقت ہوا تھا جب دہلی کے سینیما ہال میں آگ لگنے کی وجہ سے مچنے والی بھگدڑ کے سبب 59 افراد ہلاک اور 103 زخمی ہوئے تھے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.