کینیڈا کا انڈیا پر ’ملکی انتخابات پر اثرانداز ہونے‘ کا الزام، انڈیا کی تردید اور جوابی وار

کینیڈا کے اندرونی معاملات میں غیر ملکی مداخلت پر نظر رکھنے والے کمیشن نے انڈیا پر الزام عائد کیا ہے کہ ’انڈیا کینیڈا کے وفاقی انتخابات اور جمہوری اداروں میں مداخلت کر نے والا چین کے بعد دوسرا سب سے متحرک اور سرگرم ملک ہے۔‘ دوسری جانبان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے الٹا کینیڈا پر ہی انڈیا کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا جوابی الزام عائد کر دیا ہے۔
trudeau
Getty Images

کینیڈا اور انڈیا کے درمیان تقریباً ڈیڑھ برس سے سفارتی تعلقات میں تناؤ کے بعد اب ایک بار پھر درجۂ حرارت بڑھتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ حال ہی میں کینیڈا نے انڈیا پر ملک کے جمہوری اور انتخابی اداروں میں مداخلت کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

کینیڈا کے اندرونی معاملات میں غیر ملکی مداخلت پر نظر رکھنے والے کمیشن نے انڈیا پر الزام عائد کیا ہے کہ ’انڈیا کینیڈا کے وفاقی انتخابات اور جمہوری اداروں میں مداخلت کر نے والا چین کے بعد دوسرا سب سے متحرک اور سرگرم ملک ہے۔‘

کینیڈا کی فارن انٹرفیرینس کمیشن کی سربراہ جسٹس میری ہوزی ہاگ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ انڈیا کینیڈا میں اپنے سفارتی عملے اور ایجنٹوں کے ذریعے ملک کے اندورنی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔

انھوں نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’مختلف خفیہ ذرائع سے حاصل کی گئی اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ انڈیا نے اپنے کینیڈین ایجنٹوں کے ذریعے ممکنہ طور پر خفیہ طریقے سے ناجائز مالی اعانت کے ذریعے کینیڈا کے انتخابات میں انڈیا کے حامی امیدواروں کی جیت اور منتحب ہونے والے رہنماؤں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہو۔‘

انڈیا کی مبینہ مداخلت کے بارے میں یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب گذشتہ ڈیڑھ برس سے دونوں ملکوں کے تعلقات بہت کشیدہ ہیں۔

دونوں ملکوں کے تعلقات میں تلخی ستمبر 2023 میں اس وقت شدت آئی تھی جب وزیر اعطم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں یہ بیان دیا کہ اس بات کے ’قوی امکانات‘ ہیں کہ تین مہینے قبل سکھ علحیدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں انڈیا کی حکومت کے ایجنٹ ملوث تھے۔

یاد رہے کہ 18 جون 2023 کو کینیڈا کے برٹش کولمبیا کے سرے قصبے میں گرودوارہ نانک صاحب میں شام کی پراتھنا (عبادت) کے دوران پارکنگ میں دو نامعلوم افراد نے پے در پے کئی گولیاں داغ کر گرودوارے کے صدر ہردیپ سنگھ نِجر کو مار دیا تھا۔

اس کے بعد سے ہی دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی تلخیاں سرکردہ رہنماؤں کے بیانات میں نظر آنے لگیں تھیں۔

دوسری جانب انڈیا نے رپورٹ میں لگائے گئے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے الٹا کینیڈا پر ہی انڈیا کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا جوابی الزام عائد کر دیا ہے۔

کینیڈا
Getty Images

کینیڈا کی مداخلت سےغیر قانونی امیگریشن اور مجرمانہ سرگرمیاں بڑھیں: انڈیا

کینیڈا کے فارن انٹرفرینس کمیشن کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ضروری نہیں ہے کہ متعلقہ منتخب اہلکاروں اور امیدواروں کو مداخلت کی ان کوششوں کے بارے میں پتا ہو یا یہ کہ یہ کوششیں کامیاب ہی ہوئی ہوں۔‘

دوسری جانب انڈیا نے کینیڈا کے اس تازہ الزام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کینیڈا پر ہی انڈیا کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام دھر دیا ہے۔

انڈیا کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم نے کینیڈا کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے سلسلے میں مبینہ سرگرمیوں کے بارے میں رپورٹ دیکھی ہے۔ دراصل یہ کینیڈا ہے جو انڈیا کے اندرونی معاملات میں مسلسل مداخلت کر رہا ہے۔‘

بیان کے مطابق ’کینیڈا کی اس مداخلت کی وجہ سے غیر فانونی امیگریشن اور مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے فضا ہموار ہوئی ہے۔‘

انڈین وزارت خارجہ نے جاری بیان میں کہا ہے کہ ’ہم انڈیا پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور یہ امید کرتے ہیں کہ غیر قانونی مائیگریشن کی اعانت کرنے والا جو نظام موجود ہے اسے مزید نہیں چلنے دیا جائے گا۔‘

واضح رہے کہلگ بھگ دو سال دو سال قبل جب کینیڈا نے سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں انڈین عہدیداروں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا تب سے انڈیا اور کینیڈا کے درمیان ایک نیا سفارتی تنازع شروع ہو گیا تھا۔

کینیڈا کی سکھ برادری میں ان کے قتل پر غم و غصہ پایا گیا تھا۔ ان کے قتل کو کینیڈا میں بسنے والی سکھ برادری نے ’سیاسی قتل‘ قرار دیا اور ٹورنٹو اور وینکوور سمیت متعدد شہروں میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔

اس تنازعے میں پہلے کینیڈا کی حکومت نے انڈیا کے ہائی کمشنر سمیت پانچ سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا جبکہ بعد میں جوابی کارروائی کرتے ہوئے انڈیا نے بھی کینیڈا کے چھ سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت جاری کی اور یوں یہ سلسلہ درازہوتا گیا۔

’انڈین مداخلت‘ سے متعلق مزید کیا کہا گیا ہے؟

کینیڈا کے فارن انٹر فرینس کمیشن کی یہ دوسری اور حتمی رپورٹ ہے۔ پہلی رپورٹ میں چین پر مداخلت کا الزام لگایا تھا۔

کمیشن نے یہ رپورٹ ایک طویل عرصے میں کینیڈا کے سکیورٹی اور انٹیلیجنس ایجنسیوں اور اداروں کی جانب سے فراہم کی گئی خفیہ معلومات کی بنیاد پر تیار کی ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ’انڈین حکومت کے اہلکار اور کینیڈا میں موجود ان کے ایجنٹ کینیڈا کے مختلف گروپوں اور سیاستدانوں پر اثر انداز ہونے کے لیے کئی طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ جب یہ سرگرمیاں دھوکہ دہی، خفیہ یا ڈرانے اور دھمکانے جیسے معاملات تک پہنچ جاتی ہیں تو ان کا شمار غیر ملکی مداخلت کے زمرے میں ہوتا ہے۔‘

’ان کوششوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کینیڈا کی پالیسیوں کو مختلف امور پر انڈیا کے مفاد کی ہمنوا بنایا جائے ۔ خاص طور سے یہ کوشش ہوتی ہے کہ کینیڈا وہی پوزیشن اختیار کرے جو انڈیا نے کینیڈا میں مقیم ان سکھوں کے بارے میں اختیار کر رکھی ہے جو ایک علیحدہ سکھ مملکت کی حمایت کرتے ہیں جنھیں وہ خالصتان کہتے ہیں۔‘

کینیڈا کے کمیشن کا کہنا ہے کہ کینیڈا میں بڑی تعداد میں آباد جنوبی ایشیائی تارکین وطن کی موجودگی سبب انڈیا کو کیںیڈا میں گہری دلچسپی رہتی ہے۔ انڈیا کی حکومت یہ مانتی ہے کہ کینیڈین انڈین آبادی کا ایک حصہ انڈیا مخالف جذبات رکھتا ہے اور اس سبب وہ انھیں انڈیا کی قومی سکیورٹی اور استحکام کے لیے ایک خطرہ سمجھتی ہے۔

کینیڈین کمیشن کی سربراہ جسٹس میری ہوزی ہاگ کا کہنا ہے کہ اس کے سدباب کے لیے انڈیا کی حکومت کینیڈین معاشرہ میں اہم عہدوں پر فائز لوگوں کو اپنے اثر میں لانے کے لیے مداخلت کرتی ہے۔

ان کے مطابق انڈیا کی حکومت کی کوشش یہ ہوتی ہے کینیڈا کے سیاست دانوں اور فیصلہ سازوں کو انڈیا کی حکومت کے موقف اور پالیسیوں کا ہمنوا بنایا جائے۔ اس سے انڈیا کی ایک مثبت شبیہ بنانے میں مدد ملتی ہے ۔

مداخلت کا دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انڈیا اپنے استحکام کے لیے کینیڈا میں جنھیں خطرہ سمبھتا ہے انھیں دبایا جائے اور ان کا مقابلہ کیا جائے۔

’انڈیا کی حکومت قانون کے دائرے میں رہ کر خالصتان کی سیاسی حمایت کرنے والوں اور کینیڈا میں واقع پر نسبتآ چھوٹے سے پرتشدد انتہا پسند گروپ کے درمیان فرق نہیں کرتی۔ کوئی بھی شخص جو خالصتان کے علیحدگی پسندی کے ایجنڈے سے وابستہ ہے۔ انڈیا اسے ایک باغیانہ خطرہ تصور کرتا ہے۔‘

جسٹس ہاگ نے رپورٹ جاری کرنے کے بعد ایک نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مداخلت کی یہ کوشش کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس پر ہمیں حیرت ہوئی ہے ’لیکن جو چیز نئی ہے وہ مداخلت کے طریقے ہیں جو یہ ممالک استعال کررہے ہیں ۔ یہ سلسہ بڑے پیمانے پر چل رہا ہے اور یہ اب مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ اور اب تو ان کے بارے میں کھلے عام بات بھی کی جا رہی ہے۔‘

تحقیق میں 100 سے زیادہ گواہان اور 60 سے زیادہ ماہرین کی رائے

کینیڈا میں غیر ملکی مداخلت کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کے درمیان اس رپورٹ کی تیاری سےقبل گذشتہ مہینوں میں جسٹس ہاگ نے 100 سے زیادہ گواہوں اور 60 سے زیادہ ماہرین اور کینیڈین ایشیائیوں سے بات کی اور ہزاروں دستاویزات کا مطالعہ کیا ہے۔

کچھ ہی دنوں میں کینیڈا نے انڈیا سے ہونے والی فری ٹریڈ کے مذاکرات روک دیے جو ابھی تک شروع نہیں ہو سکے۔

گذشتہ اکتوبر میں کینیڈین پولیس نے انکشاف کیا کہ کہ انھیں ایسے ٹھوس شواہد ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ انڈین سفارتکار اور قونصل اہلکار کینیڈا کے اندر خفیہ اور سنگین مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

اس الزام کے بعد دونوں ممالک نے بڑی تعداد میں ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو ملک سے نکال دیا تھا۔ دونوں ملکوں کے تعلقات بہت تلخ اور منجمد ہیں۔

انڈیا کے سفارتی حلقوں میں یہی تاثر ہے کہ موجودہ حالات میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کینیڈا میں جسٹن ٹروڈو اور ان کی جماعت کی جگہ کسی دیگر رہنما کے اقتدار میں آنے کے بعد ہی ممکن ہو سکے گی۔

ہردیپ سنگھ نجر کا قتل اور انڈیا کینیڈا سفارتی تعلقات میں تلخی

یاد رہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں تلخی ستمبر 2023 میں اس وقت شدت آئی جب وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں یہ بیان دیا کہ اس بات کے ’قوی امکانات‘ ہیں کہ تین مہینے قبل سکھ علحیدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نیجر کے قتل میں انڈیا کی حکومت کے ایجنٹ ملوث تھے۔

کچھ ہی دنوں میں کینیڈا نے انڈیا سے ہونے والی فری ٹریڈ کے مذاکرات روک دیے جو ابھی تک شروع نہیں ہو سکے۔ گذشتہ اکتوبر میں کینیڈین پولیس نے انکشاف کیا کہ کہ انھیں ایسے ٹھوس شواہد ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ انڈین سفارتکار اور قونصل اہلکار کینیڈا کے اندر خفیہ اور سنگین مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

اس الزام کے بعد دونوں ممالک نے بڑی تعداد میں ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو ملک سے نکال دیا تھا۔ دونوں ملکوں کے تعلقات بہت تلخ اور سرد مہری کا شکار ہیں۔

انڈیا کے سفارتی حلقوں میں یہی تاثر ہے کہ موجودہ حالات میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کینیڈا میں جسٹن ٹروڈو اور ان کی جماعت کی جگہ کسی دیگر رہنما کے اقتدار میں آنے کے بعد ہی ممکن ہو سکے گی۔

ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے یہ بیان دیا تھا کہ انڈیا نے ان کے ملک کی خودمختاری اور سلامتی میں مداخلت کر کے ایک بڑی غلطی کی ہے۔ وہ گذشتہ سال کینیڈین سرزمین پر سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں بات کر رہے تھے۔

انھوں نے کہا تھا کہ وہ کینیڈا کے شہریوں کے تحفظ پر جوابدہ ہیں۔ تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ’ہم انڈیا کو اکسانے کوشش نہیں کر رہے نہ کسی جھگڑے میں پڑنا چاہتے ہیں۔ (تاہم) انڈین حکومت نے یہ سوچ کر ایک ہولناک غلطی کی کہ وہ کینیڈا کی حفاظت اور خودمختاری میں اتنی جارحانہ حد تک مداخلت کر سکتی ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.