31 سالہ سنگیتا کی شادی دس برس قبل ہوئی تھی تاہم اُن کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ سنگیتا کے والد وشرام کولہی کے مطابق 26 جنوری کو انھیں اُن کے داماد نے فون کیا اور بتایا کہ سنگیتا پر ’جنات کا اثر‘ ہے جس کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے عاملوں کو بلایا۔
’بھوپے میری بیٹی پر تشدد کر رہے تھے اور وہ بُری طرح چِلا رہی تھی۔ اِس دوران میں قریب گیا تو ایک بھوپے نے چیخ کر کہا کہ ’قریب مت آنا، جنات تمھیں بھی چمٹ جائیں گے۔ کچھ ہی دیر میں تشدد سے میری بیٹی بے ہوش ہو گئی جس کے بعد بھوپے اور اس کے ساتھی وہاں سے فرار ہو گئے۔‘
پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع بدین سے تعلق رکھنے والی 31 سالہ سنگیتا کے والد وشرام کولہی نے پولیس کو درج کروائے گئے اپنی بیٹی کی ہلاکت کے مقدمے میں یہ مؤقف اختیار کیا ہے۔
’جنات نکالنے کی کوشش کے دوران بھوپوں‘ یعنی عاملوں کے مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والی سنگیتا کا تعلق بدین کے علاقے ملکانی سے تھا۔
بدین پولیس کے مطابق والد کی مدعیت میں ایف آئی آر کے اندارج کے بعد اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث دو عاملوں اور خاتون کے شوہر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
31 سالہ سنگیتا کی شادی دس برس قبل ہوئی تھی تاہم اُن کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ سنگیتا کے والد وشرام کولہی کے مطابق 26 جنوری کو انھیں اُن کے داماد نے فون کیا اور بتایا کہ سنگیتا پر ’جنات کا اثر‘ ہے جس کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے عاملوں کو بلایا ہے۔
وشرام کولہی نے پولیس کو بتایا کہ داماد کا فون سُننے کے بعد وہ اُسی روز شام کو اپنے بھائی اور بھتیجے کے ساتھ اپنی بیٹی کے گاؤں چلے آئے۔
ایف آئی آر میں وشرام کولہی نے الزام عائد کیا ہے کہ جب وہ اپنے داماد کے گھر پہنچے تو عامل گھر کے باہر صحن میں ان کی بیٹی پر سوار ہو کر کچھ پڑھ رہے تھے جبکہ ان کا داماد وہاں کھڑا تھا۔
’وہاں آگ جل رہی تھی اور اس دوران ایک عامل نے دو انگلیوں کی شکل کی لکڑی کو میری بیٹی کی گردن میں ڈال کر زور لگایا جبکہ عامل کے ساتھی میری بیٹی کے جِن نکالنے کے لیے اس پر ڈنڈے برسانے لگے۔‘
’اس عمل کے دوران میری بیٹی کی چیخیں بلند ہوئیں تو میں آگے بڑھا جس پر عامل نے مجھے روکا اور کہا کہ آگے مت آنا ورنہ جن تم سے چمٹ جائے گا۔ اتنی دیر میں میری بیٹی بے ہوش ہو گئی جس کے بعد میرا داماد اور تینوں عامل فرار ہو گئے۔ بعدازاں پتا چلا کہ میری بیٹی فوت ہو چکی تھی۔‘
’بیوی بے ہوش ہوئی تو سمجھا جِن نکل گیا‘
مقامی پولیس نے والد کی مدعیت میں درج ہونے والی ایف آئی آر کے بعد خاتون کے شوہر کو بھی گرفتار کیا۔
پولیس کے مطابق ملزم شوہر کا مؤقف ہے کہ ان کی اہلیہ کی طبعیت کچھ عرصے سے ٹھیک نہیں رہتی تھی اور اُن پر ’سایہ‘ تھا اسی لیے انھوں نے عاملوں کی خدمات حاصل کیں۔
ڈی ایس پی ٹنڈو باگو راج کمار کے مطابق دوران تفتیش ملزم شوہر نے بتایا کہ جب عامل اس کی اہلیہ پر تشدد کر رہے تھے تو انھوں نے عاملوں کو متنبہ کیا تھا کہ وہ ایسا نہ کریں لیکن وہ نہیں مانے اور تشدد کا سلسلہ جاری رکھا۔
شوہر کا دعویٰ ہے کہ ’ایک عامل عمل کے دوران ان کی اہلیہ کی گردن پر سوار ہوا تھا اور اس دوران کیے جانے والے تشدد سے جب سنگیتا بے ہوش ہو گئیں تو وہ سمجھے کہ شاید جن نکل گیا‘ لیکن درحقیقت ان کی اہلیہ فوت ہو چکی تھیں۔
یاد رہے کہ سنگیتا کی ہلاکت کی ایف آئی آر میں پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعات 322، جعلی سازی 419، اجتماعی جرم 34درج کی ہیں۔
ڈی ایس پی راج کمار سے جب سوال کیا گیا کہ اس ایف آئی آر میں قتل اور تشدد کی دفعات شامل نہیں، تو اُن کا کہنا تھا کہ بظاہر قتل کی نیت نہیں تھی اور مقصد علاج کرنا تھا۔ ’غلطی سے یا لاپرواہی سے موت ہو گئی اس وجہ سے یہ دفعات لگائی گئی ہیں۔‘
’خواتین منھ میں چپل لے کر چلیں‘
مقامی سماجی کارکن ایڈووکیٹ رام کولہی نے سنگیتا کے والد کی ایف آئی آر کے اندراج میں مدد کی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رام کولہی نے بتایا کہ سنگیتا پر عمل کا آغاز کرنے سے قبل عاملوں نے اُس گھر کی خواتین کو ہدایت کی تھی کہ وہ ’اپنے اپنے منھ میں اپنے چپل اٹھا کر دو کلومیٹر کے علاقے کا پیدل چکر لگائیں‘ اور جب گھر کی خواتین عاملوں کے کہنے پر یہ مشق کر رہی تھیں تو گاؤں والوں نے یہ منظر انتہائی حیرت سے دیکھا۔
رام کولہی نے دعویٰ کیا کہ گھر کے تمام افراد کو اس روز عاملوں کی جانب سے ورت (روزہ) رکھوایا گیا تھا جس کے دوران انھوں نے 24 گھنٹے تک نہ کچھ کھایا اور نہ پیا اور اس دوران ان کے گھر میں جتنے جانور تھے انھیں بھی بھوکا رکھا گیا۔
سندھ میں ’بھوپے‘ یا نام نہاد عامل کون ہیں؟
یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں جس میں نام نہاد عاملوں کے تشدد میں کسی انسان کی جان گئی ہو۔ مقامی میڈیا میں سندھ سے متعلق اس نوعیت کے کیس رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔
بھوپے دراصل ہندو کمیونٹی کے عامل ہوتے ہیں جو جادو ٹونے کے ذریعے علاج کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
سندھ سے تعلق رکھنے والے محقق اور مصنف بھارو مل امرانی بتاتے ہیں کہ ’سندھ کی مقامی ہندو کمیونٹی میں جس شخص کے بارے میں یہ تصور قائم ہو جاتا ہے کہ اس پر مبینہ آسیب یا جنات وغیرہ کا سایہ ہے تو اس کو زمین پر لٹا کر اس کے گرد سیاہ دائرہ بنایا جاتا ہے جبکہ اس شخص پر گرم سریے یا زنجیر سے تشدد بھی کیا جاتا ہے۔‘
مقامی کمیونٹی کے عقیدے کے مطابق اس عمل سے جس پر جن، بھوت کا سایہ ہو گا تو وہ اس کے اثرات سے نکل جائے گا۔
بھارو مل امرانی کے مطابق اس نوعیت کے عمل کے دوران ایک شحص مخصوص انداز میں ڈھولکی بجاتا ہے جس پر ایک شخص ناچتا ہے اور اس عمل کو ’دھوننا‘ کہا جاتا ہے۔
ڈھولکی کی آواز پہلے آہستہ اور پھر بتدریج بلند ہوتی جاتی ہے اور اس دوران ناصرف متاثرہ شخص یا خاتون پر تشدد کیا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات یہ عامل خود پر بھی تشدد کرتے ہیں جس سے ایسا لگتا ہے جیسے مبینہ جِن، بھوت متاثرہ شخص سے نکل کر اُن پر بھی حملہ آور ہو رہے ہوں۔
بھارو مل امرانی کے مطابق اِس قسم کے جادوگر یا نام نہاد ہیلر سندھ اور راجستھان سمیت دنیا کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔
بھارو مل امرانی کے مطابق ان بھوپوں کا لباس اور حلیہ منفرد ہوتا ہے اور انھوں نے اپنے گلے میں بڑی مالائیں اور موتی لٹکاتے ہوتے ہیں جبکہ چوغے کی شکل کا لباس پہنتے ہیں اور زلفیں رکھتے ہیں۔
امرانی کے مطابق یہ اپنے ’مریض‘ کی معاشی صورتحال کے حساب سے کالے بکرے، مرغ، دنبے، رقم یا اناج وغیرہ طلب کرتے ہیں۔
’کالے بکرے اور چار من چاول‘
سنگیتا کے شوہر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ اُن کے اہلخانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ عاملوں نے یہ عمل کرنے سے قبل ان سے مجموعی طور پر چھ سیاہ بکرے، چاول کی چار بوریاں، گھی اور دیگر سامان منگوایا تھا اور تسلی دی تھی کہ اگر اس سامان کا بندوبست ہو گیا تو سنگیتا ٹھیک ہو جائے گی۔
ایڈوکیٹ رام کولہی کہتے ہیں کہ ’یہ سارے عامل جعلی ہوتے ہیں اور اس نوعیت کے دھندوں سے اُن کی روزی روٹی چلتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے مقامی افراد ان کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اپنے اسی نوعیت کے عملیات اور اس دوران کیے گئے شدید تشدد کے باعث یہ کئی افراد کو معذور بھی کر چکے ہیں۔
’ہماری کولہی کمیونٹی یا ایسی جو دیگر کمیونٹیز یہاں آباد ہیں، اُن میں سے اکثریت کے پاس تعلیم نہیں۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ انسانوں اور جانوروں کو ہونے والی چھوٹی چھوٹی بیماریوں کو بھی ان دیکھی مخلوق سے جوڑتے ہیں اور پھر علاج کے لیے نام نہاد عاملوں کا رُخ کرتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ ماضی میں سندھ کے وزیر اعلیٰ کے سابق مشیر سریندر ولاسائی نے آئی جی سندھ پولیس کو خط لکھ کر درخواست کی تھی کہ ایسے عاملوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
اپنے خط میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نوعیت کے عامل سندھ کے تین ڈویژن شہید بینظیر آباد، حیدرآباد اور میرپورخاص میں بطور خاص سرگرم ہیں۔