القسام بریگیڈ کے کمانڈر محمد الضیف کی ہلاکت کی تصدیق: ’نو زندگیوں والے جنگجو‘ کون تھے؟

غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے تقریباً دو ہفتوں بعد حماس نے اپنے عسکری ونگ کے سربراہ محمد الضیف کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔
محمد الضیف
Reuters

غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے تقریباً دو ہفتوں بعد حماس نے اپنے عسکری ونگ کے سربراہ محمد الضیف کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔

القسام بریگیڈ کے قائد محمد الضیف کو 13 جولائی کو خان یونس کے علاقے المواسی میں ایک عمارت پر حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا، تاہم حماس نے اس وقت ان کی موت کی تصدیق نہیں کی تھی۔

اسرائیل کے اس وقت کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے گذشتہ برس حماس کے عسکری کمانڈر کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ محمد الضیف کی موت حماس کے خاتمے کے سلسلے میں ’ایک اہم سنگ میل ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’یہ کارروائی اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ حماس بکھر رہی ہے اور حماس کے دہشت گرد یا تو ہتھیار ڈال سکتے ہیں یا انہیں ختم کر دیا جائے گا۔‘

اسرائیل کا کہنا ہے کہ الضیف جنوبی اسرائیل میں سات اکتوبر کو ہونے والے ان حملوں کے منصوبہ ساز افراد میں سے ایک تھے جس میں 1,200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔

محمد الضیف کو یحییٰ سنوار کے بعد حماس کا دوسرا سینیئر ترین کمانڈر سمجھا جاتا ہے۔ یحییٰ سنوار بھی گذشتہ برس اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔

جمعرات کو حماس کی جانب سے جاری بیان میں مسلح تنظیم کی نائب عسکری کمانڈر مروان عیسیٰ کی ہلاکت کی تصدیق بھی کی گئی ہے۔ امریکہ نے گذشتہ برس مارچ میں ان کی ہلاکت کا بھی دعویٰ کیا تھا۔

اس سے قبل حماس کے سیاسی بیورو کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو بھی ایران میں قتل کر دیا گیا تھا۔ تاہم اسرائیل نے ان کی موت پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔

19 جنوری کو حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدے کے تحت غزہ میں جنگ بندی ہو گئی ہے اور اس کے بعد سے اسرائیل کی جانب سے تقریباً 400، جبکہ حماس کی جانب سے 15 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جا چکا ہے۔

اکتوبر 2023 میں اسرائیل پر ہونے والے حملوں کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کیا جس میں اب تک حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق کم از کم 47,460 افراد ہلاک ہو ئے ہیں۔

محمد الضیف کون ہیں؟

محمد الضیف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کے علاقے خان یونس کے ایک مہاجر کیمپ میں سنہ 1965 میں اس وقت پیدا ہوئے تھے جب یہ علاقہ مصر کے زیر تسلط تھا۔

پیدائش کے وقت والدین نے ان کا نام محمد ضائب ابراہیم المصری رکھا تھا لیکن جوانی میں اسرائیل کے مسلسل فضائی حملوں سے بچنے کے لیے خانہ بدوشی کی زندگی اپنانے کی وجہ سے ان کا نام الضیف پڑا جس کا مطلب عربی زبان میں مہمان ہے۔

اپنے خاندان کی غربت کے باوجود محمد الضیف کے والد نے اپنے بچوں کو تعلیم دلوائی۔ الضیف نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے سائنس میں ڈگری حاصل کی، جہاں انھوں نے فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کی تعلیم حاصل کی۔

یونیورسٹی کی تفریحی کمیٹی کی سربراہی فنونِ لطیفہ میں الضیف کی دلچسپی کی غماز تھی اور وہ سٹیج پر مزاحیہ تھیٹر پرفارمنس کا بھی حصہ رہے۔ یہیں الضیف کو ’ابو خالد‘ کی عرفیت بھی ملی۔ انھیں یہ نام دورانِ تعلیم ایک ڈرامے میں اداکاری کے بعد ملا تھا۔

القسام
Reuters
القسام بریگیڈز نے اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کیا

حماس میں شمولیت

یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران، الضیف ’اسلامی فکر‘ سے متاثر ہوئے اور اخوان المسلمون میں شمولیت اختیار کی۔ اس وقت وہ تنظیم کے نمایاں کارکنوں میں سے ایک تھے۔ 1987 میں حماس کی تحریک شروع ہوئی تو ’پہلے فلسطینی انتفاضہ‘ کے بعد الضیف نے حماس کی صفوں میں شامل ہونے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔

1989 میں انھیں اسرائیلی حکام نے گرفتار کر لیا اور وہ حماس کے لیے کام کرنے کے الزام میں 16 ماہ جیل میں رہے۔ اسی قید کے دوران الضیف نے زکریا الشوربجی اور صلاح شہادہ کے ساتھ ’قابض فوجیوں کو پکڑنے‘ کے مقصد کے ساتھ ایک تحریک قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا، یہ تنظیم عزالدین القسام بریگیڈ تھی۔

الضیف کی جیل سے رہائی کے بعد عزالدین القسام بریگیڈ ایک فوجی تنظیم کے طور پر ابھرنے لگی۔ الضیف اس کے بانیوں میں سے ایک اور اس کے صفِ اول کے رہنما تھے۔

بعد ازاں الضیف غزہ کی پٹی میں القسام کے متعدد رہنماؤں کے ساتھ غربِ اردن کے علاقے میں چلے گئے اور کچھ عرصے تک وہیں رہے، جہاں انھوں نے القسام بریگیڈز کی ایک شاخ کے قیام کی نگرانی کی اور 1993 میں عماد عقل کے قتل کے بعد اس کے رہنما بن گئے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، سنہ 2000 میں، ’دوسرے انتفاضہ‘ کے آغاز کے ساتھ ہی، فلسطینی اتھارٹی نے محمد الضیف کو گرفتار کر لیا، لیکن وہ فرار ہونے میں کامیاب رہے یا انھیں رہا کر دیا گیا۔

2002 میں ایک اسرائیلی چھاپے میں اپنے پیشرو صلاح شہادہ کے قتل کے بعد الضیف عزالدین القسام بریگیڈز کے کمانڈر انچیف بن گئے۔

2015 میں الضیف کو ’عالمی دہشت گردوں‘ کی امریکی بلیک لسٹ میں شامل کیا گیا جبکہ دسمبر 2023 میں یورپی یونین کی دہشت گردوں کی فہرست میں بھی شامل کر لیا گیا۔

حماس کی سرنگیں
Getty Images
غزہ کے نیچے کھودی گئی سرنگوں کے نیٹ ورک کو ڈیزائن کرنے کا سہرا بھی محمد الضیف کے سر ہی جاتا ہے

’سرنگ کی تعمیر کا انجینئر اور بم بنانے والا‘

الضیف کی ایک بہت طویل فوجی تاریخ ہے، جو 1980 کی دہائی میں شروع ہوئی تھی۔ تقریباً 30 سال تک، انھوں نے اسرائیل کے خلاف کئی فوجی کارروائیوں میں حصہ لیا، جس میں فوجیوں کے اغوا اور میزائل حملوں سے شروع ہو کر، فوجی کارروائیوں سے گزرتے ہوئے، سات اکتوبر 2023 کو ہونے والے حملے تک بات پہنچی جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی منصوبہ بندی الضیف نے غزہ کی پٹی میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ یحییٰ السنور کے ساتھ مل کر کی۔

حماس کے سب سے نمایاں ہتھیار: قسام راکٹ اور غزہ کے نیچے کھودی گئی سرنگوں کے نیٹ ورک کو ڈیزائن کرنے کا سہرا بھی محمد الضیف کے سر ہی جاتا ہے۔ یہ سرنگیں وہ ہیں جہاں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ الضیف اپنا زیادہ تر وقت اسرائیلی فوج کی نظروں سے اوجھل رہنے اور حماس کی کارروائیوں کی نگرانی میں صرف کرتے تھے۔

زیادہ تعداد میں میزائل داغنے کی حکمت عملی کو فروغ دینے والے الضیف نے یحییٰ عیاش سے بم اور راکٹ سے چلنے والے دستی بم بنانے سیکھے۔ یحییٰ کو ’انجینیئر‘ کہا جاتا تھا اور وہ عزالدین القسام کے بانیوں میں سے ایک تھے۔

روئٹرز کے مطابق، عزم اور احتیاط الضیف کی بنیادی خصوصیات تھیں اور ان کی ہلاکت سے قبل خبر رساں ادارے نے الضیف کے ماتحت کے طور پر کام کرنے والے حماس کے ایک کارکن کے حوالے سے بتایا تھا کہ ’وہ فولادی اعصاب کا مالک ہے۔ جب وہ کسی جگہ کو استعمال کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو حرکت سے مکمل طور پر پرہیز کرتا ہے۔ اسے اس امر میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ اردگرد کیا ہو رہا ہے۔اس مقصد کے لیے وہ ان لوگوں کو استعمال کرتا ہے جن پر وہ بھروسہ کرتا ہے۔‘

’قتل کی سات ناکام کوششیں‘

فلسطینی حلقوں میں، الضیف کو ’ماسٹر مائنڈ‘، جب کہ اسرائیلیوں میں انھیں ’مردِ موت‘ یا ’نو زندگیوں والا لڑاکا‘ کہا جاتا تھا۔

انھیں یہ خطاب اسرائیلیوں کی جانب سے انھیں 2001 سے 2021 کے درمیان قتل کرنے کی سات ناکام کوششوں کے بعد ملا۔

اسرائیل کئی دہائیوں سے محمد الضیف کا تعاقب کر رہا تھا اور انھیں درجنوں اسرائیلیوں کے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ان کے خلاف سب سے سنگین الزامات میں سات اکتوبر کے حملوں کی منصوبہ بندی کے علاوہ یحییٰ عیاش کے قتل کے بعد انتقامی کارروائیوں کے ایک سلسلے کی نگرانی اور منصوبہ بندی ہے، جس کے نتیجے میں 1996 کے آغاز میں تقریباً 50 اسرائیلی مارے گئے تھے۔ اس کے علاوہ ان پر 1990 کی دہائی کے وسط میں تین اسرائیلی فوجیوں کی گرفتاری اور قتل کی منصوبہ بندی کے الزامات بھی تھے۔

اسرائیل نے الضیف کو سنہ 2001، 2002، 2003، 2006، 2014 اور پھر 2021 میں دو مرتبہ نشانہ بنانے کی ناکام کوششیں کیں۔

2002 میں ہونے والے حملے میں الضیف معجزانہ طور پر بچے لیکن ان کی ایک آنکھ ضائع ہوئی۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ قاتلانہ حملوں میں الضیف اپنا ایک پاؤں اور ایک ہاتھ بھی کھو چکے تھے اور انھیں بولنے میں بھی دشواری ہوتی تھی۔

سنہ 2014 میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر شروع کی گئی جنگ کے دوران، جو 50 دن سے زائد جاری رہی، اسرائیلی فوج الضیف کو قتل کرنے میں ناکام رہی، تاہم اس نے ان کی اہلیہ، سات ماہ کے بیٹے اور تین سالہ بیٹی کو ہلاک کر دیا تھا۔

ان کی چار تصویریں ہیں، ایک بہت پرانی، دوسری میں وہ نقاب پوش ہیں، تیسری ان کے سائے کی تصویر اور چوتھی وہ جو اسرائیلی فوج نے رواں برس فروری میں جاری کی۔

الضیف کے لیے نظروں سے اوجھل رہنا زندگی اور موت کا مسئلہ تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ غزہ کی پٹی میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو انھیں دیکھ کر پہچان سکتے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.