انڈیا کے ضلع بلڈھانہ میں آٹھ ماہ کی حاملہ خاتون الٹرا ساؤنڈ کے لیے سرکاری ہسپتال پہنچی تھیں اور سکین کے دوران ڈاکٹرز کو بچے کے اندر ایک اور ننھا منا سا بچہ دکھائی دیا۔
حالیہ دنوں میں انڈیا کے ایک سرکاری ہسپتال میں جب ایک حاملہ خاتون اپنا الٹرا ساؤنڈ کروانے گئیں تو ڈاکٹرز کو جہاں خاتون کے پیٹ میں بچہ دکھائی دیا وہیں اس بچے کے پیٹ کے اندر ڈاکٹرز کو کچھ ایسی چیز دکھائی دی جس نے ان کو حیران کر دیا۔
انڈیا کے ضلع بلڈھانہ میں آٹھ ماہ کی حاملہ خاتون الٹرا ساؤنڈ کے لیے سرکاری ہسپتال پہنچی تھیں اور سکین کے دوران ڈاکٹرز کو بچے کے اندر ایک اور ننھا منا سا بچہ دکھائی دیا۔
بلڈھانہ کے محکمہ صحت نے بی بی سی کو بتایا کہ خاتون کی جسمانی صحت مکمل فٹ اور معمول کے مطابق ہے۔
ڈاکٹر پر امید ہیں کہ خاتون کی ڈیلیوری نارمل ہو گی اور ڈیلیوری کے بعد ہی فیصلہ ہو گا کہ بچے کے پیٹ سے اسے کیسے نکالا جائے۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر صادق آباد میں بھی ایک نو ماہ کی بچی کے پیٹ سے دوران آپریشن بچہ نکالنے کا واقعہ سامنے آیا تھا۔
اس واقعے میں والدین کا کہنا تھا کہ بچی ایک ماہ کی عمر سے ہی معمول سے زیادہ روتی اور اور پھر اس کا پیٹ پھولنے لگا تاہم اس کی تشخیص میں کافی وقت لگا۔ آخرکار رحیم یار خان کے شیخ زید ہسپتال میں پیڈیاٹرک سرجن نے الٹرا ساؤنڈ کر کے رسولی اور پانی کی تھیلی کی تشخیص کی تھی تاہم آپریشن کے دوران انکشاف سامنے آیا کہ پیٹ میں پانی کی تھیلی کے علاوہ بچہ بھی تھا۔
گوشت کی بے جان گیند یا گانٹھ
32 سال کی حاملہ خاتون اپنے چیک اپ اور الٹرا ساؤنڈ کے لیے ہسپتال گئی تھیں جب ان کے حمل کا آٹھواں مہینہ تھا۔ طبی عملے نے جب سکین کیا تو ان کو ان کے بچے کے اندر کچھ غیر معمولی چیز کا احساس ہوا۔
جس کے بعد ڈاکٹروں اور ماہرین کی ٹیم کی موجودگی میں دوبارہ سونوگرافی کی گئی تو بچے کے پیٹ میں جنین بالکل واضح طور پر نظر آرہا تھا۔
بلڈھانہ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ہسپتال کے سرجن بھاگوت بھوساری نے بی بی سی مراٹھی کو اس واقعے کی تفصیلات بتائیں۔
ڈاکٹر بھوساری نے کہا کہ سونوگرافی ٹیسٹ کے بعد جو معلوم ہوا اس کو اگر آسان الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ان خاتون کے پیٹ میں موجود بچے کے پیٹ میں بھی بچہ ہے۔
تاہم اگر طبی لحاظ سے بات کریں تو اسے بچہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ ایک طرح سے گوشت کی بے جان گیند یا گانٹھ ہے اور اس میں زندگی کے آثار نہیں۔
’خون کی سپلائی ملنے کے باعث یہ گانٹھ بڑھتی رہتی ہے جسے طبی اصطلاح میں ’فیٹس ان فیٹو‘ کہا جاتا ہے اور یہ بہت ہی نایاب کیسز میں ہوتا ہے۔‘
یاد رہے ضلع بلڈھانہ میں سامنے آنے والا یہ پہلا واقعہ ہے۔
’فیٹس ان فیٹو‘ نایاب اور پیدائشی بے ضابطگی
طبی لحاظ سے دیکھا جائے توجب کسی حاملہ عورت کے پیٹ میں موجود بچے کے اپنے پیٹ میں بچہ نما چیز پائی جائے تو اسے ’فیٹس ان فیٹو‘ یا ’جنین میں جنین‘ کہتے ہیں تاہم اس میں بچے کے برعکس گروتھ یا نشوونما نہیں ہوتی۔
نیشنل لائبریری آف میڈیسن کی سرکاری ویب سائٹ پر شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ’جنین میں جنین‘ ایک نایاب اور پیدائشی بے ضابطگی ہے۔
اس میں بچے کے جسم میں ادھورا یا نامکمل جنین بنتا ہے۔
عام طور پر جنین بچے کے پیٹ میں ایک گانٹھ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے جو رحم کی نشوونما کے مرحلے میں ہوتا ہے لیکن اس کی نشوونما بچے کے بڑھنے کے طریقے سے مختلف طریقے سے ہوتی ہے۔
دوسری جانب ماہر امراض نسواں ڈاکٹر نندیتا پالشیٹکر کہتی ہیں کہ جنین میں جنین دراصل جڑواں بچے ہوتے ہیں۔
’لیکن ان میں سے کسی ایک جنین کی نشوونما کسی مسئلے کی وجہ سے نہیں ہو پاتی اور پھر وہ دوسرے بچے کے پیٹ میں چلا جاتا ہے تاہم یہ فکر کرنے کی بات نہیں۔ بچے کی پیدائش کے بعد اس کی سرجری کر کے پیٹ میں موجود گانٹھ کو ہٹا دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹر منجو جیلا کہتی ہیں کے اس حالت میں بچے کے پیٹ میں ایک گیند نما چیز ہوتی ہے جس میں بچے کی طرح کے ٹشوز جیسے کہ بال، دانت، آنکھیں پائی جاتی ہیں تاہم یہ بچے کی طرح بڑھ نہیں پاتا اور اس کو بآسانی ایک سرجری سے ہٹایا جا سکتا ہے جس میں بچے کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا صرف اس کے پیٹ سے بچہ نما گولہ نکالا جاتا ہے۔
’جنین میں جنین‘ انتہائی نایاب ہے اور ہر 5 لاکھ میں سے ایک پیدائش میں ہوتا ہے۔
نیشنل لائبریری آف میڈیسن کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں جنین میں جنین کے 200 سے کم کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔
بچہ نما گانٹھ کو نکالنے کی سرجری آسان یا پیچیدہ
’فیٹس ان فیٹو‘ کے کیس میں علاج کے لیے سرجری کی ضرورت ہوتی ہے اور جنین کو ہٹانے کے بعد بچہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر نندیتا پالشیٹکر کے مطابق سونوگرافی کے ذریعے فیٹو میں جنین کی حالت کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر حاملہ عورت کے پیٹ میں بچہ ہوتا ہے، تو اسے عام طور پر 14 ہفتے کے بعد سونوگرافی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر بچے کو پیدائش کے بعد پیٹ میں درد ہو، پیٹ پھولنے لگے، اگر اسے متلی یا الٹی ہو تو یہ پریشان کن ہو سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’ایسی صورت میں بچے کو ڈاکٹر کے پاس معائنے کے لیے لے جانے سے مسئلے کی تشخیص میں مدد مل سکتی ہے۔‘
یاد رہے کہ انڈیا میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی کیسز سامنے آ چکے ہیں۔
اپریل 2023 میں، بنارس ہندو یونیورسٹی کے سر سندرلال ہسپتال میں 14 دن کے بچے کا آپریشن کیا گیا۔ اس بچے کے پیٹ سے تین جنین نکالے گئے۔
اس بچے کو پیدائش سے ہی پیٹ میں درد، یرقان اور سانس لینے میں دشواری تھی۔ بچے کو ہسپتال میں داخل کرنے کے بعد سونوگرافی، سی ٹی سکین اور دیگر ٹیسٹ کیے گئے۔ تب یہ واضح ہوا کہ یہ جنین میں جنین کا معاملہ تھا۔
ان تینوں جنین نے بچے کے گردے اور پتے کی نالیوں کا مقام تبدیل کر دیا تھا تاہم تین گھنٹے کی سرجری کے بعد انھیں نکالا گیا۔
2022 میں بہار کے علاقے موتیہاری میں 40 دن کے بچے کے پیٹ میں جنین کی نشوونما ہوتی دیکھی گئی۔
بچے کے والدین اسے ہسپتال لے آئے کیونکہ اس کا پیٹ پھولا ہوا تھا اور وہ صحیح طرح سے پیشاب نہیں کر پا رہا تھا۔ جب ڈاکٹروں نے سی ٹی سکین کیا تو واضح ہوا کہ بچے کے پیٹ میں جنین ہے۔
اس کے بعد نوزائیدہ بچے کا آپریشن کیا گیا اور اسے گھر بھیج دیا گیا۔
اکتوبر 2024 میں کولکتہ، مغربی بنگال میں جنین میں جنین کا ایک کیس بھی رپورٹ ہوا ۔
معلوم ہوا کہ تین دن کے بچے میں جڑواں جنین موجود تھے۔ ان کو نکالنے کے لیے بچے کی سرجری کی گئی تاہم بدقسمتی سے اگلے ہی دن بچہ دم توڑ گیا۔