پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکینِ کی تنخواہوں میں اچانک سے لاکھوں روپے کا اضافہ کیوں کرنا پڑا؟

پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر نے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد ہر رکن کو ماہانہ تنخواہ پانچ لاکھ انیس ہزار روپے ملا کرے گی۔ اس خبر پر عوامی ردِ عمل کچھ خوشگوار نہیں رہا اور اس کی وجہ پاکستان میں گذشتہ چند برسوں سے مسلسل جاری مہنگائی اور ٹیکسوں میں اضافہ ہے۔
پاکستان
Getty Images

پاکستان میں مہنگائی، ٹیکس اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ آئے روز خبروں اور عوامی ردِ عمل کا باعث بنتے رہتے ہیں اور ایسے میں اگر تنخواہوں میں اضافے کی خبر آئے تو یہ خوشگوار جھونکے جیسی لگتی ہے لیکن پاکستان میں اس وقت ایک ایسی ہی خبر عوامی ناراضی کی باعث بن رہی ہے۔

ناراضی کی وجہ یہ ہے کہ یہ اضافہ عوام نہیں بلکہ عوامی نمائندوں کی تنخواہ میں ہوا۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر نے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد ہر رکن کو ماہانہ تنخواہ پانچ لاکھ انیس ہزار روپے ملا کرے گی۔

ارکان اسمبلی کی تنخواہ میں یہ اضافہ یکم جنوری 2025 سے لاگو ہو گا یعنی اراکین اسمبلی کو جنوری کی نظرثانی شدہ تنخواہ دی جائے گی۔

سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی قومی اسمبلی کی تنخواہ نہیں بڑھائی گئی اور وہ اب بھی دو لاکھ 18 ہزار روپے ماہانہ ہی وصول کریں گے۔

یاد رہے کہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی تنخواہ فنانس کمیٹی نہیں بڑھا سکتی۔

پارلیمان کے ذرائع نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کو تنخواہوں میں اضافے سے متعلق تبدیلی کی تصدیق کی اور کہا کہ باقاعدہ نوٹیفیکیشن آئندہ چند روز میں جاری کر دیا جائے گا۔

مسلم لیگ نون کے سینیٹر طلال چوہدری نے بی بی سی کی آسیہ انصر سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ قومی اسمبلی کے ارکان (ایم این ایز) کی تنخواہوں میں اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری ہو چکا ہے اور جنوری کی جو تنخواہ ممبران قومی اسمبلی کو ملی، وہ اضافے کے ساتھ ملی۔

طلال چوہدری نے بتایا کہ سینیٹرز، وفاقی وزرا اور پارلیمانی سیکریٹریز کی تنحواہوں کا نوٹیفیکیشن تاحال جاری نہیں ہو سکا۔

طلال چوہدری نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس وقت خطے میں سب سے کم پاکستان کے پارلیمینٹیرینز کی تنخواہیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں اس وقت بھی اراکین پارلیمان کی تنخواہ 22ویں گریڈ کے افسر کی تنخواہ کے نصف سے بھی کم ہے جبکہ اس اضافے کے بعد بھی اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں سپریم کورٹ کے ججز سے چھ گنا کم ہیں۔‘

پاکستان
Getty Images

’ملک دیوالیہ اور حکمرانوں کی بڑھتی تنخواہیں‘

ایسی اطلاعات ہیں کہ تنخواہوں میں اضافے کی مد میں یہ پانچ لاکھ 19 ہزار کی رقم تمام تر کٹوتیوں کے بعد اراکین اسمبلی کو ملے گی۔

اس خبر پر عوامی ردِ عمل کچھ خوشگوار نہیں رہا اور اس کی وجہ پاکستان میں گذشتہ چند برسوں سے مسلسل جاری مہنگائی اور ٹیکسوں میں اضافہ ہے۔

پاکستان میں زیادہ تر سوشل میڈیا صارفین کو اس بات پر غصہ ہے کہ ایک طرف تنخواہ دار طبقے سے بہت زیادہ ٹیکس لیا جا رہا کہ ملک مقروض ہے اور آئی ایم ایف کی ادائیگیاں کرنی ہیں اور دوسری طرف خود حکمران اپنی تنخواہیں بڑھا رہے ہیں۔

مصباح نامی ایکس صارف کا کہنا تھا کہ ’تنخواہ دار طبقے کی زندگی اجیرن اور ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 140 فیصد اضافہ۔۔۔‘

اشوک سوین نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’پاکستان دیوالیہ ہو چکا، آئی ایم ایف کے قرضوں اور شرائط کے ساتھ چل رہا ہے لیکن شریف خاندان کو اس کی پرواہ نہیں۔‘

حکومتی فیصلوں کو نشانہ بناتے ہوئے بلال ڈار کا کہنا تھا کہ ’اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ، ہر رکن کو 5 لاکھ 19 ہزار روپے تنخواہ ملے گی۔ اضافہ یکم جنوری 2025 سے لاگو ہوگا۔ کاش اس کی جگہ بجلی گیس پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کر کے پوری قوم کو ریلیف دیا جاتا لیکن سچ ہے کہ حکمران کا ہر قانون اپنے مفاد کے لیے ہوتا ہے۔‘

منہاس انوپما نامی صارف نے تنقید کرتے ہوئے کہاکہ ’پاکستانیوں کو مہنگائی، ٹیکس اور 30 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے جبکہ ارکان پارلیمنٹ کو 5 لاکھ 19 ہزار روپے دیتے ہیں۔ پاکستانی بنیادی ضروریات کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن حکمران اپنی تنخواہیں بڑھانے میں مصروف ہیں۔‘

کچھ صارفین کے خیال میں تنقید کا کوئی فائدہ نہیں اس لیے اسی موقعے پر اپنی مطالبات بھی پیش کر دینے چاہییں۔

رانا نوید نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے پر تنقید کرنے کے بجائے آپ کو پاکستان میں دیگر تمام ملازمین کی تنخواہوں میں اسی طرح اضافے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔‘

تنخواہوں میں اضافے کی ضرورت کیوں پڑی؟

پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کے لیے ارکانِ پارلیمان کی تنخواہوں میں اضافے کی وجہ سے خزانے پر پڑنے والے بوجھ کے علاوہ ایک بڑا اعتراض یہ بھی ہے کہ عام آدمی کو اپنے تمام تر اخراجات اسی ایک تنخواہ سے پورے کرنے ہوتے ہیں جبکہ ارکلانِ پارلیمان کو تو کئی دوسرے الاونسز مل جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی لگ بھگ پوری تنخواہ ان ہی کی جیب میں رہتی ہے۔

اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے پاکستان میں آئینی اور پارلیمانی اُمور کے ماہر اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ارکانِ اسمبلی کو سفری ٹکٹس دیے جاتے ہیں تاکہ وہ اسمبلی اجلاسوں میں شرکت کے لیے آسکیں، اس کے علاوہ سفر کے لیے فی کلومیٹر معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔ رہائش اور یوٹیلیٹی کے لیے اگرچہ ادائیگی ہوتی ہے لیکن وہ بھی رعائتی قیمیت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اجلاس میں شرکت کے لیے آنے پر انھیں یومیہ الاؤنس بھی دیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ارکانِ اسمبلی کو فیڈرل سیکرٹری کے برابر صحت کی سہولیات بھی دی جاتی ہیں اور سرکاری اور پرائیوٹ ہسپتالوں میں علاج کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ ‘

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ’یہ کہنا صحیح ہے کہ ارکانِ پارلیمان کی تنخواہ کا بڑا حصہ ان کی جیب میں رہتا ہے۔‘

تو پھر تنخواہوں میں اس قدر اضافے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس سوال کے جواب میں احمد بلال کہتے ہیں کہ ’اگر دیکھا جائے تو ان کا کام ایک فل ٹائم جاب ہے۔ اگر ایک رکن پارلیمان صحیح طریقے سے اپنا کام کرے تو اس کے لیے 24 گھنٹے بھی کم ہیں۔‘

انھوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہر سال بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تبخواہ میں کسی نہ کسی حد تک اضافہ ہوتا ہے لیکن ارکانِ پارلیمان کی تنخواہ پچھلے سات سال نہیں بڑھائی گئی کیونکہ ان کی تنخواہ میں اضافے کے لیے قانون میں ترمیم کرنی پڑتی ہے اور اس وقت بلوچستان اور پنجاب اسمبلی کے ارکان کی تنخواہ اس اضافے کے باوجود قومی اسمبلی کے اراکین سے زیادہ ہے۔‘

پاکستان
Getty Images

لیکن کیا اتنا زیادہ اضافہ جائز تھا؟

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس سے منسلک محقق اور ماہر معیشت صدام حسین نے اپے ایک آرٹیکل میں بھی اس حوالے سے تفصیل لکھی کہ وفاقی قانون سازوں کی تنخواہوں اور مراعات کی مد میں سالانہ 27.67 ارب روپے خرچ ہوتے ہیں۔

ان کے مطابق ’قومی اسمبلی سال میں اوسطاً 88 دن اور سینیٹ سال میں 57 دن کام کرتی ہے۔ اس کے برعکس ایک ایم این اے پر روزانہ تقریباً 7 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں اور ایک سینیٹر پر 11 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ جب ہم دونوں کا اوسط لیتے ہیں تو ایک وفاقی قانون ساز کا روزانہ کا اوسط خرچ 0.8 ملین روپے ہے۔‘

صدام حسین کے آرٹیکل کے مطابق ’قانون سازوں کو ان کے افسران اور عملے کیوسیع ادارہ جاتی مدد ملتی ہے جن کی تنخواہیں، الاؤنسز اور ریٹائرمنٹ کے فوائد فراہم کیے جاتے ہیں۔‘

تو اتنے اخراجات کے ہوتے ہوئے کیا تنخواہوں میں ایک دم اتنا اضافہ جائز ہے؟

اس سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ’اس وقت پاکستان میں کارپوریٹ سکیٹر، ایگریکٹو اور حتی کے ججز کی تنخواہیں اس سے کہیں زیادہ ہیں اور ویسے بھی اس وقت ایک شخص کو اپنے خاندان کو خوشحال زندگی دینے کے لیے پانچ لاکھ کی تنخواہ معمول کی بات ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ہم اس شعبے میں قابل لوگ چاہتے ہیں تو ہمیں تنخواہوں کو پرکشش بنانا ہوگا تبھی متوسط طبقے کے لوگ اور غریب آدمی بھی سیاست میں آیے گا ورنہ ہمیشہ امیر آدمی اور وڈیرے کا بیٹا ہی الیکشن لڑیں گے۔‘

ارکانِ پارلیمان کے کام اور تنخواہ کے تقابل پر تبصرہ کرتے ہوئے احمد بلال محبوبکا کہنا تھا کہ ’اگرچہ ارکان کی محنت اسمبلی کے فلور پر دکھائی نہیں دیتی لیکن ان کا ووٹر انھیں حلقے کے ترقیاتی منصوبوں اور ذاتی کاموں میں بہت مصروف رکھتا ہے، یہ لوگ کافی محنت کرتے ہیں۔‘

تو کیا یہ تنخواہ کم بھی ہو سکتی ہے؟ ماضی میں بھی کئی بار تنخواہوں کے اضافے کا اعلان کرنے کے بعد فیصلے واپس لیے گئے۔

تاہم احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ کچھ عرصے کے بعد خاموشی سے یہ اضافے لاگو کر دیے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں (حکومت) بھی پتا ہے احتجاج ہوگا۔ اس لیے جب بھی یہ اضافہ کرتے ہیں اگلے پانچ سال کے لیے ایک ساتھ کر دیتے ہیں۔‘

’تنخواہوں میں کمی ممکن تو ہے لیکن ایسا کبھی ہوتا نہیں۔ ایک بار اضافہ ہو جائے تو ایسے ہی چلتا ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.