انڈیا میں مڈل کلاس ریلیف دینے کی غرض سے '12 لاکھ آمدن پر کوئی ٹیکس نہیں' لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔ لیکن کیا یہ قدم مودی کے انڈیا کو 2047 تک ترقی یافتہ بنانے کا خواب ہورا کرنے میں مددگار ثابت ہوگا یا یہ صرف ایک سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش ہے؟
انڈیا کی حکومت نے سنیچر کو سال 26-2025 کا بجٹ پیش کیا جس کے تحت انکم ٹیکس کے نئے سلیب متعارف کروائے گئے۔ اس سلسلے میں متوسط طبقے کو دیا گیا ریلیف توجہ حاصل کر رہا ہے۔
نئے بجٹ کے تحت ماہانہ ایک لاکھ انڈین روپے یا سالانہ 12 لاکھ تک کی آمدن والے افراد کو کوئی انکم ٹیکس نہیں دینا پڑے گا۔ یہ رقم پاکستانی کرنسی میں لگ بھگ 3 لاکھ 20 ہزار روپے ماہانہ یا 38 لاکھ 50 ہزارروپے سالانہ کے قریب بنتی ہے۔
انڈیا کی وزیرِ خزانہ نرملا سیتا رمن نے بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 12 لاکھ تک کی آمدن پر انکم ٹیکس نہیں ہوگا۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے یہ رقم 12 لاکھ 75 ہزار ہے۔
مگر اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک طرف لوگ اس اقدام کو سراہتے نظر آئے تو بعض نے مطالبہ کیا کہ اس حد کو مزید وسیع کیا جا سکتا تھا۔
انڈیا کی مڈل کلاس کو اس سے کتنا فائدہ ہوگا؟
ایک اندازے کے مطابق اگر کسی شخص کی سالانہ تنخواہ 12 لاکھ تک ہے تو انھیں نئے بجٹ میں انکم ٹیکس کی مد میں 60 ہزار سے 70 ہزار تک کی بچت ہوگی۔
نئے ٹیکس سلیب کے مطابق چار لاکھ انڈین روپے سالانہ سے کم آمدنی والے افراد پر انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوگا جب کہ چار سے آٹھ لاکھ انڈین روپے آمدن والے افراد پر 5 فیصد اور سالانہ آٹھ سے 12 بارہ لاکھ انڈین روپے کمانے والے لوگوں پر 10 فیصد انکم ٹیکس لاگو ہوگا۔
تاہم ان افراد پر واجب الادا ٹیکس انھیں ٹیکس ری بیٹ کی صورت میں واپس مل جائے گا جس کے باعث سال کے آخر میں ان کے ذمے کوئی انکم ٹیکس واجب الاد نہیں ہوگا۔
انڈیا میں سال 21-2020 کے اشیا کے نرخ کے مطابق ہر وہ شخص مڈل کلاس یا متوسط طبقے سے تصور کیا جاتا ہے جس کی سالانہ آمدن پانچ لاکھ سے 30 لاکھ انڈین روپے کے درمیان ہو۔
انڈین کنزیومر اکانومی پر ایک تحقیق کے مطابق انڈیا کی کل آبادی کا 40 فیصد مڈل کلاس ہے۔ 2016 میں یہ شرح 26 فیصد تھی۔
فی الحال انڈیا کی معیشت کو طلب کے رجحان میں کمی کا سامنا ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ متوسط طبقے کی قوتِ خرید میں کمی ہے۔ متوسط طبقہ اشیا اور خدمات کا سب سے بڑا صارف ہے۔ کیونکہ موجودہ ٹیکسوں کے بعد ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں بچتا جس سے ان کی قوت خرید میں کمی آئی ہے اور نتیجتاً طلب کے رجحان میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
صارفین کی جانب سے مانگ میں کمی کے باعث کمپنیوں نے اپنی پیداوار میں کمی کر دی ہے اور نئی سرمایہ کاری بھی نہیں کی جا رہی جس سے معیشت پر اثر پڑ رہا ہے۔
سال 25-2024 کے دوران انڈیا کی معاشی ترقی کی شرح 6.4 فیصد رہی جو پچھلے چار سالوں میں سب سے کم ہے۔
اکانومک سروے کے اندازے کے مطابق ترقی کی شرح 6.3 فیصد سے 6.8 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے جسے معیشت میں سست روی کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔
مودی حکومت سنہ 2047 تک اپنے 'ترقی یافتہ انڈیا' کے ہدف کو حاصل کرنا چاہتی ہے تاہم اس کے لیے مسلسل آٹھ فیصد سالانہ معاشی ترقی کی ضرورت ہے۔
کیا مڈل کلاس کے فائدے میں ہی ملک کا فائدہ ہے؟
خیال کیا جا رہا ہے کہ حکومت کی جانب سے مڈل کلاس افراد کو انکم ٹیکس میں چھوٹ دینے کے نتیجے میں اس طبقے کی جانب سے مانگ میں اضافہ ہوگا اور اس سے معاشی ترقی کا پہیہ تیزی سے گھومنے لگے گا۔
ماہرِ معاشیات راجیش شکلا کہتے ہیں کہ 'مہنگائی میں اضافے کا سب سے زیادہ اثر لوئر مڈل کلاس افراد پر پڑ رہا ہے۔ ایسے میں نئے ٹیکس سلیب کی مد میں سالانہ 70 سے 80 ہزار روپے کی چھوٹ بہت بڑی بات ہے۔'
ان کا کہنا ہے کہ اگر لوگ یہ رقم خرچ کرنے کے بجائے جمع کر لیتے ہیں تو بھی یہ بہت فائدہ مند ہوگا۔ 'کیونکہ بالآخر بچت ہی کھپت کو فروغ دیتی ہے۔'
راجیش شکلا کہتے ہیں کہ متوسط طبقہ طبقہ بیک وقت صارف، مالک اور ملازم ہے۔ '٘مڈل کلاس ہی ڈرائیور، گھر پر کام کرنے افراد اور دیگر کو ملازمت پر رکھتا ہے۔ لہذا متوسط طبقے کے پاس رہ جانے والی رقم ایسی خدمات فراہم کرنے والے افراد کے ہاتھوں میں پہنچتی ہے۔'
ان کا ماننا ہے کہ انکم ٹیکس میں ملنے والے ریلیف سے مڈل کلاس کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
تاہم ارن کمار جیسے ماہرین حکومت کے اس لائحہ عمل پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
ارن کمار سوشل سائنسز کے پروفیسر ہیں اور جانے مانے ماہر معاشیات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مڈل کلاس طبقے کو ڈائیریکٹ ٹیکسوں میں چھوٹ دینے سے بہتر ہوتا اگر حکومت بلواسطہ ٹیکسوں میں کمی لاتی۔
ان کا کہنا ہے کہ غریب ترین صارف کو بھی ان ڈائریکٹ ٹیکس دینا پڑتا ہے۔
انڈیا میں مختلف مصنوعات اور خدمات پر ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح 28 فیصد تک ہے۔
ارن کمار کے مطابق انڈیا کی ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی میں سے صرف نو کروڑ 50 لاکھ افراد ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں۔ 'ان میں سے بھی چھ کروڑ افراد زیرو ریٹرن فائل کرتے ہیں۔ تو محض ساڑھے تین کروڑ افراد کو انکم ٹیکس کیمد میں چھوٹ دے کر آپ طلب میں اضافہ نہیں کر سکتے۔'
ان کا کہنا ہے مڈل کلاس طبقے کو انکم ٹیکس کے زمرے میں چھوٹ دے کر حکومت نے ایک سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ارن کمار کے مطابق دہلی اسمبلی کے انتخابات نزدیک ہیں اور سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد یہاں رہتی ہے جو متوسط طبقے میں آتے ہیں اور ٹیکس فائل کرتے ہیں۔
'بلواسطہ ٹیکسوں میں کمی لانے کی ضرورت ہے'
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی وصولیوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت انڈائیریکٹ ٹیکسوں کے ذریعے لوگوں سے زیادہ سے زیادہ پیسے وصول کر رہی ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 کے مقابلے میں 2024 میں جی ایس ٹی کی مد میں وصولیوں میں سات اعشاریہ تین فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا اور دسمبر 2024 تک 17 کھرب جی ایس ٹی جمع کیا جا چکا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ جی ایس ٹی جیسے انڈائیریکٹ ٹیکسوں کے بوجھ سے لوگوں کی قوتِ خرید متاثر ہو رہی ہے۔ اور بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے لوگ کم خریداری کر رہے ہیں۔
انڈیا میں بیشتر اشیا پر جی ایس ٹی کی شرح 18 فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہے جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ارن کمار کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایسے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے جن سے ملازمت کے مواقع پیدا ہوں جیسے کہ دیہی ترقی، تعلیم اور صحت۔
'دیہی علاقوں میں گھروں کی تعمیر اور انفراسٹرکچر کی بہتری میں لانے کے لیے سرامیہ کاری کی ضرورت ہے تب ہی لوگوں کے پاس پیسے آئیں گے۔'
'عام عوام کے ہاتھ میں بچ جانے والی رقم پھرمارکیٹ میں آئے گی اور طلب میں اضافے کا باعث بنے گی اور معیشت میں تیزی آئے گی۔ صرف مڈل کلاف کو ریلیف دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔'