ڈاکٹر جس نے باپ بیٹی کی لاشیں کئی ماہ تک گھر میں چھپائے رکھیں

یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب 29 جنوری کو ایسبن ایبل نامی شخص نے پولیس میں شکایت درج کرائی۔ شکایت میں کہا گیا ہے کہ ’ان کے رشتہ دار 78 سالہ سیموئل شنکر اور ان کی بیٹی 37 سالہ سنتھیا، ترومولائیوال میں ایک نجی رہائش گاہ میں رہ رہے تھے۔ سیموئیل شنکر اپنے علاج کے لیے ڈاکٹر سیموئل ایبینزر کے گھر مقیم تھے۔‘

انڈیا کی ریاست تامل ناڈو کے ضلع تھروالور میں پولیس نے ایک ڈاکٹر کو ایک شخص اور اس کی بیٹی کی ہلاکت کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔

پولیس کے مطابق گرفتار ملزم نے دونوں لاشیں تقریباً پانچ ماہ تک اپنے گھر میں رکھی تھیں۔

یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب 29 جنوری کو ایسبن ایبل نامی شخص نے پولیس میں شکایت درج کرائی۔

شکایت میں کہا گیا ہے کہ ’ان کے رشتہ دار 78 سالہ سیموئل شنکر اور ان کی بیٹی 37 سالہ سنتھیا، ترومولائیوال میں ایک نجی رہائش گاہ میں رہ رہے تھے۔ سیموئیل شنکر اپنے علاج کے لیے ڈاکٹر سیموئل ایبینزر کے گھر مقیم تھے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ گذشتہ چند ماہ سے ان سے رابطہ نہیں کر پا رہے ہیں۔

شکایت ملنے پر پولیس انسپکٹر جارج ملر تحقیقات کے لیے رہائش گاہ پہنچے جہاں پولیس کو گھر کے بیڈ روم میں ایک مرد اور عورت کی لاشیں ملیں۔

’باپ کی قدرتی موت، بیٹی کا قتل‘

علامتی تصویر
Getty Images

پولیس نے دونوں لاشوں کو کلپاک گورنمنٹ میڈیکل کالج ہسپتال بھیج دیا ہے۔

پولیس کمشنر کی طرف سے ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ جمعرات 30 جنوری کو کیے گئے پوسٹ مارٹم میں یہ بات سامنے آئی کہ خاتون کی موت سر پر چوٹ لگنے سے ہوئی۔

پوسٹ مارٹم کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ سیموئل شنکر کی موت قدرتی تھی۔

اس حوالے سے پولیس کی جانب سے ڈاکٹر سیموئل ایبینزر سے پوچھ گچھ سے کچھ معلومات سامنے آئی ہیں۔

سنتھیا کا اپنے والد کی بیماری اور موت کے بعد ڈاکٹر سیموئل ایبینزر سے جھگڑا ہوا۔ ڈاکٹر ایبینزر نے پولیس کی تفتیش میں بتایا کہ خاتون کی موت جھگڑے کے دوران دھکا لگنے سے ہوئی۔

پولیس انسپکٹر جارج ملر کا کہنا ہے کہ یہ قتل گذشتہ سال 6 ستمبر 2024 کو ہوا تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ابھی تک ان دونوں لاشوں کو چار ماہ سے زائد عرصے تک محفوظ رکھنے کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکلز کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔‘

سیموئل ایبینزر اور سنتھیا کی ملاقات سوشل میڈیا کے ذریعے ہوئی

بی بی سی نے باپ بیٹی کی موت سے متعلق کیس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے آوڑی پولیس کمشنر شنکر سے بات کی۔

انھوں نے کہا کہ ’دونوں کی لاشیں بوسیدہ حالت میں ملی ہیں۔ اس بات کی تحقیقات جاری ہیں کہ آیا ان کی موت تین ماہ قبل ہوئی تھی یا چار ماہ قبل۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ ان دونوں کی موت کو چند ماہ گزر چکے ہیں۔‘

پولیس کمشنر کا کہنا ہے کہ چونکہ قتل کا ملزم پیشے سے ڈاکٹر ہے اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ لاش کو محفوظ کیا گیا ہو۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ان دونوں کے جسموں سے کوئی تیز بدبو نہیں آرہی تھی۔ اس لیے ممکن ہے کہ لاشوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کچھ طبی طریقے استعمال کیے گئے ہوں۔‘

پولیس کمشنر شنکر بتاتے ہیں کہ ’34 سالہ سیموئل ایبینزر غیر شادی شدہ تھے۔ انھوں نے آسٹریا میں طب کی تعلیم حاصل کی تھی۔‘

سیموئل ایبینزر اور سنتھیا کی ملاقات سوشل میڈیا کے ذریعے ہوئی۔

سنتھیا پہلے ہی اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کر چکی تھیں۔ انھوں نے اپنے والد کے گردے کی بیماری کے علاج کے لیے ایبینزر سے مدد مانگی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سنتھیا اپنے والد کے ساتھ سیموئل ایبینزر کے گھر رہنے لگیں۔

گھر سے لاشیں ملنے کے بعد پولیس نے ڈاکٹر سیموئل ایبینزر سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ’میں ایسٹ کوسٹ روڈ پر ہوں، میں خود آؤں گا۔‘

’لیکن جب ہمیں ان کی طرف سے کوئی مناسب جواب نہیں ملا تو پولیس ٹیم بھیجی گئی اور انھیں گرفتار کر لیا گیا۔‘

پولیس کمشنر کا کہنا ہے کہ ’سنتھیا کے والد کا علاج چل رہا تھا۔ ان کی موت قدرتی وجوہات کی بنا پر ہوئی تھی۔ اس دوران ایبینزر میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ شاید اس وجہ سے دونوں کے درمیان لڑائی ہو گئی۔ ممکن ہے کہ ایبینزر نے انھیں دھکا دیا ہو اور یہ سنتھیا کے سر پر چوٹ کی وجہ ہو سکتی ہے۔‘

علامتی تصویر
Getty Images

کیا لاشیں مہینوں تک محفوظ رکھی جا سکتی ہیں؟

پولیس کمشنر شنکر کا کہنا ہے کہ ’دونوں لاشوں کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکل کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اس بارے میں تفصیلات تب سامنے آئیں گی جب انھیں پولیس کی تحویل میں لیا جائے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر لاشوں کو صحیح طریقے سے محفوظ نہ کیا جاتا تو بدبو آتی اور یہ معاملہ جلد سامنے آسکتا تھا۔‘

سیموئیل ایبینزر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

فرانزک سائنسدان کیا کہتے ہیں؟

چار ماہ تک لاش کو محفوظ رکھنے کے متعلق مزید جاننے کے لیے بی بی سی نے میناکشی میڈیکل کالج میں فرانزک سائنس میڈیسن کے شعبہ کے سربراہ پروفیسر ڈیکل سے بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میت کو گلنے سے بچانے کے دو طریقے ہیں۔ ایک لاش کو منجمد رکھنا۔ اس کے لیے فریج کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

’اس کے علاوہ جسم پر ایک مخصوص کیمیکل لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی کیمیکل ٹانگ میں فیمورل رگ کے ذریعے لگایا جائے تو یہ دل تک جائے گا اور تمام حصوں میں پھیل جائے گا۔ اس طرح ٹشوز کو نقصان پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔‘

ڈاکٹر ڈیکل کا کہنا ہے کہ یہ طریقے جسم کو مہینوں تک بغیر خراب ہوئے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.