بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے وفد کا دورہ پاکستان اس وقت خبروں کی زینت ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ وفد وزارت خزانہ سے معاشی امور پر مذاکرات کے بجائے عدلیہ اور الیکشن کمیشن سمیت مختلف اداروں کے سربراہان سے ملاقاتیں کر رہا ہے۔
آئی ایم ایف وفد نے منگل کو چیف جسٹس آف پاکستان سے ایک گھنٹہ تفصیلی ملاقات کی اور اب جوڈیشل کمیشن کے ارکان سے بھی ملاقات کا خواہش مند ہے۔
آئی ایم ایف کا وفد اپنے دورے کے دوران عدلیہ اور الیکشن کمیشن سمیت چھ مختلف سرکاری اداروں کا دورہ کرے گا جس میں کرپشن اور بیڈ گورننس جیسی کمزوریوں کی نشان دہی کی جائے گی۔
بین الاقوامی ادارے کے اس خصوصی وفد کے دورہ پاکستان اور عدلیہ سمیت خزانہ امور کے غیر متعقلہ اداروں کے سربراہان سے ملاقاتوں پر تشویش کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔
وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما رضا ربانی نے بھی آئی ایم ایف وفد کے ارکان کے ویزے منسوخ کرکے اُنہیں واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس معاملے پر حکومتی اداروں کے ساتھ کام کا تجربہ رکھنے والے پاکستان کے معروف معیشت دان سمجھتے ہیں آئی ایم ایف کے وفد کا دورہ پاکستان فریقین کے درمیان ایک طے شدہ بات ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’آئی ایم ایف کا وفد صرف اُنہی ممالک کے سرکاری اداروں کا جائزہ لیتا ہے جو آئی ایم ایف کے قرض کے بغیر چل نہیں سکتے۔‘
پاکستان کی وزارتِ خزانہ کا موقف؟
اُردو نیوز نے آئی ایم ایف کے وفد کے دورہ پاکستان کے بارے میں جب وزیر خزانہ کے مشیر اور ترجمان خرم شہزاد سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے اس دورے کو آئی ایم ایف کا مختلف ممالک کے ساتھ معاشی پروگرام کا حصہ قرار دیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس وفد کے دورہ پاکستان کی منصوبہ بندی گذشتہ سال کے وسط میں کی گئی تھی جس پر اب عمل درآمد ہو رہا ہے۔
اُنہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ آئی ایم کا وفد دوسرے ممالک کی بھی گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ رپورٹ مرتب کر چکا ہے اور اب یہ وفد پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔
ماہرین معیشت کے نزدیک آئی ایم ایف کے وفد کے دورے کی وجوہات کیا ہیں؟
ماہر معیشت اور سابق وزیر مملکت ہارون شریف کے خیال میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان عدم اعتماد کی فضا میں معاشی معاہدہ طے پایا ہے۔
اس کی وجہ سے ہی آئی ایم ایف نے پاکستان کے سامنے سخت مطالبات رکھے ہیں اور اُن پر عمل درآمد کی صورت میں ہی قرض کی فراہمی ممکن ہے۔
’چونکہ آئی ایم ایف کو حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار پر زیادہ اعتماد نہیں ہوتا اس لیے اُنہوں نے طے کیا تھا ہمارا ایک خصوصی وفد پاکستان میں کرپشن اور گورننس کے مسائل کا جائزہ لے گا اور اب اس طے شدہ بات پر عمل کیا جا رہا ہے۔‘
اُنہوں نے یہ پہلو بھی واضح کیا آئی ایم ایف کے شراکت دار یہ سوال بھی اٹھا سکتے ہیں کہ آپ پاکستان کو ایک طرف قرض دے رہے ہیں، تاہم وہاں تو عدلیہ آزاد نہیں ہے یا اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔‘
’اس لیے آئی ایم ایف اپنی تسلی کے لیے پاکستان کے عدالتی نظام کو سمجھنا چاہ رہا ہے کہ کیا یہاں ٹیکس دینے والوں کے مسائل حل ہو رہے ہیں۔اسی طرح تمام دوسرے شعبوں کی کارگردگی کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔‘
امریکی اثرورسوخ؟
اُردو نیوز سے گفتگو میں ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے آئی ایم ایف کے وفد کی چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات پر اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔[
ان کے مطابق جب دوسری جنگ عظیم کے بعد آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ادارے قائم کیے گئے تواُن کے ’آرٹیکل آف ایگریمنٹ‘ میں کسی ملک کے داخلی معاملات پر اثرانداز ہونا شامل نہیں تھا تاہم جیسے جیسے ان اداروں پر کسی ایک ملک یعنی امریکہ کا اثرورسوخ بڑھتا گیا تو ایسی پالیسیاں بھی بنا لی گئیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ 1997 میں گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ کے نام سے ایک پالیسی کو آئی ایم ایف کے فریم ورک میں شامل کیا گیا جس کے تحت یہ پاکستان جیسے کچھ خاص ممالک کے سرکاری اداروں بشمول عدلیہ پر نظر رکھتے ہیں۔
’کمزور ممالک ہی عالمی اداروں کو عدلیہ اور دیگر اداروں تک رسائی دیتے ہیں‘
ماہر معیشت اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویپلمنٹ اکنامکس کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق کا کہنا ہے کہ ’کوئی خوددار یا اپنے بل بوتے پر چلنے والا ملک غیر ملکی اداروں کو اپنے ملک کے اداروں میں گُھسنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘
اُن کا اس حوالے سے کہنا تھا یہ پاکستان کی حکومتوں کی نااہلی ہے کہ ہم اپنے اداروں کو خود سے مضبوط نہیں بنا سکے۔
کیا دوسرے ممالک میں بھی آئی ایم ایف کے وفود عدلیہ سمیت دیگر سرکاری اداروں کا دورہ کرتے اور جائزہ لیتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر ندیم الحق کا کہنا تھا ’ایسا بہت کم ہوتا ہے جب کوئی خودمختار ملک کسی غیر ملکی ادارے کو اپنے کارِ سرکار میں مداخلت کی اجازت دے، تاہم دنیا کے کمزور ممالک جو آئی ایم ایف کے قرض کے بغیر چل نہیں سکتے وہ اس کی اجازت دے دیتے ہیں۔‘
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف سے قرض لینے والے ممالک میں سے پاکستان کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔‘
اُنہوں نے کہا کہ ’پاکستان آئی ایم ایف سے 24 مرتبہ قرض لے چُکا ہے لیکن پھر بھی اس کے معاشی مسائل ختم نہیں ہو رہے، اس لیے آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آکر سرکاری اداروں میں گورننس اور کرپشن کے مسائل کی نشان دہی کر رہا ہے تاکہ اُسے پتا چل سکے کہ مریض ٹھیک کیوں نہیں ہو رہا۔‘
ڈاکٹر اشفاق حسن کے مطابق یہی تمام وجوہات ہیں کہ آئی ایم ایف کے وفد کو پاکستان کا ایک طے شدہ دورہ کرنا پڑ رہا ہے جو کہ سری لنکا یا دیگر ممالک کے لیے نہیں ہوتا۔