لیبیا کشتی حادثے میں پشاور کے نوجوان انیس خان کی لاش برآمد ہوگئی ہے جبکہ اس کا ایک ساتھی تاحال لاپتا ہے۔لیبیا کے ساحلی علاقے میں کشتی حادثے میں مرنے والوں میں پشاور کے 19 سالہ انیس خان بھی شامل تھے جو اپنے تین دوستوں کے ہمراہ اٹلی کے لیے سفر کر رہے تھے مگر حادثے میں جاں بر نہ ہو سکے جبکہ اُن کے قریبی دوست ابرار احمد تاحال لاپتا ہیں۔انیس خان کے ماموں حبیب اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’انیس خان سمیت چار دوست ایک ساتھ اٹلی جانے کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ دو دوستوں کو ریسکیو کرلیا گیا ہے جو مقامی انتظامیہ کی تحویل میں ہیں۔ وہ چار ماہ قبل پشاور سے اٹلی جانے کے لیے روانہ ہوئے تھے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’وہ وقتاً فوقتاً واٹس ایپ پر کال کرکے گھر والوں سے بات چیت کرتا تھا۔ اُس نے آخری بار ویڈیو کال پر گھر والوں سے کہا کہ وہ اب اٹلی پہنچ کر ہی کال کرے گا۔‘حبیب اللہ کے مطابق انیس کے ایجنٹوں نے دو بار کال کرکے مزید پیسوں کا مطالبہ کیا تھا۔ بیٹوں کی پریشانی دیکھ کر مجبور ہوئے اور ایجنٹوں کو مزید پیسے بھجوا دیے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ایجنٹوں کی جانب سے پیسوں کا مطالبہ کرنے کے بعد نوجوانوں پر تشدد بھی کیا گیا۔‘حبیب اللہ کے مطابق ایجنٹ نے یورپ پہنچانے کے لیے 30 سے 40 لاکھ روپے لیے ہیں۔ہلاک ہونے والے نوجوان انیس خان کے ماموں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لاش کو جلد وطن لانے کے لیے اقدامات کرے۔ دارمنگی ویلیج کونسل کے چئیرمین نور محمد اکاخیل نے بتایا کہ ’چاروں نوجوانوں کا تعلق ایک ہی علاقے سے ہے۔ کشتی حادثے کی خبر کے بعد پورے علاقے میں سوگ کی فضا ہے۔ ہماری درخواست ہے کہ ان ایجنٹوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ کسی اور کا بیٹا یوں نہ مارا جائے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’غربت اور بے روزگاری سے تنگ آئے نوجوان مجبور ہوکر ملک چھوڑ گئے تھے لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ موت ان کا انتظار کررہی ہے۔‘
اخلاق حسین نے بتایا کہ ’یورپ جانے کا خواب دکھا کر موت کے منہ میں دھکیلنے والے ایجنٹ مقامی ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
شہزاد نے یورپ جانے کے لیے قرض لیا
کشتی حادثے میں سب سے زیادہ ضلع کرم کے 13 شہری ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں جن میں 20 سالہ شہزاد حسین بھی شامل ہے۔شہزاد حسین اپر کرم کے گاؤں قوباد شاہ خیل سے ہے۔ اس گاؤں کی ویلیج کونسل کے چیئرمین سید اخلاق حسین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’شہزاد نے حالات سے تنگ آکر یورپ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کے والد بھی کویت میں ٹرک ڈرائیور ہیں، جو اپنے بیٹے کے بہتر مستقبل کے لیے انہیں یورپ بھجوانے پر رضامند ہو گئے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’شہزاد نے بہت مشکل سے پیسے جمع کیے تھے، کچھ قرضہ بھی لیا تاکہ ایجنٹوں کو پیسے دے سکے۔‘اخلاق حسین کے مطابق شہزاد کی موت کی خبر سن کر ان کے والد کویت سے واپس آچکے ہیں، تاہم بیٹے کی لاش کے بارے میں سردست کوئی معلومات نہیں مل سکیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’لیبیا کشتی حادثے میں ہلاک ہونے والے بیشتر نوجوانوں کا تعلق اپر کرم کے شہر پارا چنار سے ہے جو حالات اور بے روزگاری کی وجہ سے موت کو گلے لگانے پر تیار ہوئے۔‘اخلاق حسین نے بتایا کہ ’کرم کے نوجوانوں کو یورپ جانے کا خواب دکھا کر موت کے منہ میں دھکیلنے والے ایجنٹ مقامی ہیں جو ان مسافروں کو دوسرے ایجنٹوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔‘ٹریول ایجنٹس ایسوسی ایشن کے چئیرمین عابد الدین نے کہا کہ ’غیر قانونی راستہ دکھانے والے ٹریول ایجنٹس نہیں ہوتے نہ ان کا کوئی ٹھکانا ہوتا ہے۔ یہ لوگ انسانی سمگلر ہیں جو اپنے لیے شکار ڈھوندتے ہیں۔‘
عابدالدین کا کہنا تھا کہ ’ضم قبائلی علاقوں کے نوجوان انسانی سمگلروں کا آسان ہدف ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
ان کا کہنا ہے کہ ’مایوس اور بے روزگار نوجوانوں کو یورپ کا خواب دکھا کر جال میں پھنسایا جاتا ہے۔‘
عابدالدین کا کہنا تھا کہ ’ضم قبائلی علاقوں کے نوجوان انسانی سمگلروں کا آسان ہدف ہیں جن کو بیرونِ ملک بھیجنے کے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’غیر قانونی طور پر جانے کے لیے کوئٹہ کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے جہاں سے ایران اور پھر تارکینِ وطن کو ترکیہ یا لیبیا کے بارڈر پر پہنچایا جاتا ہے۔ ان دنوں ترکیہ اور دوسرے ممالک کے بارڈر پر سختی ہے اسی لیے لیبیا ان کے لیے ایک اہم مرکز بنا ہوا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’اس نوعیت کے افسوسناک واقعات کے سدِباب کے لیے نوجوان نسل کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ یورپ یا کسی بھی ملک جانے کے لیے غیر قانونی راستہ اختیار نہ کریں۔‘