بلوچستان میں مال بردار گاڑیوں کی ہڑتال، ’ہم چیک پوسٹوں سے تنگ ہیں‘

image
بلوچستان کے مال بردار گاڑیوں کے مالکان اور ڈرائیوروں نے پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ٹرک ڈرائیوروں کے ساتھ غیرمنصفانہ سلوک، ٹریفک قوانین کے نام پر بھاری جرمانوں اور رشوت ستانی کے خلاف منگل کو احتجاج شروع کر دیا ہے۔

بلوچستان سے دیگر صوبوں کو پھلوں اورسبزیوں سمیت اشیاء خور و نوش، کوئلہ اور دیگر تجارتی سامان کی ترسیل بند کر دی گئی ہے جبکہ دیگر صوبوں سے بلوچستان کو بھی سامان کی فراہمی معطل ہو گئی ہے۔

 یہ احتجاج بلوچستان گڈز ٹرک ٹرالرز اونرز ایسوسی ایشن، بلوچستان منی مزدا ٹرک ایسوسی ایشن، آئل ٹینکرز اونر ایسوسی ایشن، اور دیگر ٹرانسپورٹ تنظیموں کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔

پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سرحدوں سے ملحقہ علاقوں لورالائی، ژوب، جعفرآباد، حب سمیت مختلف مقامات پر قومی شاہراہوں پر ٹرانسپورٹرز نے تمام بڑی اور مال بردار گاڑیوں کو روک دیا ہے۔

احتجاج کے نتیجے میں ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران کے لیے بھی مال بردار گاڑیوں کی آمدورفت معطل ہو گئی ہے۔

اس صورتحال کے باعث بلوچستان میں پھلوں، سبزیوں، مرغی، انڈوں، گندم، آٹے اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

بلوچستان میں یہ ضروریات زیادہ تر باقی صوبوں سے پوری کی جاتی ہیں۔

اسی طرح بلوچستان سے کوئلہ، معدنیات، پیاز سمیت دیگر سبزیاں و پھل اور  دیگر ضروری اشیا کی ترسیل بند ہونے سے دیگر صوبوں میں بھی قیمتوں پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

گڈز ٹرک ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر نور احمد شاہوانی کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے۔

بلوچستان ٹرک گڈز کمپنیزایسوسی ایشن نے بھی احتجاج کی حمایت کی ہے۔ (فوٹو: فیس بک)

انہوں نے الزام لگایا کہ دیگر صوبوں خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں پولیس، موٹروے پولیس، ایکسائز، کسٹم، اور دیگر سکیورٹی فورسز بلوچستان کے ٹرکوں کو جگہ جگہ روکتی ہیں اور نہ صرف ناجائز جرمانے کرتی ہیں بلکہ رشوت بھی لی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرک ڈرائیوروں کے ساتھ غیرمنصفانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ ناکوں اور چوکیوں پر تعینات اہلکار ڈرائیوروں کو تشدد کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

بلوچستان ٹرک گڈز کمپنیزایسوسی ایشن نے بھی احتجاج کی حمایت کی ہے۔ ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر نور احمد کاکڑ نے بتایا کہ بلوچستان سے سندھ اور پنجاب میں داخل ہوتے ہی ٹرکوں کو روک لیا جاتا ہے اور تین سے چار جگہوں پر 10 سے پندرہ ہزار روپے رشوت لیے بغیر آگے جانے نہیں دیا جاتا۔ خاص طور پر بلوچستان سے سندھ میں داخل ہوتے ہی جیکب آباد اور پنجاب میں ڈیرہ غازی خان میں بلوچستان سے آنے والے ہر ٹرک کو بلا جواز روکا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر رشوت نہ دی جائے تو مختلف بہانوں سے گاڑیوں کو گھنٹوں بلکہ کئی دنوں تک روکا جاتا ہے جس کی وجہ سے ٹرکوں میں لوڈ پھل اور سبزیاں خراب ہو جاتی ہیں۔

نور احمد کاکڑ نے مزید بتایا کہ بلوچستان میں ایرانی تیل سستا ملتا ہے اس لیے بلوچستان کے ٹرک مالکان یہاں سے ہی ٹینکیاں بھرتے ہیں تاکہ انہیں کچھ بچت ہو۔ تاہم شاہراہوں پر پولیس اور دیگر اداروں کے اہلکار انہیں تنگ کرتے ہیں اور ان کے ٹینکیوں سے تیل نکال لیتے ہیں اور پھر فروخت کردیتے ہیں۔

جبار کاکڑ کے مطابق ٹرک مالکان کا ایک بڑا مسئلہ ایکسل لوڈ مینجمنٹ کا بھی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

احتجاج میں شریک لورالائی کے ٹرک مالک جبار کاکڑ نے بتایا کہ اگر ٹینکی میں تیل کم بھی ہو تو پولیس، کسٹم، ایکسائز، اور دیگر اداروں کے اہلکار انہیں نہیں چھوڑتے اور کہتے ہیں کہ آپ بے شک شمسی توانائی پر ٹرک چلائیں لیکن ہمیں تیل یا اس کی مد میں رقم دینا ہوگی۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ کروڑوں روپے سرمایہ کاری کرکے بڑی مال بردار گاڑیاں خریدتے ہیں جن میں سے بعض قسطوں پر خریدی جاتی ہیں۔ تیل، ڈرائیور کی تنخواہ، گاڑی کی مرمت اور دیگر اخراجات کو نکال کر جو منافع بچتا ہے وہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں موٹروے اور ٹریفک پولیس کے بلاجواز چالانوں میں ضائع ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خاص طور پر پنجاب میں بلوچستان کے ٹرک ڈرائیوروں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے جہاں ہائی وے اور موٹروے پولیس بلوچستان کے ٹرکوں کو تمام دستاویزات پوری ہونے کے باوجود 25 سے 30 ہزار روپے جرمانہ کرتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پنجاب کی مقامی گاڑیوں کو بہت کم جرمانے کیے جاتے ہیں۔

ٹرک مالکان کا مزید کہنا تھا کہ وہ دن میں سکیورٹی چیک پوسٹوں سے تنگ ہیں، جہاں انہیں گھنٹوں کھڑا کیا جاتا ہے، جبکہ رات میں امن وامان کی خراب صورتحال، دہشت گردی کے واقعات، اور ڈاکوؤں کی جانب سے لوٹ مار کے خوف سے سفر نہیں کر سکتے۔

لورالائی، سنجاوی، دکی اور ہرنائی میں درجنوں بار کوئلہ سے بھری گاڑیوں کو جلایا گیا ہے جبکہ ژوب سے ڈیرہ اسماعیل خان تک رات کے وقت سفر کرنا جان پر کھیلنے جیسا ہے۔

جبار کاکڑ کے مطابق ٹرک مالکان کا ایک بڑا مسئلہ ایکسل لوڈ مینجمنٹ کا بھی ہے۔ دس ویلر گاڑی کے لیے وزن کی حد 27 ٹن مقرر کی گئی ہے، جبکہ 12  سے 15 ٹن گاڑی کا وزن ہوتا ہے۔ کم وزن اٹھانے کی وجہ سے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور کرایہ بڑھ جاتا ہے۔

نور احمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ اگر کسی نے اضافی سامان لوڈ کیا ہو تو مقررہ حد سے اضافی سامان اتارا جائے نہ کہ ٹرک ڈرائیوروں کو بھاری جرمانہ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرک مالکان پر تاجروں کا دباؤ ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سامان لوڈ کریں تاکہ کرایہ کم ہو۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جرمانے کی بجائے مقررہ حد سے اضافی وزن کا سامان اتارا جائے تاکہ آئندہ کوئی تاجر ٹرک مالکان پر دباؤ نہ ڈالے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.