نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ شاہ زیب نے سنہ 2020 میں انسانی سمگلر کے جھانسے میں آ کر ڈنکی لگا کر یورپ جانے کا فیصلہ کیا۔شاہ زیب نے ایران اور ترکیہ کے راستے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ترکیہ پہنچنے پر اُنہوں نے کچھ دیگر پاکستانیوں سے بات چیت کی اور آگے کے سفر کی مشکلات کا اندازہ لگانا شروع کیا۔انہیں جب معلوم ہوا کہ ترکیہ سے آگے سمندی راستے سے اپنی منزل تک پہنچنا خطرے سے بھرپور ہے تو وہ یورپ جانے کا فیصلہ ترک کرتے ہوئے واپس پاکستان لوٹ آئے۔
بہتر روزگار کی امید لیے شاہ زیب نے اب قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوششیں شروع کر دیں اور بالآخر جنوری 2023 میں اُنہیں دبئی کا ویزہ مل گیا اور وہ بیرون روانہ ہو گئے۔
اُنہوں نے دبئی میں کم و بیش دو برس کام کیا لیکن گذشتہ سال دسمبر میں اُن کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی اور اُنہیں ایمرجنسی چھٹی لے کر پاکستان آنا پڑا۔ وہ اسلام آباد میں 20 روز اپنے علاج کے لیے ٹھہرے اور گذشتہ ماہ جنوری میں دوبارہ دبئی جانے کے لیے ایئرپورٹ پہنچے۔تاہم ایئرپورٹ پر اُنہیں بتایا گیا کہ ’آپ کا نام تو پاسپورٹ کنٹرول لسٹ (پی سی ایل) میں شامل ہے اور آپ بیرون ممالک سفر نہیں کر سکتے‘، تو اُن کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور وہ مجبوراً گھر لوٹ آئے۔شاہزیب خان کی طرح سینکڑوں ایسے پاکستانی جو ماضی میں ڈنکی لگا کر بیرون ممالک جانے کی کوشش کر چکے ہیں، اُن کے نام پی سی ایل میں شامل کیے گئے ہیں۔ اور اب وہ قانونی طور پر بھی کسی دوسرے ملک میں اچھے روزگار کے حصول کے لیے نہیں جا سکتے۔اس حوالے سے پاکستان کی وزارت داخلہ کو ایف آئی اے بلوچستان نے ایک خط بھی ارسال کیا ہے جس میں 20 ہزار سے زائد ایسے شہریوں کی فہرست شیئر کی گئی ہے جو سنہ 2021 اور 2022 کے دوران غیرقانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش میں ملوث پائے گئے ہیں۔اُردو نیوز کو دستیاب خط کی کاپی کے مطابق تفتان بارڈر پر ایرانی حکام نے ایسے ہزاروں شہری پاکستان کے حوالے کیے ہیں جو حالیہ برسوں کے دوران ایران کے راستے یورپ داخل ہونے کی کوشش کر چکے ہیں۔ایف آئی اے نے اپنے خط میں کہا ہے کہ ’ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ ان شہریوں میں سے کچھ اب دوبارہ انسانی سمگلروں سے رابطہ کر کے غیرقانونی طور پر بیرون ممالک جانا چاہتے ہیں اس لیے وزارت داخلہ (محکمہ پاسپورٹ اینڈ امیگریشن) ان تمام شہریوں کے نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرے۔‘
تفتان بارڈر پر ایرانی حکام نے ایسے ہزاروں شہری پاکستان کے حوالے کیے ہیں جو ایران کے راستے یورپ داخل ہونے کی کوشش کر چکے ہیں۔ (فائل فوٹو: آئی ایس پی آر)
بعدازاں وزارت داخلہ نے ایف آئی اے بلوچستان کی درخواست پر فہرست میں دیے گئے شہریوں کے نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیے۔
تاہم ان میں سینکڑوں ایسے شہری بھی شامل ہیں جو اب قانونی طور پر بیرون ممالک نوکری کر رہے ہیں یا قانونی راستے سے کسی دوسرے ملک جانا چاہتے ہیں لیکن اُن کا نام پی سی ایل میں ہونے کے سبب وہ پاکستان سے باہر نہیں جا سکتے۔’کمپنی سمجھ رہی ہے کہ میں وہاں سے بھاگا ہوا ہوں‘پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں نام شامل ہونے کی وجہ سے ایک خلیجی ملک میں کام کرنے والے نوجوان شاہ زیب خان نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’میں اپنے گھر کا واحد سہارا ہوں اور روزگار کی تلاش میں ہی بیرون ملک گیا تھا۔ تاہم اب میری چھٹی ختم ہو چکی ہے اور کمپنی یہ سمجھ رہی ہے کہ میں وہاں سے بنا بتائے بھاگ آیا ہوں اس لیے اگر مجھے پاکستانی اداروں سے فوری ریلیف نہیں ملا تو مجھ پر دبئی میں داخلے پر پانچ برس کے لیے پابندی لگ جائے گی۔‘ڈپلومیٹک اینڈ امیگریشن لاز کے ماہر میجر (ر) بیرسٹر مُحمد ساجد مجید چوہدری نے ماضی میں ڈنکی لگا کر بیرون ملک جانے کی کوشش کرنے والے شہریوں کے نام پی سی ایل میں شامل ہونے کے معاملے پر کہا کہ پاکستان کے قانون کے مطابق زندگی میں چاہے ایک مرتبہ ہی کسی شہری نے غیرقانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش کیوں نہ کی ہو حکومت پاکستان اُس کا نام پی سی ایل میں ڈالنے کی مجاز ہے۔اُنہوں نے کہا کہ ’دنیا کے تمام ممالک غیرقانونی طور پر کسی دوسرے ملک میں جانے یا اُس کی کی کوشش کرنے والے شہریوں پر ایسی ہی پابندیاں لگاتے ہیں۔‘
وزارت داخلہ نے ایف آئی اے بلوچستان کی درخواست پر فہرست میں دیے گئے شہریوں کے نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیے۔ (فائل فوٹو: ایکس)
ڈپلومیٹک اینڈ امیگریشن لاز کے ماہر کے مطابق ’پاکستان میں ماضی میں تو شاید اتنی سخت پالیسی رائج نہیں تھی تاہم حالیہ عرصے میں کشتی حادثات کے واقعات کے بعد ایسے سخت اقدامات کیے گئے ہیں۔‘
پاسپورٹ کنٹرول لسٹ سے اپنا نام کیسے نکلوایا جا سکتا ہے؟ساجد مجید چوہدری نے کہا کہ اگر ان وجوہات کی بنیاد پر کسی شہری کا نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر لیا جائے تو اُس کے واپس نکلوانے کا بھی ایک طریقہ کار موجود ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ ’متاثرہ شہریوں کو عدالت میں سیکشن 164 کے تحت دو گواہان کے ساتھ بیان حلفی جمع کروانا ہوتا ہے جس کی ایک کاپی وزارت داخلہ کو بھی فراہم کرنی ہوتی ہے جس کے بعد وزارت داخلہ متعلقہ شہریوں کے نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کی پابند ہے۔‘