کاش کرکٹ میں بھی مرضی کے امپائرز ہوتے، اجمل جامی کا کالم

image
یعنی اب انڈین ریٹائرڈ کھلاڑی بھی جگتیں لگا رہے ہیں، روی چندرن ایشون نے کنگ بابر کی ففٹی پر پھبتی کسی، سلمان آغا کے ساتھ ان کی بلے بازی کو کچھوے اور خرگوش کی  کہانی کی عملی مثال قرار دے ڈالا۔ کرکٹ اس قوم کا جنون تھا، شاید اب بھی ہو۔

یہ کھیل قوم کے دُکھ خوشیوں میں بدلا کرتا تھا۔ اہلیان وطن آپسی اختلافات بھلا کر کرکٹ کی کامیابیوں سے سرشار ہو کر جشن منایا کرتے تھے، چہرے کھل اٹھتے، ڈھول بجتے، جشن ہوتا اور قوم 24 سے 48 گھنٹے سُکھ کا سانس لیا کرتی تھی۔

لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ شاید وقتی خوشی کا یہ واحد ذریعہ بھی خواب بن کررہ گیا ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم میں جان ہے نہ جہان۔ جگر ہے نہ گردہ، دل ہے نہ دماغ، ہمت ہے نہ حوصلہ، جوش ہے نہ جذبہ۔ ہاں البتہ نخرے ہیں، لابیاں ہیں، انائیں ہیں اور پرلے درجے کی حماقتیں ہیں۔

مدتوں بعد آئی سی سی کا ایونٹ پاکستان میں کھیلا جا رہا ہے، زور و شور سے تیاریاں مکمل ہوئیں، تو اہل وطن پُرجوش طریقے سے افتتاحی میچ پر نظریں جمائے دن بھر بیٹھے رہے، شاندار افتتاحی تقریب کے دوران پاک فضائیہ کے طیاروں نے خوبصورت ترتیب میں فلائی پاسٹ کیا، سلامی پیش کرتے ہوئے دنیا بھر کے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔

خیال تھا ہوم گراؤنڈ پر اس پُرجوش افتتاحی تقریب سے قومی ٹیم کا جوش اور جذبہ آسمانوں کو چھو رہا ہوگا۔ ٹاس ہوا، پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا گیا حالانکہ میچ شروع ہوا تو پہلی اننگز میں ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ دوسری باری میں بلے بازی مشکل ہوگی۔ گیند پہلی اننگز میں ہی کئی بار نیچے رہی۔ نہ جانے ہماری ٹیم منیجمنٹ اور کپتان نے کیا سوچ کر پہلے بولنگ کا سوچا۔ آخری دس اوورز میں پاکستان کی پیس بیٹری نے 113 رنز نیوزی لینڈ کی خدمت میں پیش کیے۔

64 رنز بنانے کے بعد بابر پولین لوٹ گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

شاہین، نسیم اور حارث نے سات اعشاریہ ایک تین کی اوسط سے مجموعی طور پر 30 اوورز میں 214 رنز دیے اور صرف چار وکٹیں حاصل کیں۔ نیوزی لینڈ کے فاسٹ بولرز نے تقریباً 19 اورز میں 92 رنز دے کر چھ وکٹیں حاصل کیں۔ نیوزی لینڈ کے سپنرز نے پانچ اور ہمارے جادوگر سپنرز نے صرف ایک وکٹ حاصل کی۔

320 رنز کے جواب میں پہلے 10 اورز میں ہماری ٹیم نے دو وکٹیں گنوا کر صرف 22 رنز بنائے۔  یہ 22 رنز نیا ریکارڈ ہیں، یعنی ہوم گراؤنڈ پر پہلے 10 اوررز میں کم رنز کا ریکارڈ۔ ان پہلے دس اوورز میں ہمارے سورما بلے باز محض دو چوکے ہی لگا سکے۔

اس سے پہلے کہ قارئین فوراً تالیاں بجانے پر مجبور ہوں اطلاعاً عرض ہے کہ ان 10 اوورز کی 60 گیندوں میں سے ہمارے سلامی بلے باز صرف 13 گیندوں پر رنز لینے میں کامیاب ہوئے باقی 47 گیندیں ڈاٹ رہیں۔ تالیاں!

مزید کارہائے نمایاں کا احوال بھی جان لیجیے تاکہ پہلی بد ترین شکست پر رنجیدہ ہونے میں کوئی کسر باقی نہ رہے۔ (حالانکہ اب ہم نیوزی لینڈ کے ہاتھوں اپنے ہی ہوم گراؤنڈ پر اب مسلسل ہارنے کی ہیٹرک مکمل کر چکے)۔  قومی ٹیم کے مہان بلے بازوں نے 47 اعشاریہ دو اوورز کھیلے، 161 ڈاٹ بالز کھیلیں۔ یعنی 284 گیندوں میں سے 161 گیندوں پر کوئی رنز نہ بن سکا۔ 

جدید کرکٹ میں کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ کوئی اوپنر بلے باز 34 اوورز تک وکٹ پر کھڑا ہو اور وہ سنچری نہ بنا سکے یا ٹیم کو میچ بنا کر نہ دے سکے؟ کوہلی، شرما یا آسٹریلین بلے باز ٹرویس ہیڈ اگر 34 اوورز تک کریز پر موجود رہے تو رنز کیا ہوں گے؟ کیا یہ سوچنا محال ہے؟ ہرگز نہیں۔ اور تو اور افغانستان کا رحمان اللہ گرباز 34 اوورز تک کھڑا رہے تو نہ صرف سنچری سکور کرتا ہے بلکہ  ٹیم بھی میچ جیت جاتی ہے، تازہ مثال نومبر میں بنگلہ دیش کے خلاف افغانستان کی کامیابی ہے۔

انڈین اور بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان آج دوبئی میں میچ ہوگا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ہمارے کنگ بابر کے ساتھ کیا ہوا؟ کیا یہ اوپننگ بلے باز ہیں؟ انہیں اوپن کروانا کس افلاطون کا مشورہ تھا؟ کیا یہ فارم میں ہیں؟ 34 اوورز تک یہ وکٹ پر موجود تھے، 90 گیندیں کھیل کر سیٹ ہو چکے تھے، رنز البتہ صرف 64 ہی تھے کہ آؤٹ ہو کر واپس پویلین جا لوٹے۔ ساتھ ہی ٹیم کا بھی دھڑن تختہ ہو گیا۔

ابرار کے علاوہ کوئی دوسرا مستند سپنر سرے سے ہی موجود نہیں، فخر کے علاوہ کوئی فل ٹائم اوپنر بھی دستیاب نہیں، بابر سے اوپن کروانے کا بلنڈر جاری ہی تھا کہ نیوزی لینڈ کے خلاف فخر کی انجری کی وجہ سے سعود شکیل سے اوپن کروایا گیا۔

فاسٹ بولنگ ٹیم کی شناخت رہی لیکن اب شاہین ہوں یا حارث، نسیم ہوں یا کوئی اور، برابر مار کھاتے ہیں۔ نہ لائن لینتھ ہے اور نہ سپیڈ۔ جو ہے اسے ششکا کہا جاتا ہے اور وہ بھی سوشل میڈیا کی ہی حد تک۔ یہاں اس ٹیم کی تو یہ شناخت تھی کہ 60 رنز کھانے والے فاسٹ بولر کو منہ چھپانا پڑتا تھا، اب حارث رؤف تسلسل سے 70، 80 رنز سکور کرواتے ہیں مگر پھر بھی فاسٹ بولر کہلاتے ہیں۔ شاہین کے ابتدائی اوورز میں میجکیل سونگ اب اِک یاد ماضی ہے۔ نسیم کی ایکوریسی ایک خواب ہے۔

ٹورنامنٹ کی افتتاحی تقریب میں پاکستان کی فضائیہ نے فلائی پاسٹ کا مظاہرہ کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حارث کے یارکرز یا باؤنسرز اب پرانے میچز کی جھلکیوں میں ہی دکھائی دیتے ہیں۔ کہاں ثقلین یا سعید اجمل اور کہاں بے چارہ اکیلا ابرار۔ یاد پڑتا ہے کہ وسیم اکرم کی کپتانی میں ثقلین پر اعتماد کا یہ عالم ہوا کرتا تھا کہ وسیم ان سے آخری اورز بھی کروایا کرتے تھے۔ اور اب؟

اوپنر مستند ہیں نہ مڈل آرڈر، لوئر مڈل آرڈر کی ہڈی پسلی ہے، نہ ٹیل اینڈرز میں لمبی ہٹ لگانے والے باقی۔ صائم ایوب زخمی ہوا تو اوپننگ کے مسائل کھل کر سامنے آگئے، امام الحق کو کھلانے میں کیا امر مانع تھا؟ کس کی ذاتی پسند نا پسند اور ہٹ دھرمی آڑے آئی؟ اور کچھ نہیں تو ایک اینڈ سے وکٹ تو سنبھالے رکھتا تھا۔ سعود شکیل جیسے ٹیسٹ پلیئر کو ون ڈے مسلسل کھلا کر کون فلاپ کرنا چاہ رہا ہے؟ طیب طاہر نے مڈل آرڈر میں کون سا تیر مارا ہے کہ مسلسل اسے موقع دیا جا رہے؟

سچ پوچھیں تو ہمیں اب دل سے مان لینا چاہیے کہ کرکٹ کے سنہرے دن اب یاد ماضی ہیں۔ موجودہ ٹیم سے توقعات وابستہ کرنا ان بے چاروں کے ساتھ زیادتی ہے۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں اور یہ یقین رکھیں کہ پاکستان کی اب بس یہی جیت ہے کہ یہاں طویل جدوجہد کے بعد چیمپئنز ٹرافی کھیلی جا رہی ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.