خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کے بغدادی بازار سے کچھ فاصلے پر نور محمد اپنے بچوں کے ہمراہ اینٹوں کی بھٹی میں کام کرتے تھے۔
یہ تب کی بات ہے جب پاکستان کو آزاد ہوئے قریباً دو دہائیوں کا عرصہ گزر چکا تھا۔ نور خان کی بیٹیوں کے نام حمیدہ، سانگہ اور مجانہ تھے۔
سانگہ کی شادی مالاکنڈ درگئی میں نذیر نامی نوجوان سے ہوئی۔ حمیدہ بی بی نے جب ہوش سنبھالا تو ان کے والدین کا انتقال ہو چکا تھا۔
وہ درگئی میں اپنی بہن سانگہ کے گھر جایا کرتی تھیں۔ ایک دن جب وہ اپنی بہن کے ہاں پہنچیں تو پڑوس میں گلزار نامی شخص نے مبینہ طور پر انہیں اغوا کر لیا۔ اس وقت حمیدہ بی بی کی عمر لگ بھگ 10 سال تھی۔
کراچی کے سماجی کارکن ولی اللہ معروف کے مطابق ’گلزار نے حمیدہ کو ڈھائی ہزار روپے کے عوض فروخت کیا اور پھر ہاتھ در ہاتھ فروخت ہوتے ہوتے حمیدہ سندھ کے علاقے شکارپور کے ایک شخص کے ہاتھ فروخت ہوئی۔‘
شکارپور میں جس شخص نے حمیدہ کو خریدا اس نے ان سے نکاح کر لیا۔ ولی اللہ معروف بتاتے ہیں کہ ’حمیدہ شکارپور میں رہنے لگیں۔‘
وقت گزرتا گیا اور حمیدہ کے آج 6 بیٹے اور 4 بیٹیاں ہیں، لیکن دبی ہوئی خواہش تھی جس نے حمیدہ کی زندگی کو بے رنگ سا کر دیا تھا۔‘
شکارپور میں حمیدہ نے اپنی ساری زندگی بسر کی۔ بیٹوں نے انہیں لاڈ پیار سے پالا اور عمرے کی ادائیگی کے لیے بھی بھیجا لیکن وہ اپنی زندگی میں کمی محسوس کرتی رہیں۔
وہ اپنے بچھڑے ہوئے بہن بھائیوں اور خاندان سے ملنا چاہتی تھیں۔ انہیں اپنی بہنوں، سگے بھائی کے نام اور مردان میں اپنے آبائی علاقے کا نام یاد تھا لیکن کبھی وہاں جانے کی جرأت نہیں کی۔
ولی اللہ کے مطابق ’حمیدہ نے اپنے بیٹوں کو بتایا تو وہ انہیں مردان لے آئے تاکہ ان کا کھویا ہوا خاندان تلاش کیا جا سکے۔‘
’مردان میں حمیدہ نے اپنا علاقہ تو پہچان لیا لیکن انہیں معلوم ہوا کہ ان کا خاندان وہاں سے راولپنڈی منتقل ہو چکا ہے۔ اس کے بعد وہ راولپنڈی کے گلی کوچوں میں اپنے بھائی اور بہنوں کو تلاش کرتی رہیں لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔‘
حمیدہ اور ان کے بیٹے مایوس ہوگئے۔ اب تک انہیں اپنے خاندان سے بچھڑے تقریباً 57 سال گزر چکے تھے۔ ان کی امید بھی دم توڑ چکی تھی۔ حمیدہ کے ایک بیٹے نے دینی تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور وہ ایک مدرسے میں بچوں کو پڑھاتے بھی ہیں۔
کراچی کے ولی اللہ معروف نے حمیدہ کو ان کے اہل خانہ سے ملوانے میں اہم کردار ادا کیا (فائل فوٹو: ولی اللہ)
شکارپور میں حمیدہ کی کہانی زبان زدِعام ہوگئی تھی۔ مقامی افراد کو بھی ان کے خاندان سے متعلق تجسس تھا۔ پھر ایک روز اچانک ایک شخص نے حمیدہ کے بیٹے کو کراچی کے رہائشی ولی اللہ معروف کے بارے میں بتایا۔
ولی اللہ معروف کے مطابق ’حمیدہ کے بیٹے نے مجھ سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں ہمارے فیس بک پیج کے ایک فالوور نے نمبر دیا ہے۔‘
فیس بُک فالوور نے انہیں بتایا کہ ولی اللہ معروف کے توسط سے آپ کی والدہ کا خاندان مل سکتا ہے۔ ہم نے حمیدہ سے بات کی تو انہوں نے ہمیں وہ نام بتائے جو انہیں اب تک یاد تھے۔‘
اب تک حمیدہ بی بی اپنی مادری زبان بھول چکی تھیں اور وہ اردو بھی نہیں بول سکتی تھیں۔ حمیدہ زیادہ تر بات چیت سندھی زبان میں کرتی ہیں۔
ولی اللہ معروف کے مطابق انہوں نے حمیدہ سے ابتدائی معلومات لے کر اپنے فیس بُک پیج پر ان کی ایک عدد تصویر اور درخواست شیئر کی۔
’انہیں اپنے والد، والدہ، بھائی، دو بہنوں اور ایک بھانجے کا نام یاد تھا۔ فیس بُک پر ان کی کہانی شیئر کی تو چند ہی گھنٹوں میں ہزاروں افراد نے وہ پوسٹ شیئر کردی اور مجھ سے دنیا بھر سے رابطے ہونے لگے۔‘
ابھی اس پوسٹ کو فیس بُک پر اَپ لوڈ ہوئے محض 7 گھنٹے ہی گزرے تھے کہ ولی اللہ کو مردان سے ایک شخص کی کال موصول ہوئی جنہوں نے اپنا نام حاجی شاہ زمان بتایا۔
’حمیدہ اور یار محمد نے جب ایک دوسرے کو دیکھا تو زار و قطار رونے لگے‘ (فائل فوٹو: سکرین گریب)
ولی اللہ نے بتایا کہ ’شاہ زمان کا کہنا تھا کہ حمیدہ ان کی خالہ زاد بہن ہیں اور میری عمر 60 سال ہے۔ ہمیں زیادہ تو یاد نہیں لیکن بچپن میں جب ہم اپنے والد کے ساتھ اینٹوں کی بھٹی پر جاتے تھے تو ان کے والد اور بھائی وہاں کام کرتے تھے۔‘
شاہ زمان نے انہیں مزید بتایا کہ ’یہ وہی حمیدہ بی بی ہیں جو بچپن میں کھو گئی تھیں اور اب ان کا خاندان مل گیا ہے۔‘
حاجی شاہ زمان کا کہنا تھا کہ ’میرا ہاتھ فالج زدہ ہے تو اس لیے میرا دن زیادہ تر گھر پر موبائل استعمال کرتے ہی گزر جاتا ہے۔ میں فیس بُک سکرول کر رہا تھا کہ میرے سامنے ولی اللہ معروف کی پوسٹ آئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’معلوم نہیں کیوں لیکن اس پوسٹ نے میری توجہ حاصل کی۔ میں نے جب تفصیل سے پڑھا تو مجھے حمیدہ بی بی کے بتائے ہوئے نام شناسا لگے۔‘
حاجی شاہ زمان نے فیس بُک پر پوسٹ دیکھنے کے بعد فوری طور پر اپنے قریبی رشتہ داروں سے رابطے کیے تاکہ تصدیق کی جا سکے۔ اب تک رات کے 11 بج چکے تھے۔ انہوں نے حمیدہ بی بی کے بھائی یار محمد سے رابطہ کیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے یار محمد سے پوچھا کہ آپ کی ایک بہن بچپن میں کھو گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے خود بھی نہیں یاد لیکن بڑی بہن نے بتایا تھا۔‘
یار محمد کہتے ہیں کہ ’ہم نے اپنی بہن کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ آج تک نہیں ملی۔‘ حاجی شاہ زمان نے یار محمد کو بتایا کہ آپ کی بہن مل چکی ہے۔ وہ حیران تھے کہ یہ کیسے ممکن ہوا؟‘
یار محمد کو یقین نہیں آرہا تھا کیوں کہ انہوں نے بھی اپنی بہن کی تلاش میں عمر کا بہت زیادہ حصہ صرف کیا تھا۔ حاجی شاہ زمان نے ولی اللہ کے ذریعے حمیدہ بی بی سے بات چیت کی اور انہیں یار محمد کی تصویر بھیجی جس کی تصدیق حمیدہ بی بی نے کر دی۔
اپنے بھائی کے ہاں کئی دن گزارنے کے بعد حمیدہ واپس شکارپور کے لیے روانہ ہوگئیں (فائل فوٹو: سکرین گریب)
ولی اللہ نے تمام ضروری کوائف مکمل کرنے کے بعد ان کی ملاقات کروانے کا عزم کیا۔ ولی اللہ کے مطابق ’حمیدہ کا صرف ایک بھائی اور بہن زندہ تھے۔‘
وہ حمیدہ اور ان کے بیٹے کے ہمراہ شکارپور سے مردان کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ حاجی شاہ زمان کے ہاں پہنچے اور پھر یار محمد کے گھر کے لیے روانہ ہوئے۔
ولی اللہ معروف بتاتے ہیں کہ ’یار محمد کے ہاں استقبال کے لیے بہت سارے لوگ جمع تھے۔ حمیدہ کے بھانجوں نے پھولوں کے ہار پکڑے تھے۔ ہمیں ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی بارات جا رہی ہو۔‘
’حمیدہ اور یار محمد نے جب ایک دوسرے کو دیکھا تو زار و قطار رونے لگے۔ وہ کافی دیر تک گلے مل کر روتے رہے۔ حمیدہ پھر اپنی بہن سے بھی ملیں۔‘
یار محمد نے ان کے لیے دعوت کا اہتمام کر رکھا تھا اور مٹھائی بھی بانٹی اور بتایا کہ انہوں نے خانۂ کعبہ میں اپنی بہن کے لیے دعا مانگی تھی کہ وہ انہیں مل جائے۔
ولی اللہ معروف کے مطابق ’یار محمد نے ہمیں بتایا کہ اگر مجھے معمولی نشانی بھی مل جاتی تو میں دنیا کے کسی بھی کونے میں جا پہنچتا لیکن مجھے اپنی بہن سے متعلق کسی چیز کا علم نہیں تھا۔‘
’حمیدہ کا کہنا تھا کہ اللہ نے مجھے سب کچھ دیا۔ بیٹے دیے، بیٹیاں دیں اور ہم مال مویشی پالنے لگے لیکن اپنے خاندان سے ملنا میرا خواب تھا جو اب پورا ہوا۔‘
حمیدہ نے اپنے بھائی کے ہاں کئی دن گزارے اور پھر واپس شکارپور کے لیے روانہ ہوگئیں۔ حاجی شاہ زمان بتاتے ہیں کہ ’اب تو ہماری بہن مل گئی ہے۔ اب تو آنا جانا رہے گا۔ وہ شکارپور میں اپنے بچوں کے ساتھ خوش ہے ہمیں اور کیا چاہیے؟‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ وقتاً فوقتاً ہم بہن بھائی اور رشتہ دار ان کے ہاں جایا کریں گے تاکہ حمیدہ کو اپنے خاندان کے نہ ہونے کی کمی محسوس نہ ہو۔‘