رمضان کے مہینے میں قیمتوں کی چیکنگ کے دوران ضلعی انتظامیہ کے افسران اور تاجر برادری کے درمیان اکثر ناخوشگوار واقعات رونما ہوتے ہیں، کہیں ریڑھی بانوں کے سامان کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو کہیں تشدد کر کے دکانداروں کو حراست میں لیا جاتا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے اس سخت برتاؤ کے باعث عوام کی جانب سے بھی انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔مگر صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے جہاں پر تعینات اسسٹنٹ کمشنر کو نہ صرف عوامی پذیرائی حاصل ہے بلکہ ان کی کارروائی سے تاجر برادری بھی مطمئن ہے۔
تحصیل الپوری کے اے سی ڈاکٹر محمد حامد صدیق اپنی خوش مزاجی اور نرم گفتار کی وجہ سے لوگوں کے پسندیدہ افسر بن چکے ہیں۔ مقامی نوجوان ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شئیر کر کے عزت افزائی کر رہے ہیں جبکہ کچھ صارفین تو اے سی شانگلہ کی خوش اخلاقی کی ویڈیو شیئر کر کے اپنے ضلع کے افسران کے ساتھ تنقیدی موازنہ بھی کر رہے ہیں۔
اسسٹنٹ کمشنر کی مقبولیت کی وجہ؟اسسٹنٹ کمشنر ڈاکٹر محمد حامد صدیق نہ صرف ایک متحرک افسر ہیں بلکہ اپنے دوستانہ برتاؤ کی وجہ سے عام لوگوں کے دل میں جگہ بنا چکے ہیں۔مقامی تاجر نصراللہ یوسفزئی کے مطابق ’اے سی قانون پر سختی سے عمل درآمد کرتے ہیں مگر انہوں نے کبھی کسی غریب کی بے عزتی نہیں کی اور نہ بلاوجہ تنگ کیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ اسسٹنٹ کمشنر ایمانداری کے ساتھ ڈیوٹی نبھا رہے ہیں جس کی وجہ سے سب ان کی عزت و احترام کرتے ہیں۔مقامی دکاندار نے کہا کہ ’اے سی تقریباً ہر دکاندار اور ریڑھی بان کے پاس خود گئے اور انہیں پیار کی زبان میں ناجائز منافع خوری سے روکا جو کہ کافی حد تک سود مند ثابت رہا ہے۔‘’سائلین کے لیے دفتر کھلا رہتا ہے‘الپوری کے مقامی شہری جلال بابا کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر حامد صدیق ضلع کے واحد افسر ہیں جنہوں نے اپنے دفتر کے دروازے ہر وقت سائلین کے لیے کھلے رکھے ہیں، اگر راستے میں جاتے ہوئے کسی بزرگ شہری کو دیکھتے لیں تو گاڑی روک کر ان سے ملتے ہیں۔’اسسٹنٹ کمشنر رمضان کے مہینے میں گران فروش تاجروں کے خلاف سنجیدہ کارروائی کر کے عوام کو ریلیف پہنچا رہے ہیں۔‘
ڈاکٹر حامد صدیق نہ صرف ایک متحرک افسر ہیں بلکہ اپنے دوستانہ برتاؤ کی وجہ سے عام لوگوں کے دل میں جگہ بنا چکے ہیں۔ (فائل فوٹو: توصیف اللہ)
ان کا کہنا ہے کہ اگر ضلع کا اسسٹنٹ کمشنر عوام کے ساتھ نرمی کا برتاؤ رکھے تو سرکار اور عوام کے درمیان فلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں۔
مقامی شہریوں نے مزید بتایا کہ اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں آنے والے بچوں کو اے سی کی کرسی پر بٹھا کر مہمان نوازی کی جاتی ہے۔ڈاکٹر محمد حامد صدیق کون ہیں؟شانگلہ کی تحصیل الپوری کے اسسٹنٹ کمشنر ڈاکٹر محمد حامد صدیق کا تعلق ضلع ایبٹ آباد کے چھوٹے سے گاؤں سے ہے اور انہوں نے آسٹریلیا سے بائیو کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ گذشتہ چار برسوں سے سول سروسز میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔انہوں نے اس سے قبل پشاور، حویلیاں میں ڈیوٹی دی ہے جبکہ گذشتہ دو برسوں سے وہ ضلع شانگلہ میں تعینات ہیں۔’یہ تاثر غلط ہے کہ بیوروکریٹس میں سرخاب کے پر لگے ہوتے ہیں‘ڈاکٹر محمد حامد صدیق نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بیوروکریسی کے برتاؤ کو لے کر عوام میں ایک غصہ پایا جاتا ہے کوشش ہے کہ وہ غصہ پیار میں بدلیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’یہ تاثر غلط ہے کہ بیوروکریٹس میں سرخاب کے پر لگے ہوتے ہیں یا ہم آسمان سے اترے ہوئے ہیں۔‘اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق ضلعی انتظامیہ عوام کی خدمت کے لیے موجود ہوتی ہے اگر عوام ہی نالاں ہو جائے تو پھر سرکار کے امور متاثر ہو جاتے ہیں، جب تک شہری مطمئن نہیں ہو گا وہ سرکار کے ساتھ تعاون کے لیے تیار نہیں ہو گا۔’جو کام خوش اخلاقی سے کر کے کیا حاصل کیا جاتا ہے وہ زور زبردستی سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر حامد صدیق کا تعلق ضلع ایبٹ آباد کے چھوٹے سے گاؤں سے ہے۔ (فائل فوٹو: توصیف اللہ)
اے سی ڈاکٹر محمد حامد نے مزید کہا کہ انہوں نے عوام کو ریلیف دینے کے لیے گران فروشوں کو جرمانہ نہیں کیا بلکہ سیدھا جیل بھیجا کیونکہ اگر وہ جرمانہ کرتے تو وہی دکاندار عوام سے ناجائز منافع کما کر حساب برابر کر لیتے۔
ان کا کہنا تھا کہ رمضان میں ایک جانب عوام کے ریلیف کو ترجیح دے رہے ہیں دوسری جانب کاروباری افراد کی روزی روٹی کو متاثر کرنا نہیں چاہتے۔اسسٹنٹ کمشنر شانگلہ نے بتایا کہ ان کا تعلق بھی ایک متوسط طبقے سے ہے اسی لیے وہ عام آدمی کے احساسات کو سمجھ سکتے ہیں۔خیال رہے کہ کچھ روز قبل ضلع لکی مروت کے ریڑھی بانوں نے اسسٹنٹ کمشنر کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ تاجروں نے الزام لگایا کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے دکانداروں اور ریڑھی بانوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔