مشترکہ بیان کے آخری پیراگراف میں درج الفاظ واشنگٹن کے اس نظریے کی توثیق کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ سلامتی اور خوشحالی یوکرین کے ساتھ زیر التوا معدنیات کے معاہدے کے نتیجے ہی میں حاصل کی جا سکتی ہے نہ کہ یوکرین کی جانب سے امریکہ سے طلب کی جانے ٹھوس گارنٹیوں کے نتیجے میں۔
جدہ میں ہونے والے مذاکرات: تصویر میں امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز، وزیر خارجہ مارکو روبیو، سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان، قومی سلامتی کے مشیر موصاد بن محمد، یوکرین کے وزیر خارجہ ایندری اور وزیر دفاع روستیم امرؤتوف موجود ہیں سعودی عرب کی ثالثی میں امریکہ اور یوکرین کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد یوکرین نے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر روس کے ساتھ 30 دن کی جنگ بندی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔
یاد رہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان عارضی جنگ بندی کی تجویز امریکہ کی طرف سے پیش کی گئی تھی جس کو قبول کرنے پر یوکرین نے اتفاق کر لیا ہے۔
اس پیش رفت کے بعد سعودی عرب میں موجود امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ اب ’گیند اُن (روس) کے کورٹ میں ہے۔‘ (یعنی اب فیصلہ کرنے کا وقت روس کا ہے۔)
یوکرین کے صدر ولادیمر زیلنسکی نے کہا کہ اب یہ امریکہ پر منحصر ہے کہ وہ روس کو جنگ بندی کی اس ’مثبت‘ تجویز پر راضی کرے۔
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ امریکی صدر کے دفتر یعنی ’اوول آفس‘ میں صدر زیلنسکی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان غیر معمولی جھڑپ ہوئی تھی جس کے بعد امریکہ نے یوکرین کو فوری طور پر انٹیلیجنس شیئرنگ اور سکیورٹی امداد کی فراہمی معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اوول آفس میں پیش آئے واقعے کے بعد منگل کو سعودی عرب کے شہر جدہ میں اِن دونوں ممالک کے درمیان پہلی باضابطہ ملاقات ہوئی ہے۔ اس ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں امریکہ نے یہ بھی کہا کہ وہ یوکرین کو فوری طور پر انٹیلیجنس شیئرنگ اور سکیورٹی امداد کی فراہمی شروع کر دے گا جسے چند روز قبل معطل کیا گیا تھا۔
مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’یوکرین اور امریکہ فوری طور پر اپنی اپنی مذاکراتی ٹیموں کو نامزد کریں گے جبکہ پائیدار امن کے قیام کے لیے فوری طور پر بات چیت شروع کرنے پر اتفاق کیا گیا۔‘
امریکہ نے 11 روز قبل یوکرین کی فوجی امداد اور انٹیلیجنس شیئرنگ معطل کر دی تھی جسے جدہ میں ہونے والی ملاقات کے بعد بحال کر دیا گیا ہےبعدازاں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جدہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انھیں امید ہے کہ روس فوری جنگ بندی کی تجویز کو قبول کر لے گا۔
انھوں نے کہا کہ ’یوکرین حملے بند کرنے اور بات چیت شروع کرنے کے لیے تیار ہے‘ تاہم اگر روس نے اس (جنگ بندی کی) پیشکش کو مسترد کر دیا تو ’ہم بدقسمتی سے جان لیں گے کہ امن کی راہ میں رکاوٹ کون ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آج ہم نے ایک پیشکش کی جس کا مقصد فوری جنگ بندی اور مذاکرات کا آغاز ہے، اس پیشکش کو یوکرین نے قبول کیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم اس پیشکش کو اب روسی کے پاس لے جائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ وہ امن کے لیے اس کا مثبت جواب دیں گے۔گیند اب ان کے کورٹ میں ہے۔‘
روس نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ اس سے قبل کریملن نے کہا تھا کہ وہ سعودی عرب میں ہونے والے مذاکرات کے نتائج کے بارے واشنگٹن کی جانب سے ملنے والے بریفنگ کے بعد ایک بیان جاری کریں گے۔
روس نے فروری 2022 میں یوکرین پر بڑے پیمانے پر حملے کا آغاز کیا تھا اور لگ بھگ تین سال کی جنگ کے بعد اب روس یوکرین کے تقریباً 20 فیصد علاقے پر قابض ہے۔
’اب دباؤ روس پر ہو گا‘
’اب ایسا لگتا ہے کہ روس کے ارادوں کو جانچنے کا وقت آ گیا ہے‘حالیہ ہفتوں نے ہم نے اِس بارے میں بہت کچھ سُنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین سے کیا توقعات وابستہ کی ہوئی ہیں اور اِن توقعات کو پورا کرنے اور یوکرین کو اس کے عین مطابق ردعمل دینے کے لیے امریکہ نے کس قسم کے دو ٹوک حربے استعمال کیے ہیں۔
مگر اب ایسا لگتا ہے کہ روس کے ارادوں کو جانچنے کا وقت آ گیا ہے۔
صدر ٹرمپ ولادیمیر پوتن کے ساتھ جس طرح سے معاملات چلا رہے ہیں اس پر اب تک غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں یعنی اس ضمن میں کچھ خاص واضح نہیں ہے۔ جس طرح سے صدر ٹرمپ نے ولادیمیر زیلنسکی پر دباؤ ڈالا، توازن قائم کرنے کے لیے ویسا دباؤ صدر پوتن پر ڈالنے کا کوئی واضح اشارہ موجود نہیں ہے۔
منگل کو سعودی عرب میں مذاکرات کے بعد امریکہ اور یوکرین کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ بیان کا بھی ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ نے اچانک صدر زیلنسکی سے متعلق پالیسی تبدیل کر لی ہے۔ ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان ایک پیچیدہ رشتہ ہے جو گذشتہ کئی برسوں کی باہمی بداعتمادی کا شاخسانہ ہے۔
لیکن 11 دن پہلے اِن رہنماؤں کے درمیان اوول آفس میں جو متنازع تصادم ہوا اور اس کے نتیجے میں غصے اور بداعتمادی کے جو بادل چھائے، وہ مذاکرات کے اِس آغاز کے بعد شاید اب چھٹنا شروع ہو جائیں۔
یوکرین کو امریکی انٹیلیجنس شیئرنگ اور سکیورٹی امداد کی فوری بحالی کے بعد شاید اب یہ روس ہے جو دباؤ محسوس کر رہا ہو گا۔
مگر ابھی بھی چیزیں اپنے ابتدائی مراحل میں ہیں، اور ان کی تفصیلات آئندہ ہونے والے مذاکرات میں طے ہوں گی۔
مشترکہ بیان میں جنگ کے مستقل خاتمے کے حوالے سے ’اہم تفصیلات‘ اور اس قسم کی ضمانتوں کی بات کی گئی ہے جن کی بدولت یوکرین اپنی ’طویل مدتی سلامتی اور خوشحالی‘ کی توقع کر سکتا ہے۔
’زیلنسکی گیند کو روس کے کورٹ میں رکھنے کے لیے جو کچھ کرنا پڑا وہ کریں گے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اِس گیند کا اُن کے کورٹ میں جلد ہی واپس آنے کا امکان بدستور موجود ہے‘لیکن اس مشترکہ بیان کے آخری پیراگراف میں درج الفاظ واشنگٹن کے اس نظریے کی توثیق کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ سلامتی اور خوشحالی یوکرین کے ساتھ زیر التوا معدنیات کے معاہدے کے نتیجے ہی میں حاصل کی جا سکتی ہے نہ کہ یوکرین کی جانب سے امریکہ سے طلب کی جانے ٹھوس گارنٹیوں کے نتیجے میں۔
اس ضمن میں مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ زیلنسکی اور ٹرمپ نے ’جلد از جلد‘ معاہدہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ مگر کس طرح ایک خالص تجارتی بندوبست (معدنیات کا معاہدہ) مستقبل میں روس کے اقدامات کو روک سکتا ہے؟ یہ ایک ایسی بات ہے جس کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔
مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یوکرینی وفد نے ’اس بات کا اعادہ کیا کہ یورپی شراکت دار اس امن عمل میں شامل ہوں گے‘ لیکن اس پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی کہ واشنگٹن اس امن عمل میں یورپ کی شمولیت کے ممکنہ پیرامیٹرز کو کس طرح دیکھتا ہے۔
حالیہ دنوں کی ہنگامہ خیزی کے بعد سعودی عرب میں صدر زیلنسکی اور امریکی وزیر خارجہ کے درمیان ہونے والی یہ ملاقات ’تعلقات کی بحالی‘ کا ایک بروقت عمل محسوس ہو رہی ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ اور یوکرین اس پر پوری طرح متفق ہیں کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔
اگر ماضی میں صدر زیلنسکی کے ذہن میں کوئی شبہات تھے بھی، تو اب وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ وہ ایک ایسے امریکی صدر کے ساتھ معاملہ کر رہے ہیں جن کے لیے ماضی کی وفاداریاں اور روایتی سفارتی رویے اور آداب کوئی خاص معنی نہیں رکھتے ہیں۔
زیلنسکی گیند کو روس کے کورٹ میں رکھنے کے لیے جو کچھ کرنا پڑا وہ کریں گے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اِس گیند کا اُن کے کورٹ میں جلد ہی واپس آنے کا امکان بدستور موجود ہے۔