مصطفیٰ قتل کیس کے بعد ارمغان کی گرفتاری نے ایک بار پھر "ڈبہ کال سینٹرز" کے مکروہ کاروبار کو بے نقاب کر دیا ہے۔ میڈیا پر بار بار اس کا ذکر ہو رہا ہے، مگر عام لوگ اب بھی یہ نہیں جانتے کہ درحقیقت یہ غیر قانونی مراکز کس طرح دھوکہ دہی کا جال بچھاتے ہیں؟ ملک بھر میں سینکڑوں غیر قانونی کال سینٹرز کھلے عام کام کر رہے ہیں اور حیران کن طور پر متعلقہ اداروں کو اس کا علم بھی ہے۔ بعض جگہوں پر تو انہیں سرپرستی بھی حاصل ہے، جیسا کہ ارمغان کے کال سینٹر کو حاصل تھی۔
یہ دھوکے باز دو بڑے طریقوں سے فراڈ کرتے ہیں، جس کا شکار زیادہ تر معصوم امریکی شہری بنتے ہیں۔ ان کا پہلا حربہ کریڈٹ کارڈ فراڈ ہے، جس میں وہ متاثرہ افراد کو لون سیٹلمنٹ کا جھانسہ دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ ڈارک ویب سے شروع ہوتا ہے، جہاں سے امریکی شہریوں کے کریڈٹ کارڈز کی مکمل تفصیلات خریدی جاتی ہیں۔ یہ معلومات 100 سے 1000 ڈالر میں بآسانی دستیاب ہوتی ہیں۔
اس کے بعد فراڈیے متاثرہ شخص کو کسی معروف بینک کا نمائندہ بن کر فون کرتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ اس کے لون کی رقم 20 ہزار ڈالر تک پہنچ چکی ہے اور اگر اس نے فوری طور پر 10 ہزار ڈالر کی ادائیگی نہ کی تو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر شکار کو شک ہو تو جدید سافٹ ویئر کے ذریعے اسی بینک کے آفیشل نمبر سے ایک اور کال دلوائی جاتی ہے تاکہ دھوکہ حقیقی لگے۔ جب متاثرہ شخص گھبرا جاتا ہے تو اسے ایک بار پھر کسی "تھرڈ پارٹی سیٹلمنٹ کمپنی" کے نمائندے کا فون آتا ہے، جو اسے ایک مخصوص اکاؤنٹ میں ادائیگی کرنے پر راضی کر لیتا ہے۔ شکار جیسے ہی کریڈٹ کارڈ سے پیسے بھیجتا ہے، وہ رقم سیدھی فراڈیوں کے اکاؤنٹ میں چلی جاتی ہے اور بینک کو اس کا کوئی علم تک نہیں ہوتا۔
دوسرا بڑا فراڈ غیر قانونی مصنوعات کی فروخت سے جڑا ہے۔ یہ کال سینٹرز امریکی شہریوں کو ایسی مصنوعات فروخت کرتے ہیں جو یا تو قانونی طور پر ممنوع ہوتی ہیں یا کسی مستند کمپنی کے ساتھ کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں رکھتیں۔ اس کام میں نہ صرف پاکستانی بلکہ بھارتی جعلساز بھی ملوث ہیں، جو یورپی اور امریکی مارکیٹس میں دھوکہ دہی سے پیسہ بٹور رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ اداروں کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے، اور کئی جگہوں پر انہیں اعلیٰ سطح کی سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے۔ مصطفیٰ قتل کیس کے بعد ارمغان کی گرفتاری نے بہت سے چہروں سے نقاب ہٹا دیا ہے،