دوران پرواز مسافر کی موت ہو جائے تو جہاز میں لاش کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

طیاروں میں بہت محدود جگہ ہوتی ہے اور دوسرے مسافروں کو پریشان کیے بغیر اور جہاز کی حفاظت سے سمجھوتہ کیے بغیر لاش کو رکھنے کے لیے مناسب جگہ تلاش کرنا ایک چیلنج ہے۔
جہاز
Getty Images
ہوائی جہاز کی راہداریاں تنگ ہوتی ہیں

اگر کسی مسافر کی پرواز میں موت ہو جاتی ہے تو جہاز کے عملے میں شامل افراد کو تیزی سے سوچنا پڑتا ہے۔

جے رابرٹ کہتے ہیں کہ ’ہمارا کام خدمت سے لے کر زندگی بچانے تک، لاشوں سے نمٹنے اور پھر بھیڑ کو کنٹرول کرنے تک ہے۔‘

40 سالہ جے رابرٹکہتے ہیں کہ ’ہمیں حساب لگانا پڑے گا۔ ہمیں اب بھی 300 لوگوں کو ناشتہ یا رات کا کھانا پیش کرنا ہے اور ہمیں اس سے نمٹنا ہوگا۔‘

جے ایک بڑی یورپی ایئرلائن کے کیبن مینجر اور ایمریٹس کے سابق رکن ہیں اور انھیں طیاروں پر کام کرنے کا ایک دہائی سے زیادہ کا تجربہ ہے۔

تمام کیبن کریو کی طرح، انھیں مسافروں کی اموات سے نمٹنے کے لیے تربیت دی گئی ہے لیکن ایسا تجربہ انھیں صرف ایک بار ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ ہوائی جہازوں میں ہونے والی ہلاکتیں ’بہت غیر معمولی‘ ہیں اور طویل عرصے تک غیر متحرک رہنے کی وجہ سے لوگوں کے طویل پروازوں میں مرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ جہاز کے عملے میں شامل کچھ عملے کو اپنے پورے کیریئر کے دوران جہاز میں کسی ہلاکت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

سنہ 2013 میں نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ دوران پرواز مرنا ’نایاب‘ ہے۔

جنوری 2008 سے اکتوبر 2010 کے درمیان پانچ ایئر لائنز کی جانب سے میڈیکل کمیونیکیشن سینٹر کو کی جانے والی ایمرجنسی کالز کا جائزہ لینے والی اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ پرواز کے دوران ایمرجنسی کا سامنا کرنے والے 0.3 فیصد مریضوں کی موت ہو گئی۔

گذشتہ ماہ ایک آسٹریلوی جوڑے نے میلبورن سے دوحہ جانے والے طیارے میں ایک خاتون کی پرواز کے دوران موت کے بعد لاش کے بغل میں بیٹھنے کے اپنے ’تکلیف دہ‘ تجربے کے بارے میں بتایا تھا۔

مچل رنگ اور جینیفر کولن کا کہنا ہے کہ کیبن کریو نے لاش کو کمبل میں ڈھانپ کر پرواز کے بقیہ چار گھنٹوں تک مچل رنگ کے پاس رکھا اور انھیں نشست بدلنے کی پیشکش نہیں کی۔

قطر ایئرویز کا کہنا ہے کہ اس نے مناسب ہدایات پر عمل کیا اور اس واقعے سے پیدا ہونے والی کسی بھی تکلیف یا پریشانی کے لیے معذرت خواہ ہیں۔

بی بی سی نیوز نے کیبن کریو اور ایوی ایشن کے دیگر ماہرین سے بات کی کہ عام طور پر دورانِ پرواز ہونے والی اموات سے کیسے نمٹا جاتا ہے اورطیارے میں لاش کو رکھنے کے بارے میں کیا قوانین ہیں اور جب کسی کی موت ہو جاتی ہے تو پرواز میں کام کرنا کیسا ہوتا ہے۔

پرواز کا عملہ خود موت کی تصدیق نہیں کر سکتا یہ طبی عملے کو کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات یہ ہوائی جہاز پر ہوتا ہے اگر جہاز میں کوئی اہل ہو لیکن زیادہ تر یہ لینڈنگ کے بعد کیا جاتا ہے۔

زیادہ تر ایئر لائنز انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) کی ہدایات پر عمل کرتی ہیں کہ اگر کسی مسافر کو مردہ سمجھا جاتا ہے تو کیا کرنا ہے حالانکہ ایئرلائن کے لحاظ سے پالیسیاں قدرے مختلف ہوتی ہیں۔

جے روبرٹ
Jay Robert
جے کو مسافروں کی اموات سے نمٹنے کے لیے تربیت دی گئی لیکن انھیں اس کا صرف ایک تجربہ ہوا

’بہت ممکن ہے کہ لاش کو خالی سیٹ پر رکھا جائے‘

بکنگھم شائر نیو یونیورسٹی کے سینیئر لیکچرار اور سابق کمرشل پائلٹ مارکو چن کا کہنا ہے کہ طبی ایمرجنسی میں کیبن کریو ابتدائی طبی امداد فراہم کرتا ہے اور کسی بھی ایسے مسافر سے مدد لے سکتا ہے جو طبی پیشہ ور ہو جبکہ کپتان زمین پر ایمرجنسی ڈاکٹروں سے ہدایات حاصل کرنے کے لیے ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم کا استعمال کرتا ہے۔

ضرورت پڑنے پر کپتان جلد از جلد پرواز کا رخ موڑ سکتا ہے۔

آئی اے ٹی اے کی ہدایات کے مطابق اگر کسی مسافر کو مردہ سمجھا جاتا ہے تو اس شخص کی آنکھیں بند کر دی جاتی ہیں اور اگر دستیاب ہو تو اسے باڈی بیگ میں رکھا جاتا ہے یا گردن تک کمبل سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔

طیاروں میں بہت محدود جگہ ہوتی ہے اور دوسرے مسافروں کو پریشان کیے بغیر اور جہاز کی حفاظت سے سمجھوتہ کیے بغیر لاش کو رکھنے کے لیے مناسب جگہ تلاش کرنا ایک چیلنج ہے۔

آئی اے ٹی اے کے مطابق اگر ممکن ہو تو لاش کو دوسرے مسافروں سے دور یا جہاز کے کسی دوسرے حصے میں منتقل کیا جانا چاہیے لیکن اگر طیارے میں جگہ نہیں تو اسے عام طور پر ان کی اپنی نشست پر واپس کر دیا جائے گا۔

ایوی ایشن مینجمنٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ایوان سٹیونسن کا کہنا ہے کہ عام طور پر برطانیہ یا یورپ کے اندر مختصر فاصلے کی پروازوں کے لیے استعمال ہونے والے طیاروں میں اتنی جگہ نہیں ہوتی کہ ’ایسے واقعات سے کسی مسافر کو بچایا جا سکے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ان طیاروں میں جگہ ’بہت محدود‘ ہے۔

اگر اس طرح کے طیارے میں کسی کی موت ہو جاتی ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسے ایک نشست پر بٹھانا ہوگا۔

پروفیسر سٹیونسن تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ’بہت بدقسمتی اور ناخوشگوار‘ ہے لیکن عملے کو طیارے کی حفاظت کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔

جے کا کہنا ہے کہ عملہ لاش کو ایک خالی جگہ پر رکھ کر اور پردے، کمبل اور مدھم روشنیوں کا استعمال کر کے ’لاش کو کچھ شائستگی دینے کی کوشش کرے گا‘ لیکن ان کے پاس زیادہ متبادل نہیں ہو سکتا۔

جہاز
Getty Images

اگر یہ ہنگامی اخراج میں رکاوٹ بنتی ہے تو لاش کو راہداریمیں نہیں رکھا جاسکتا۔

جے کا کہنا ہے کہ ہنگامی انخلا کی صورت میں اسے راہداریمیں نہیں چھوڑا جا سکتا یا طویل فاصلے کی پرواز پر عملے کے آرام کے حصےمیں نہیں رکھا جا سکتا۔

جے کہتے ہیں کہ اتنی محدود جگہ میں جسم کو منتقل کرنا بھی مشکل ہے۔

قطر ایئرویز کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا کہ مسافر کی لاش کو راہداری سے نہیں گزارا جا سکتا تھا۔

ایوی ایشن ماہرین اور کیبن کریو کا کہنا ہے کہ طبی ایمرجنسی کی صورت میں مسافر کی جان بچانے کے لیے طیارے کا رخ موڑا جاتا تھا لیکن عام طور پر اگر مسافر کو مردہ تصور کر لیا جائے تو ایسا نہیں ہوتا

پروفیسر سٹیونسن کا کہنا ہے کہ کپتان جلد از جلد ایئر لائن کے آپریشن سینٹر اور ایئر ٹریفک کنٹرول دونوں کو مسافر کی موت کے بارے میں مطلع کرے گا۔ مقامی حکام طیارے سے رابطہ کریں گے۔ مقامی حکام یا ایئرلائن کا کوئی نمائندہ مسافر کے اہل خانہ سے رابطہ کرے گا اگر مذکورہ مسافر اکیلے پرواز کر رہے ہوں۔

’میں بیت الخلا جا کر روئی‘

ایلی مرفی ریڈ آئی پوڈ کاسٹ کی میزبانی کرتی ہیں جہاں وہ فلائٹ اٹینڈنٹ کا انٹرویو کرتی ہیں، انھیں کیبن کریو کے طور پر کام کرنے کے 14 سال میں پرواز کے دوران ایک مسافر کی موت کا سامنا کرنا پڑا۔

گھانا سے اکیلے لندن جانے والا ایک مرد مسافر اپنی نشست پر بیٹھا چل بسا۔ اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے مسافر کی جانب سے خبردار کیے جانے کے بعد عملے کو احساس ہوا کہ وہ معمول کے مطابق سانس نہیں لے رہا تھا۔

عملے نے سی پی آر کرنے کے لیے اس شخص کو راہداری میں منتقل کردیا۔

ایلی یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’آپ ٹن کے ایک ڈبے میں پھنسے ہوئے ہیں جو چہل قدمی کے لیے ڈیزائن نہیں کیا گیا۔‘

ایلی اور عملے کے ایک اور رکن نے40 منٹ تک سی پی آر کیا لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔

وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد کپتان نے طیارے کو فرانس کے شہر لیون کی طرف موڑنے کا فیصلہ کیا اور اگرچہ ایلی اور ان کے ساتھی جانتے تھے کہ انھیں لینڈنگ کے لیے خود کو باندھنا چاہیے تھا لیکن انھوں نے پورے وقت سی پی آر کرنا جاری رکھا۔

’ہم اسے چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔‘

ایلی
Susan Doupé
ایلی کا کہنا ہے کہ ہوائی جہاز میں مسافر کی موت کا مشاہدہ کرنا ’تکلیف دہ‘ تھا

لینڈنگ کے بعد پیرا میڈکس مسافر کو لے گئے۔ ایلی یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ انھیں مردہ قرار دیا گیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے انھیں ان کی زندگی کے آخری لمحات میں اپنی بانہوں میں تھاما۔ شاید انھوں نے اس کے لیے کسی اور کا انتخاب کیا ہو گا لیکن انھیں میں ملی۔‘

طیارے کے دوبارہ اڑان بھرنے کے بعد مسافر’کافی خاموش اور غمگین‘ تھے لیکن جب وہ اپنی منزل کے ہوائی اڈے پر پہنچے تو ایک مسافر نے ایلی پر چیخنا شروع کر دیا کیونکہ وہ اپنی رابطہ پرواز سے محروم ہو گئے تھے۔

ایک مسافر کو مرتے ہوئے دیکھنا ایلی کے لیے ایک تکلیف دہ تجربہ تھا۔ ’میں گھر گئی اور غسل خانے میں بیٹھ گئی اور رونے لگی۔ اس کے بعد میں تقریباً ایک ہفتے تک اس شخص کی سانس کو محسوں کر سکتی تھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ کچھ وقت کے لیے ایک صدمہ تھا۔ میں طویل عرصے تک سی پی آر ہوتے نہیں دیکھ سکی۔‘

جے کا کہنا ہے کہ مسافر کی موت کے بعد کیبن کریو کو مدد کی پیشکش کی جاتی ہے، جس میں تھراپی اور کچھ دنوں کے لیے ان کے روسٹر کلیئر کرنے کا آپشن بھی شامل ہے تاکہ جو کچھ ہوا، وہ اسے بھلا سکیں۔

ایلی ایک ماہ کے لیے اپنے دوست کے ساتھ اپنی شفٹوں کا شیڈول طے کرنے میں کامیاب ہو گئیں کیونکہ وہ ’تھوڑا صدمہ‘ محسوس کر رہی تھیں۔

جے کا کہنا ہے کہ چونکہ کیبن کریو مسافروں کی ہلاکتوں کے عادی نہیں لہذا یہ خاص طور پر تکلیف دہ تجربہ ہوسکتا ہے جب مسافر جہاز میں ہی مر جاتا ہے۔

'ہم ڈاکٹر نہیں، ہم نرس نہیں، اگرچہ ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے تربیت دی گئی لیکن ہم ہر روز اس کا سامنا نہیں کرتے ہیں، لہذا ہم واقعی اس کے عادی نہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.