جعفر ایکسپریس کا نام سابق وزیراعظم میر ظفراللہ خان جمالی کے چچا جعفر خان جمالی کے نام پر رکھا گیا جو بانی پاکستان محمد علی جناح کے قریبی ساتھی اور تحریک پاکستان کے سرکردہ رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ان کے نام سے بلوچستان کا ضلع جعفر آباد بھی منسوب ہے۔ظفراللہ جمالی نے اپنے چچا کی سیاسی خدمات کے اعتراف میں یہ نام رکھا۔ بلوچستان کی یہ دوسری ٹرین ہے جسے ایک سیاسی شخصیت کے نام پر رکھا گیا۔سنہ 2013 میں وزیراعظم میاں نواز شریف نے بلوچستان کے عوام کو خیرسگالی کا پیغام دینے کے لیے کوئٹہ اور لاہور کے درمیان چلنے والی ٹرین کا نام نواب اکبر بگٹی ایکسپریس رکھا تاہم یہ ٹرین بعد میں بند ہو گئی۔اب جعفر ایکسپریس بلوچستان سے ملک کے دیگر حصوں تک چلنے والی واحد سروس ہے جو روزانہ کی بنیاد پر چلتی ہے ۔ اس ٹرین سروس کا افتتاح 2003 میں اس وقت کے وزیراعظم ظفراللہ جمالی نے کیا تھا۔اس وقت بلوچستان اور پنجاب کے درمیان چلنے والی ٹرینیں غیرمعیاری تھیں جس کے پیش نظر جعفر ایکسپریس کو چینی ساختہ جدید کوچز کے ساتھ چلایا گیا جو اس دور کی معیاری ٹرین سمجھی جاتی تھی۔ریلوے حکام کے مطابق جعفر ایکسپریس میں نو سے 10 بوگیاں شامل ہوتی ہیں جن میں تقریباً 700 مسافروں کی گنجائش ہوتی ہے۔اس ٹرین میں ایئرکنڈیشنڈ سلیپر، اے سی بزنس، اے سی سٹینڈرڈ اور اکانومی کلاس شامل ہیں جس کا کرایہ پانچ ہزار سے لے کر 14 ہزار روپے تک ہوتا ہے۔اس میں ڈائننگ کار کی سہولت بھی دستیاب ہے۔یہ ٹرین روزانہ صبح نو بجے کوئٹہ سے روانہ ہو کر سبی، سکھر، ملتان، لاہور اور راولپنڈی سے گزرتے ہوئے اگلے روز شام ساڑھے چھ بجے پشاور پہنچتی ہے۔
اس خطرناک راستے پر ٹرین کی رفتار 30 سے 40 کلومیٹر فی گھنٹہ تک محدود رکھی جاتی ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
یہ 1600 کلومیٹر سے زائد کا سفر تقریباً 33 گھنٹوں میں طے کرتی ہے۔ اس ٹرین کی زیادہ سے زیادہ رفتار 110 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔
اس سے پہلے جعفر ایکسپریس صرف راولپنڈی تک چلتی تھی۔ سنہ 2017 میں اس کا روٹ راولپنڈی سے بڑھا کر پشاور تک کر دیا گیا۔جعفر ایکسپریس کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی ہے کہ 2004 میں وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہونے کے بعد ظفراللہ جمالی نے پہلی بار اپنے آبائی علاقے کے سفر کے لیے اسی ٹرین کا انتخاب کیا تھا۔جعفرآباد کے صحافی دھنی بخش مگسی کے مطابق سابق وزیراعظم کے لیے خصوصی بوگی مختص کی گئی تاہم ان کے اپنے ضلعے جعفرآباد میں ٹرین کا سٹاپ نہ ہونے کے باعث انہیں جیکب آباد سٹیشن پر اترنا پڑا۔خطرناک اور مشکل ترین ریلوے ٹریکجعفر ایکسپریس کا سفر پاکستان کے سب سے دلچسپ مگر خطرناک اور مشکل ترین ریلوے راستوں میں ہوتا ہے۔یہ سبی اور کوئٹہ کے درمیان 70 کلومیٹر طویل درہ بولان کے مشکل دشوار گزار پہاڑی راستوں سے گزرتی ہے۔ اس دوران سنگلاخ چٹانوں کا سینہ چھیر کر بنائی گئی 17 سرنگوں اور ندی ،دریا اور برساتی نالوں پر بنائے گئے 350 پلوں کو عبور کرتی ہے۔یہاں اس ٹرین پر سفر کرنے والوں کو خوبصورت اور دلکش مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بیچ میں جب درہ بہت تنگ ہوجاتا ہے تو سفر اور بھی مسحور کن ہو جاتا ہے۔ دریائے بولان اور سڑک کے ساتھ ساتھ اطراف بدلتی ہوئی ٹرین سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے نظر آتی ہے۔سطح سمندر سے صرف ساڑھے 400 فٹ بلند سبی کے میدانوں سے جب ٹرین بولان کی طرف جاتی ہے تو بلندی شروع ہو جاتی ہے اور صرف 100 کلومیٹر کے اندر کولپور کے مقام پر تقریباً ساڑھے پانچ فٹ کی بلندی طے کرتی ہے۔چڑھائی اور واپسی میں ڈھلوانی ٹریک پر ٹرین کے بے قابو ہونے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے اور یہاں ماضی میں کئی بار حادثات بھی پیش آ چکے ہیں۔سنہ 2015 میں درہ بولان میں آب گم کے مقام پر تیز رفتاری کی وجہ سے جعفر ایکسپریس کو بریک فیل ہونے سے الٹ گئی تو 20 سے زائد افراد ہلاک اور بڑی تعداد میں زخمی ہوئے۔
چڑھائی اور واپسی میں ڈھلوانی ٹریک پر ٹرین کے بے قابو ہونے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے (فائل فوٹو: پاکستان ریلوے)
اس خطرناک راستے پر ٹرین کی رفتار 30 سے 40 کلومیٹر فی گھنٹہ تک محدود رکھی جاتی ہے تاکہ کسی بھی حادثے سے بچا جا سکے۔
یہاں کئی مقامات پر اضافی لائنیں بھی بچھائی گئی ہیں جنہیں ’جہنم لائن‘ کہا جاتا ہے جس پر بے قابو ہونے کی صورت میں ٹرین چلائی جاتی ہے۔ چند دہائی قبل ایک بار ٹرین اس اضافی لائن سے بھی گزر کر نیچے گر گئی تھی، اس لیے اب اسے جہنم لائن بھی کہا جاتا ہے۔اس مشکل راستے پر یہ ریلوے لائن برطانوی راج کے دوران فوجی و تجارتی مقاصد کے لیے سمہ 1880 کی دہائی میں بچھائی گئی تھی اور آج بھی اس لائن کو انجینیئرنگ کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔یہ ٹرین زیادہ تر پنجاب سے تعلق رکھنے والے وہ افراد استعمال کرتے ہیںجعفر ایکسپریس نہ صرف بلوچستان، پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہے بلکہ گلگت اور کشمیر کے مسافر بھی اسے بلوچستان آنے جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بلوچستان میں یہ ٹرین زیادہ تر پنجاب سے تعلق رکھنے والے وہ افراد استعمال کرتے ہیں جو رشتہ داروں سے ملنے، کاروبار یا روزگار کے لیے یہاں آتے ہیں۔جعفر ایکسپریس ملتان، لاہور ، راولپنڈی اور پشاور جانے کے لیے لمبے روٹ سے گزر کر جاتی ہے، اس کے مقابلے میں سڑک کا فاصلہ کم اور سفر تیز رفتار ہوتا ہے، اس لیے مقامی افراد سڑک کے سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔اگرچہ جعفرا یکسپریس کا سفر دیگر ذرائع نقل و حمل کے مقابلے میں لمبا ہے لیکن یہ سستی اور نسبتاً محفوظ سروس سمجھی جاتی تھی، خاص طور پر حالیہ دنوں میں جب قومی شاہراہوں پر بے امنی، احتجاج اور عسکریت پسندوں کی جانب سے مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کرنے کے واقعات ہو چکے تھے۔تاہم بولان میں ہونے والے حالیہ حملے اور اس میں درجنوں افراد کی ہلاکت نے سفر کے اس ذریعے کو بھی خوف کی علامت بنا دیا ہے۔
جعفر ایکسپریس پر حملے کا یہ پہلا موقع نہیں، ماضی میں بھی اسے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
جعفر ایکسپریس پاکستان کی تاریخ کی پہلی ٹرین ہے جسے ہائی جیک کیا گیا۔
جعفر ایکسپریس پر حملے کا یہ پہلا موقع نہیں۔ نومبر 2024 میں کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر دھماکے میں جعفر ایکسپریس کے 26 مسافر ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ 2014 میں سبی سٹیشن پر کھڑی جعفر ایکسپریس پر حملے میں 17 افراد ہلاک ہوئے تھے۔جعفر ایکسپریس پر تازہ حملہ درہ بولان میں جس پنیر سٹیشن کے قریب کیا گیا، یہاں چند سال پہلے بھی جعفر ایکسپریس کو راکٹوں سے نشانہ بنایا گیا جس میں ایک خاتون سمیت پانچ مسافر ہلاک ہوئے تھے۔بلوچستان میں دو دہائیوں سے جاری شورش کے دوران سب سے زیادہ جس مسافر ٹرین پر حملے ہوئے ہیں، وہ جعفرایکسپریس ہے۔ بظاہر اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ اس میں زیادہ تر پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد یا چھٹیوں پر گھر جانے والے سکیورٹی فورسز کے اہلکار سفر کرتے ہیں جو بلوچ عسکریت پسندوں کے نشانے پر رہتے ہیں۔جعفرایکسپریس کا سفر مسافروں کے لیے کسی مہم جوئی سے کم نہیں ہوتامحکمہ داخلہ بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2005 سے سنہ 2015 کے دوران ٹرینوں ، پٹریوں اور ریلوے تنصیبات پر 173 حملے ہوئے جن میں سے بیش تر میں جعفر ایکسپریس کو نشانہ بنایا گیا اور زیادہ تر حملے درہ بولان میں کیے گئے۔
جعفر ایکسپریس بلوچستان اور دوسرے صوبوں کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے ایک اہم ذریعہ سمجھی جاتی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
درہ بولان ہمیشہ سے باغیوں کی پسندیدہ جگہ رہی ہے۔ یہاں کا موسم، پانی کی دستیابی اور کئی اضلاع تک پھیلے پہاڑی سلسلے اور مشکل راستے انہیں محفوظ ٹھکانے فراہم کرتے ہیں جبکہ فورسز کے لیے جوابی کارروائی مشکل ہو جاتی ہے۔
ان حملوں کے پیش نظر جعفر ایکسپریس سمیت کوئٹہ آنے جانے والی ٹرینوں کو بلوچستان کی حدود خاص کر درہ بولان میں رات کے سفر کی اجازت نہیں دی جاتی اور شام کے بعد داخل ہونے والی ٹرینوں کو جیکب آباد یا سبی ریلوے سٹیشنز پر روک دیا جاتا ہے۔یہاں سے گزرنے والی ٹرینوں کی سکیورٹی کے لیے خاص اقدامات کیے جاتے ہیں۔ ٹرین کے اندر ریلوے پولیس کے ساتھ ایف سی اہلکار جبکہ باہر ٹریک اور پہاڑیوں پر لیویز اور ایف سی کی چوکیاں قائم کی گئی ہیں اور اہلکار مسلسل ٹریک پر گشت بھی کرتے ہیں۔اس طرح جعفرایکسپریس کا سفر مسافروں کے لیے کسی مہم جوئی سے کم نہیں ہوتا۔تمام مشکلات اور خطرات کے باوجود جعفر ایکسپریس آج بھی بلوچستان اور دوسرے صوبوں کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے ایک اہم ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔