افطار دسترخوان پر جلیبیاں، امرتی، سویّاں اور میٹھے مشروبات: رمضان میں میٹھے سے ہاتھ کیوں نہیں رکتا

’مسئلہ ہمارے کھانے کے انداز میں ہے۔ مثال کے طور پر جب کوئی روزہ دار افطار کے آغاز میں زیادہکھجور کھاتا ہے جس میں شکر ہوتی ہے تو یہ خون میں انسولین کی سطح کو بڑھاتا ہے۔ جس سے مجموعی طور پر کھانے کی طلب میں اضافہ ہوتا ہےخاص طور پر میٹھے کی خواہش بڑھ جاتی ہے۔‘
میٹھے کی خاص ڈش
Getty Images

جلیبیاں، امرتی، کسٹرڈ، ٹرائفل، سوئیاں، کریم سے بھری فروٹ چاٹ اور رنگ بہ رنگے میٹھے مشروبات۔۔۔ رمضان میں سحر و افطار کے وقت میٹھے کی مختلف ڈشیں روایتی دسترخوان کا لازمی حصہ سمجھی جاتی ہیں جن کو دیکھ کر میٹھے سے پرہیز کرنے والے بھی ہاتھ روک نہیں پاتے۔

تو کیا آپ بھی رمضان میں زیادہ میٹھا کھاتے ہیں اور کیا افطار کے وقت آپ کو میٹھے کی طلب میں اضافہ محسوس ہوتا ہے؟

یہ اور اس جیسے کئی سوالات شاید آپ کے ذہن میں بھی آتے ہوں۔ جن کے جواب کے لیے بی بی سی نے ماہر غذائیت ریم عبدللہ سے رابطہ کیا۔

ریم عبدللہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ بہت سے روزہ داروں کی رمضان کے دوران میٹھے کی طلب بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ صرف جسم کی ضرورت نہیں بلکہ ہمارے کھانے پینے کے معمولات بھی ہیں۔

رِیم عبداللہ کے مطابق ’مسئلہ ہمارے کھانے کے انداز میں ہے۔ مثال کے طور پر جب کوئی روزہ دار افطار کے آغاز میں زیادہ کھجور کھاتا ہے جس میں شکر ہوتی ہے تو یہ خون میں انسولین کی سطح کو بڑھاتا ہے۔ جس سے مجموعی طور پر کھانے کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے خاص طور پر میٹھے کی خواہش بڑھ جاتی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’زیادہ تر روزہ دار جو غلطی کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ افطار کا آغاز تین سے پانچ کھجوریں کھا کر کرتے ہیں، پھر جوس پیتے ہیں، خاص طور پر وہ تیار شدہ رمضان سپیشل جوس جن میں چینی کی بڑی مقدار شامل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے لبلبہ مسلسل انسولین خارج کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ سحری کا وقت آ جاتا ہے۔ اور زیادہ جوس پینے سے وزن بڑھنے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔‘

ماہرِ غذائیت نے رمضان میں بعض لوگوں کے زیادہ میٹھا کھانے کی عادت کو روزے کے دوران ان کے جسم میں شوگر کی سطح کم ہونے کا ردِ عمل بھی قرار دیا جس کی وجہ سے انھیں میٹھے کی زیادہ طلب محسوس ہوتی ہے۔

 مشرقی میٹھے کی ایک قسم ہے
Getty Images

جسم بھوک اور پیاس میں فرق نہیں کرتا

ماہر غذائیت رِیم عبداللہ کا کہنا ہے کہ افطار کے وقت روزے دار کے لیے بہتر ہے کہ وہ صرف ایک کھجور سے روزہ کھولے اور اس کے ساتھ پروٹین پر مشتمل کھانے کا استعمال کرے جیسے کہ مرغی، مچھلی، گوشت، یا کم از کم ایک گلاس دودھ۔

ان کے مطابق سادہ شکر کو پروٹین کے ساتھ شامل کرنے سے خون میں انسولین کی سطح میں اضافہ نہیں ہوتا اور پیٹ بھرنے کا احساس بھی زیادہ دیر تک برقرار رہتا ہے جس کے نتیجے میں روزہ دار کی میٹھے کی خواہش میں کمی آتی ہے۔‘

تاہم ریم کہتی ہیں کہ بہت سے لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں کہ ’جسم درحقیقت بھوک اور پیاس میں فرق محسوس نہیں کرتا۔ اکثر اوقات جسم کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے کچھ میٹھا کھانے کی طلب ہو رہی ہے۔ اسی لیے ہمیشہ افطار کے دوران مناسب مقدار میں پانی پینے کا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ میٹھے کی خواہش کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔‘

ماہرین غذائیت ریم کہتی ہیں کہ مناسب مقدار میں پانی پینے سے جسم میں نمی برقرار رہتی ہے اور پانی کی کمی (ڈی ہائیڈریشن) نہیں ہو پاتی۔

مٹھائی کی دکان
EPA

رمضان میں مٹھائیوں کی دکانوں پر رش

رمضان کے دوران مٹھائی کی دکانوں پر خریداروں کا ہجوم دکھائی دیتا ہے جو مختلف اقسام کی مٹھائیاں خریدنے آتے ہیں۔

یہ مٹھائیاں خاص طور پر روزے داروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مزیدار انداز میں تیار کی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے رشتہ داروں یا دوستوں کے لیے بھی مٹھائیاں خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ افطار کے موقع پر ان کے ساتھ شیئر کر سکیں۔

مٹھائی کی ایک دکان کے مالک عدلی شبسوغ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’رمضان کے دوران مٹھائی کی مانگ دیگر دنوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر بڑھ جاتی ہے۔ روزے دار روایتی مشرقی مٹھائیوں جیسے کہ اخروٹ، پنیر، یا کریم سے بھرے قطایف، حریسہ اور دیگر اقسام کی مٹھائیوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں، جو رمضان کے دوران گھروں کے دسترخوان کی زینت بنتی ہیں۔‘

عدلی شبسوغ کا کہنا ہے کہ ان کی دکان رمضان کے دوران ان مخصوص قسم کی مٹھائیوں کو زیادہ تعداد میں بناتی ہیں کیونکہ ان کی مانگ عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مختلف اقسام کے کیک، ایکلیئر، چیز کیک، براؤنیز وغیرہ کی طلب نسبتاً کم ہوتی ہے۔

شبسوغ مزید بتاتے ہیں کہ ان کی دکان سے حریدار مختلف اقسام کے جوس بھی خریدتے ہیں جن کی طلب رمضان میں زیادہ رہتی ہے۔

ماہر غذائیت رِیم پھلوں کے قدرتی جوس اور ایسے مشروبات کے استعمال کی اہمیت پر زور دیتی ہیں جو مصنوعی مٹھاس سے پاک ہوں کیونکہ کمرشل جوسز میں چینی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے اور وزن بڑھنے کا سبب بھی ہوتی ہے۔

میٹھا
Getty Images

لوگ میٹھا اتنا کیوں پسند کرتے ہیں؟

سائنسی جریدے سیل میٹابولزم میں ڈنمارک کی یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کے محققین کی ایک سائنسی تحقیق شائع ہوئی ہے جس نے میٹھا کھانے کی خواہش اور جگر کی صحت کے درمیان تعلق کو ظاہر کیا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ’جب کوئی شخص میٹھا کھاتا ہے، تو جگر ایک مخصوص ہارمون (FGF21) خارج کرتا ہے جو مسلسل میٹھا اور شکر کھانے کی طلب کا سبب بن سکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق اس ہارمون کے اخراج کی شرح ہر شخص میں مختلف ہوتی ہے اور یہاں تک کہ طبی طریقوں سے بھی اسے مکمل طور پر قابو میں رکھنا مشکل ہے۔‘

مطالعے میں یہ بھی سامنے آیا کہ جن افراد کے جگر میں اس مخصوص ہارمون کا اخراج زیادہ ہوتا ہے، انھیں مسلسل میٹھا کھانے کی طلب عام لوگوں کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ ہوتی ہے۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ غذا پہلے معدے اور آنتوں سے گزرتی ہے اور اس کے بعد جگر کھانے کو پراسیس کرنا شروع کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کھانے کے بعد ہمیں کبھی محسوس ہوتا ہے کہ پیٹ بھر چکا ہے جبکہ بعض اوقات مزید کھانے کی ہماری خواہش برقرار رہتی ہے۔

مٹھائیاں
Getty Images

رمضان کی لذیذ مٹھائیوں پر دل للچانا

بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آ سکتا ہے کہ رمضان کے دوران زیادہ میٹھا کھانے کی خواہش کا کوئی نفسیاتی پہلو بھی ہے یا نہیں؟

اس سوال کے جواب میں ماہر نفسیات راشا بوانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’رمضان کی مزیدار اور رنگ برنگی مٹھائیاں روزہ داروں کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی ہیں کیونکہ روزے کے دوران خون میں شوگر لیول کم ہونے کے بعد روزہ دار کو میٹھا کھانے کی شدید طلب محسوس ہوتی ہے۔‘

ان کے مطابق ’کیونکہ میٹھا فوری توانائی بحال کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم افطار کے آغاز میں کھجور کھانے کی روایت پر عمل کرتے ہیں۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’لیکن یہ واحد وجہ نہیں ہے۔ یہ خواہش نفسیاتی عوامل سے بھی جڑی ہو سکتی ہے کیونکہ میٹھا کھانے کا تعلق ہماری خوشی اور مسرت کے احساسات سے ہوتا ہے۔ مٹھائیاں کھانے سے جسم میں سیروٹونن ہارمون خارج ہوتا ہے جو اطمینان، خوشی اور سکون کا باعث بنتا ہے۔‘

’ہمارے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہماری خوراک اور ہمارے موڈ کے درمیان کیا تعلق ہے کیونکہ یہ ہمیں متوازن اور صحت مند خوراک برقرار رکھنے میں مدد دے سکتا ہے۔‘

راشا بوانہ کی رائے کے مطابق اگر کسی شخص کی میٹھے کی خواہش پر قابو پانے کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں، تو اسے کسی ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے، کیونکہ مسلسل میٹھا کھانے کی طلب کسی صحت کے مسئلے کی علامت ہو سکتی ہے۔

بوانہ مزید کہتی ہیں کہ ’ہمیں یہاں اپنی عوامی روایات اور ثقافتی ورثے کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے ذہن رمضان کے مقدس مہینے میں افطار کے بعد میٹھے کو خوشی اور جشن سے جوڑنے کے عادی ہو چکے ہیں۔‘

مٹھائیاں
Getty Images

رمضان المبارک میں مٹھائی کی خواہش پر قابو کیسے پائیں

زیادہ تر ماہرین غذائیت متّفق ہیں کہ رمضان کے دوران جسم میں شوگر کی طلب کو قابو میں رکھنے کا آغاز افطار سے ہوتا ہے اور یہ سحری تک جاری رہتا ہے۔

ماہر غذائیت رِیم عبداللہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کئی ایسے نکات بتائے جو میٹھے کی طلب پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں جس کے مطابق

  • میٹھا کھانے کے لیے مخصوص وقت مقرر کریں۔
  • روزہ داروں کو چاہیے کہ وہ افطار کے فوراً بعد میٹھا نہ کھائیں کیونکہ بھوک کی شدت کی وجہ سے زیادہ کھانے کا خطرہ ہوتا ہے۔
  • افطار کے فوراً بعد میٹھا کھانے سے بدہضمی بھی ہو سکتی ہے۔
  • میٹھے کا سب سے مناسب وقت افطار کے دو سے تین گھنٹے بعد ہے اور وہ بھی محدود مقدار میں۔
  • جو مٹھائی آپ کھا رہےہیں اس کی مقدار پر دھیان دیں یعنی میٹھا اعتدال میں کھائیں، ضرورت سے زیادہ نہیں۔
  • کوشش کریں کہ روزانہ میٹھی ڈش نہ کھائیں بلکہ وقفے وقفے سے کھائیں۔
  • میٹھا اکیلے نہ کھائیںبلکہ اس کے ساتھ کوئی کڑوا مشروب جیسے کہ عربی یا ترک کافی پینا بہتر ہوتا ہے، کیونکہ اس سے زیادہ میٹھا کھانے کی طلب کم ہو جاتی ہے۔
  • میٹھے کے بعد صحت مند چیزوں کا استعمال کریں۔
  • میٹھا کھانے کے بعد پانی، دودھ، دہی، یا کچھ صحت مند خشک میوہ جات کھائیں تاکہ خون میں انسولین کی سطح برقرار رہے اور شوگر لیول اچانک نہ بڑھے۔
  • بازار کے بجائے گھر میں خود میٹھا تیار کریں، ماہرین کے مطابق گھر میں میٹھا بنانے سے آپ اجزا پر کنٹرول رکھ سکتے ہیں اور کیلوریز کو کم سے کم رکھ کر زیادہ صحت مند بنا سکتے ہیں۔

یہ نکات اپنانے سے رمضان میں میٹھے کی غیر ضروری طلب پر قابو پایا جا سکتا ہے اور صحت مند طرزِ زندگی کو برقرار رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

مٹھائی کی دکان
EPA

ہم نے کئی لوگوں سے سوال کیا کہ آپ رمضان میں دوسرے دنوں کی نسبت زیادہ مٹھائیاں کھاتے ہیں اور کیوں؟ تو ہمیں اس کے جواب مختلف ملے۔

اکرم نامی ایک شخص نے ہمیں بتایا کہ ’ہاں، رمضان میں ہماری بھوک دو وجوہات کی بنا پر بڑھتی ہے، پہلی نامیاتی ہے جو جسم میں شوگر کی کمی کو پورا کرتی ہے اور دوسری نفسیاتی جو خواہش ہے، اور یہ خواہش روزے کے دوران اس سے محروم رہنے کا نتیجہ ہے۔‘

بدیع نامی شخص نے کہا کہ ’ہاں، ہماری میٹھے کی طلب بڑھتی ہے اور اس کی وجہ نفسیاتی ہے جیسا کہ میں سمجھتا ہوں، کیونکہ ہم بچپن سے ہی رمضان کے ساتھ مٹھائیوں اور شربتوں کے عادی ہیں۔

جب کہ احمد نامی شخص نے بتایا کہ ’سچ میں مجھے کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا شاید اس لیے کہ مجھے عام طور پر مٹھائیاں پسند نہیں ہیں اور میرا ان کا استعمال بہت اعتدال پسند یا بہت کم ہے۔‘

لیتھ نے بھی اسی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ رمصان میں میری میٹھے کی طلب تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ روزہ دار زیادہ مقدار میں کھانا نہیں کھا سکتا، اور یہ اصول مٹھائیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔‘

لہذا رمضان میٹھے کی طلب بڑھاتا ہے یا نہیں، اس بارے میں مختلف آرا کے باوجود رمضان کی مٹھائیاں ہماری روایات کا ایک اہم حصہ بنی ہوئی ہیں جنھیں دنیا بھر کے مسلمان اپنی میزوں پر پیش کرنے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ بانٹنے کے خواہشمند ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.