پیرو کے ایک ماہی گیر کو، جو بحر الکاہل کے گہرے سمندر میں گم ہو گئے تھے، 95 دن بعد بچایا گیا تو انھوں نے بتایا کہ اس عرصے میں کیسے انھوں نے خود کو زندہ رکھا
پیرو کے ایک ماہی گیر کو، جو بحر الکاہل کے گہرے سمندر میں گم ہو گئے تھے، 95 دن بعد بچایا گیا تو انھوں نے انکشاف کیا کہ اس عرصے میں انھوں نے کچھوے، پرندے اور کاکروچ کھا کر خود کو زندہ رکھا۔
61سالہ میکسیمو ناپا کاسترو سات دسمبر کو پیرو کے جنوبی ساحل پر واقع ساحلی قصبے مارکونا سے دو ہفتے کے لیے روانہ ہوئے تھے۔
تاہم دس دن بعد ایک طوفان نے ان کی کشتی کو راستے سے بھٹکا دیا تو ان کے اہلخانہ نے ان کی تلاش شروع کی۔ پیرو کے سمندری دستے بھی انھیں تلاش کرنے میں ناکام رہے۔
بدھ کے روز ایکواڈور کے ایک بحری جہاز نے انھیں ساحل سے 1,094 کلومیٹر دور تشویشناک حالت میں پایا۔ وہپانی کی کمی کا شکار ہو چکے تھے۔
میکسیمو پینے کے لیے اپنی کشتی میں بارش کا پانی جمع کرتے اور سمندر سے جو کچھ بھی مل سکتا تھا اسے کھا کر زندہ رہے۔
جمعے کے دن اپنے بھائی کے ساتھ ایک جذباتی ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ کس طرح انھوں نے سمندری کچھوؤں کا سہارا لینے سے پہلے کاکروچ اور پرندے بھی کھائے تھے۔ ان کے آخری 15 دن بغیر کھانے کے گزرے۔
کاسترو نے کہا کہ ’میں ہر روز اپنی ماں کے بارے میں سوچتا تھا۔ میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے دوسرا موقع دیا۔‘
ان کی والدہ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ بیٹے کی گمشدگی کے بعد ان کے رشتہ دار پرامید تھے لیکن انھوں نے امید کھونا شروع کر دی تھی۔
کاسترو کو طبی معائنے کے بعد پیرو کے دارالحکومت لیما لے جایا گیا جہاں ہوائی اڈے پر ان کی ملاقات ان کی بیٹی سے ہوئی۔
آئیکا کے علاقے میں ان کے آبائی ضلع سان اینڈریس میں پڑوسیوں اور رشتہ داروں نے پیرو کی میڈیا ایجنسی آر پی پی کو بتایا کہ انھوں نے جشن منانے کے لیے سڑکوں کو سجایا۔
ان کی بھتیجی لیلا ٹورس ناپا نے بتایا کہ ان کے اہل خانہ نے ان کی سالگرہ منانے کا منصوبہ بنایا تھا جو اس وقت گزر گئی جب وہ سمندر میں گم ہو گئے تھے۔
انھوں نے ایجنسی کو بتایا کہ ’ان کا جنم دن منفرد تھا کیونکہ وہ (سمندر میں) اس وقت صرف ایک چھوٹا سا بسکٹ کھا پائے لہذا یہ ہمارے لیے بہت اہم ہے کہ ہم جشن منائیں کیونکہ ہمارے لیے وہ دوبارہ پیدا ہوئے ہیں۔‘
گذشتہ برس روسکے شہری میخائل پیچوگن کو روس کے مشرق میں بحیرہ اوختسک میں ایک چھوٹی کشتی میں دو ماہ سے زیادہ وقت گزارنے کے بعد بچا لیا گیا تھا۔
اسی طرح سلواڈور کے ایک ماہی گیر کو بحر الکاہل میں 14 ماہ تک غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سنہ 2012کے اواخر میں میکسیکو کے ساحل سے روانہ ہونے کے بعد وہ بالآخر 2014 کے اوائل میں مارشل جزائر میں پائے گئے اور وہ بھی بارش کے پانی اور کچھوؤں پر بھی زندہ رہے۔