اسحاق ڈار کے مطابق یہ معاہدہ متحدہ عرب امارات کے صدر کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران طے پایا۔ اس کے تحت متحدہ عرب امارات کے پاکستان میں رکھوائے گئے ایک ارب ڈالر کے ڈیپازٹ کو فوجی فاؤنڈیشن سے منسلک کمپنیوں کے شیئرز میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ سرمایہ کاری کا یہ معاہدہ کیا ہے اور آخر اس سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟

پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات سٹیٹ بینک میں رکھوائے گئے تین ارب ڈالرز میں سے ایک ارب ڈالرز کے شیئرز خریدے گا، جس کے بعد یہ رقم پاکستان کے ذمے واجب الادا نہیں رہے گی۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے مطابق اس سرمایہ کاری منصوبے کے تحت متحدہ عرب امارات کو فوجی فاؤنڈیشن کی کمپنیوں کے ایک ارب ڈالرز مالیت کے شیئرز فروخت کیے جائیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کی بدولت پھر تین ارب ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کی ذمے داری پاکستان سے ختم ہو جائے گی۔
واضح رہے کہ پاکستان میں فوجی فاؤنڈیشن ایک ٹرسٹ ہے جس کے تحت مختلف شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیاں شامل ہیں۔ فوجی فاؤنڈیشن کی انتظامیہ فوج کے ریٹائرڈ افراد پر مشتمل ہے اور اس کا شمار ملک کے بڑے کاروباری گروپوں میں ہوتا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ کی جانب سے اس اعلان پر سوشل میڈیا پر بھی بحث ہو رہی ہے اور صارفین مختلف سوالات اُٹھا رہے ہیں۔
بعض صارفین کا یہ بھی اعتراض ہے کہ فوجی فاؤنڈیشن حکومتی ادارہ نہیں تو پھر وزیر خارجہ اس معاہدے کی بات کس حیثیت میں کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر آنے والے ردِعمل سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ یہ معاہدہ کیا ہے اور اس سے پاکستان کو کتنا فائدہ ہو گا۔
متحدہ عرب امارات کے ساتھ اس سرمایہ کاری منصوبے میں کیا ہے؟
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ فوجی فاؤنڈیشن اگرچہ فوج کے ریٹائرڈ ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے قائم کیا جانے والا ادارہ ہے اور اس کی انتظامیہ بھی ریٹائرڈ ملازمین پر مشتمل ہے تاہم اس کے تحت کام کرنے والے ادارے کمرشل بنیادوں پر کام کرتے ہیں جو معیشت کے مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔
اسحاق ڈار کے مطابق یہ معاہدہ متحدہ عرب امارات کے صدر کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران طے پایا۔ اس کے تحت متحدہ عرب امارات کے پاکستان میں رکھوائے گئے ایک ارب ڈالر کے ڈیپازٹ کو فوجی فاؤنڈیشن سے منسلک کمپنیوں کے شیئرز میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ اس معاہدے کے بعد یہ رقم پاکستان کے قرضوں کی کتاب سے خارج ہو جائے گی۔
اس معاہدے کے بارے میں ماہر معیشت علی خضر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ دراصل ایک ’اکاؤنٹنگ ٹریٹمنٹ‘ ہو گی یعنی کھاتے میں ایک ارب ڈالرز امارات کو واپس کیے جائیں گے اور یہ رقم فوجی فاؤنڈیشن کی کمپنیوں کے حصص کی خریداری کی صورت میں سرمایہ کاری میں ظاہر ہو گی۔
علی خضر کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان فوجی فاؤنڈیشن کو ایک ارب ڈالر کے بدلے روپوں میں ادائیگی کرے گی اس طرح اس کے ذمے ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کی ذمہ داری ختم ہو گی۔
اُنھوں نے کہا کہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ ماڑی انرجیز اور فوجی فرٹیلائزر جیسی کمپنیوں کے حصص یو اے ای کو فروخت ہوں گے کیونکہ فوجی فاونڈیشن کے پورٹ فولیو میں یہ بڑی کمپنیاں ہیں۔
مالیاتی امور کے ماہر شہریار بٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ فوجی فاؤنڈیشن کو ایک ارب ڈالر کے بدلے روپوں میں ادائیگی ہو گی کیونکہ ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی اور پاکستان کے ذمے ایک ارب ڈالر کی واپسی ختم ہو جائے گی۔
متحدہ عرب امارات کی فوجی فاؤنڈیشن میں سرمایہ کاری کی وجہ کیا؟
اس معاملے پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تبصرے بھی کیے جا رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے ایکس پر لکھا کہ عرب امارات کو ایک ارب ڈالر کے ڈیپازٹ کے بدلے حکومت فوجی فاونڈیشن کے حصص دے گی۔ سوال یہ ہے کہ فوجی فاؤنڈیشن تو حکومت پاکستان کی ملکیت نہیں۔ تو اس کے بدلے حکومت فوجی فاؤنڈیشن کو کیا دے گی؟
صحافی فرحان ملک نے سوال اُٹھایا کہ تو کیا نئی سرمایہ کاری کے بجائے امارات اب کیش ڈیپازٹ سے ایک ارب ڈالرز نکالے گا اور اسے فوجی گروپ میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرے گا؟
کچھ صارفین اس معاملے کو سمجھنے کے لیے مزید سوالات بھی پوچھتے نظر آ رہے ہیں جن میں سے سرفہرست تو یہی ہے کہ حکومت کیسے اس کمپنی کو اپنی یعنی سرکاری کمپنی کے طور پر ترجیح دے رہی ہے۔
ماہر معیشت ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حکومت پاکستان نے متحدہ عرب امارات کو پیشکش کی ہو کہ وہ فوجی فاؤنڈیشن میں ہی سرمایہ کاری کرے۔
’مثال کے طور پر اگر آپ نے کوئی پلاٹ یا گاڑی خریدنی ہے تو آپ کو مارکیٹ میں جو چیز زیادہ منافع بخش نظر آئے گی تو آپ وہاں پر سرمایہ کاری کر دیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’متحدہ عرب امارات فوجی فاؤنڈیشن میں اپنا ایک ارب ڈالر ایکویٹی کے طور پر ڈالنا چاہ رہا ہے اور ایسا نہیں کہ حکومت پاکستان نے انھیں ایسا کہا ہو کہ آپ یہاں ہی انویسٹ کریں۔‘
عابد قیوم سلہری کہتے ہیں کہ ’یقیناً حکومت نے انھیں تمام آپشنز بتائیں ہوں گے جیسے زراعت، مائننگ، توانائی کے شعبے سمیت وہ تمام سیکٹرز جن میں حکومت سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ تو ظاہر ہے کہ یو اے ای اگر فوجی فاؤنڈیشن میں دلچسپی رکھتا ہے تو انھوں نے وہاں سرمایہ کاری کر دی۔‘

فوجی فاؤنڈیشن گروپ کن شعبوں میں کام کرتا ہے؟
فوجی فاؤنڈیشن پاکستان کے کاروباری گروپوں میں سب سے بڑا کاروباری گروپ ہے۔ اس سال اگست میں جاری کیے جانے والے اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ (ای پی بی ڈی) نامی ایک تھنک ٹینک کے پہلے ویلتھ پرسیپشن انڈیکس 2025 کے مطابق فوجی فاؤنڈیشن 5.90 ارب ڈالر کے ساتھ ملک کا سب سے بڑا کاروباری گروپ ہے۔
فوجی فاؤنڈیشن کا کاروباری پورٹ فولیو کئی بڑی کمپنیوں پر مشتمل ہے جن میں تیل و گیس کی تلاش اور مائننگ کے شعبے میں ماڑی انرجیز، کھاد بنانے میں ملک کی سب سے بڑی کمپنی فوجی فرٹیلائزر، فوجی سیمنٹ اور عسکری بینک شامل ہیں۔
فاؤنڈیشن کے تحت 30 سے زائد صنعتی یونٹس کام کر رہے ہیں جبکہ یہ ادارہ خوراک، بجلی کی پیداوار، ایل پی جی کی مارکیٹنگ و تقسیم اور سکیورٹی سروسز کے شعبوں میں بھی فعال ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ دنوں عارف حبیب گروپ کنسورشیم نے پاکستان کی قومی ایئر لائن، پی آئی اے کی نجکاری کے لیے منعقد ہونے والی بولی میں 135 ارب کی پیشکش کر کے اسے خرید لیا تھا۔
فوجی فرٹیلائزر جو پی آئی اے کی بولی کے لیے اہل قرار دیے جانے والے چار گروپوں میں شامل تھا، اس نے بولی سے ایک دن پہلے اس میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا تاہم عارف حبیب کنسورشیم کی جانب سے بولی جیتنے کے بعد فوجی فرٹیلائزر نے اس گروپ کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

ایک ارب ڈالر سٹیٹ بینک سے نکلنے سے معیشت پر کیا فرق پڑے گا؟
پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر سٹیٹ بینک آف پاکستان اور کمرشل بینکوں کے پاس موجود ڈالر پر مشتمل ہوتے ہیں۔
اس ہفتے کے اختتام پر سٹیٹ بینک کے پاس 15 ارب نوے کروڑ ڈالر کے زرِمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں۔
ان میں 12 ارب ڈالر ان ڈیپازٹس پر مشتمل ہیں جو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کی جانب سے مرکزی بینک کے پاس رکھوائے گئے ہیں۔
ان میں پانچ ارب ڈالر سعودی عرب، چار ارب ڈالر چین اور تین ارب ڈالر متحدہ عرب امارات کی جانب سے رکھوائے گئے تھے۔
پاکستان کے بیرونی قرضوں اور اس پر سود کی ادائیگی کی وجہ سے ملک کو بیرونی خسارے کا سامنا رہتا ہے اور یہ ڈیپازٹس ملک میں ایکسچینج ریٹ کو مستحکم رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
علی خضر نے اس سلسلے میں بتایا کہ یہ ڈیپاٹس مفت میں نہیں رکھے جاتے بلکہ اس پر پاکستان ہر سال تین سے چار فیصد سود کی ادائیگی کرتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ فوجی فاؤنڈیشن کی کمپنیوں کےشیئرز کی فروخت سے پاکستان کو ایک ارب ڈالرز پر سود کی ادائیگی نہیں کرنا پڑے گی لیکن جب امارات فوجی فاونڈیشن کے حصص خریدے گا تو اس پر سالانہ منافع ڈالرز کی شکل میں دینا پڑے گا۔