کالعدم ٹی ٹی پی کے میڈیا ونگ عمر میڈیا کے پروپیگنڈے میں ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے۔ اب عمر میڈیا کے پلیٹ فارم سے کسی واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اُکسانے اور ملکی سیاسی صورتحال سے متعلق بیانات بھی جاری کیے جا رہے ہیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین کو پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ تاہم طالبان حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔
عمر میڈیا کی جانب سے آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ مواد اُردو اور پشتو زبانوں میں شائع کیا جاتا ہےحالیہ مہینوں میں پاکستان میں شدت پسند کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دوسری طرف سکیورٹی فورسز ان کے خلاف کارروائیاں بھی کر رہی ہیں۔
رواں برس فروری میں ٹی ٹی پی کی جانب سے 147 حملوں کا دعویٰ کیا گیا تھا جبکہ 2025 کے پہلے مہینے میں کالعدم تنظیم نے ایسے حملوں کی تعداد 110 بتائی تھی۔
اگر 2024 کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو ٹی ٹی پی نے سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر 1,758 حملے کرنے کا دعویٰ کیا اور ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری اعداد و شمار اور دعوؤں کے مطابق ان حملوں میں 1284 افراد ہلاک اور1661 زخمی ہوئے ہیں۔
جہاں ایک جانب کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت آئی ہے وہیں ان کے پروپیگنڈے اور اس کے لیے استعمال کیے جانے والے میڈیا ذرائع کا دائرہ بھی وسعت اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے۔
تحریکِ طالبان کے خلاف پاکستان کی جانب سے نہ صرف اپنی سرزمین اور سرحد پار افغانستان میں بھی کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان میدانِ جنگ میں تو طالبان کے خلاف موثر کارروائیاں کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے لیکن ان کا شدت پسند تنظیم کے میڈیا آپریشنز پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔
پاکستانی طالبان کے بڑھتے میڈیا پروپیگنڈے اور حکومت کو اسے روکنے میں مشکلات پر بات کرنے سے قبل یہ جانتے ہیں کہ پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیے جانے والا ٹی ٹی پی کا میڈیا نیٹ ورک کیا ہے اور یہ کام کیسے کرتا ہے؟
ٹی ٹی پی کی نمائندگی کرنے والا ’عمر میڈیا‘ کیا ہے
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کا پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیے جانے والے میڈیا ونگ 'عمر میڈیا' کہلاتا ہے جس کا نام افغان طالبان کے رہنما ملا محمد عمر کے نام پر رکھا گیا ہے۔
اس ونگ نے نہ صرفسنہ 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور رواں برس جنوری میں ٹی ٹی پی نےعمر میڈیا کی از سر نو تشکیل بھی کی اور ایک تفصیلی تنظیمی ڈھانچے کا اعلان کیا تھا۔ اس تشکیل نو کے دوران مرکزی میڈیا کمیشن کے ساتھ ساتھ آڈیو، ویڈیو، میگزین، ایف ایم ریڈیو اور سوشل میڈیا کے پانچ الگ شعبوں کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق عمر میڈیا کے نو رکنی مرکزی میڈیا کمیشن کی سربراہی کالعدم تنظیم کے کمانڈر منیب جٹ کے پاس ہے جو ماضی میں القاعدہ برصغیر نامی شدت پسند تنظیم سے منسلک رہ چکے ہیں۔
اس میڈیا ونگ میں طالبان کے علاوہ ماضی میں ٹی ٹی پی میں ضم ہونے والی شدت پسند تنظیموں جیسے کہ جماعت الحرار سے تعلق رکھنے والے کارکن بھی شامل ہیں۔
ٹی ٹی پی کے میڈیا ونگ ’عمر میڈیا‘ نے سنہ 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیںعمر میڈیا کس طرح کا مواد بناتا ہے؟
بی بی سی مانیٹرنگ کے جائزے کے مطابق عمر میڈیا کی جانب سے طالبان کی کارروائیوں کی رپورٹنگ اور ان کے پروپیگنڈے کے لیے مختلف اقسام کا مواد تیار کیا جاتا ہے جن میں آڈیو اور ویڈیو کے علاوہ مختلفزبانوں میں رسالہ جات کی اشاعت بھی شامل ہے۔
گذشتہ برس ستمبر میں عمر میڈیا نے اعلان کیا تھا کہ وہ باقاعدگی سے چار رسالے، ایک پوڈ کاسٹ سیریز، لیکچرزاور ایک ہفتہ وار نیوز لیٹر شائع کر رہا ہے۔
طالبان کے میڈیا ونگ کی جانب سے جو مواد جاری یا شائع کیا جاتا ہے اس میں پاکستان میں فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادراوں کے اہلکاروں پر حملوں کی ویڈیوز کے علاوہ ایسی پروپیگنڈا ویڈیوز بھی شامل ہیں جن میں عسکری اہلکاروں کی لاشیں یا ان سے مبینہ طور پر زبردستی حاصل کیے جانے والے بیانات دکھائے جاتے ہیں۔
یہ مواد عمر میڈیا کی ویب سائٹ پر شائع کیا جاتا ہے اور اسے گروپ کے مخصوص سوشل میڈیا اکاؤنٹس، واٹس ایپ اور ٹیلی گرام جیسی پیغام رساں ایپس کے ذریعے بھی پھیلایا جاتا ہے۔
حال ہی میں عمر میڈیا کی جانب سے کیے جانے والے پروپیگنڈے میں ایک نئی حکمت عملی اور رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ اب عمر میڈیا کے پلیٹ فارم سے کسی واقعے کی ذمہ داری لینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اُکسانے اور ملکی سیاسی صورتحال سے متعلق بیانات بھی جاری کیے جا رہے ہیں۔
مثال کے طور میں حال ہی میں ٹی ٹی پی نے پروپیگنڈا کرتے ہوئے پاکستان کی داخلی سیاسی صورتحال میں حکومت مخالف مظاہروں میں فوج مخالف جذبات کو بھڑکانے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف کارروائیوں کو 'مظالم' قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔
اسی طرح ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر لکی مروت میں کشیدگی کے دوران مقامی کمیونٹیز کی مشکلات اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے متعدد بیانات بھی جاری کیے گئے تھے۔
حکومتی دعوؤں کی نفی اور پروپیگنڈا
سنہ 2021 میں ایک سینیئر پاکستانی صحافی مشتاق یوسفزئی نے ایک ٹاک شو میں انکشاف کیا تھا کہ عمر میڈیا کے لیے پڑھے لکھے نوجوان مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کو مانیٹر کرتے ہیںحالیہ کچھ عرصے میں کالعدم ٹی ٹی پی کا میڈیا ونگ عمر میڈیا کھل کر پاکستانی حکومت اور سکیورٹی فورسز کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے اور روز بروز اس میں شدت آ رہی ہے۔
بی بی سی مانیٹرنگ کے ایک جائزے کے مطابق اس پروپیگنڈے کی شدت میں اضافہ اس وقت ہوا جب گذشتہ برس دسمبر میں پاکستان حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پاکستان کی سرحد کے قریب جنوب مشرقی افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے برمل ضلع میں ایک فضائی کارروائی کے دوران ٹی ٹی پی کے عمر میڈیا کے ہیڈ کوارٹر کو تباہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ 25 دسمبر 2024 کو پاکستان نے افغانستان کے صوبے پکتیکا کے ضلع برمل میں میں عسکریت پسندوں کے خلاف 'انٹیلی جنس پر مبنی ایک فضائی کارروائی 'کی تھی۔
26 دسمبر کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس فضائی کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستانی شہریوں کی سلامتی کو لاحق خطرات کی بنیاد پر پاکستان افغانستان سرحد سے متصل علاقوں‘ میں عسکریت پسندوں کے خلاف انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کیا گیا ہے۔
اس سے ایک دن قبل افغانستان کی وزارت دفاع کی جانب سے جاری بیان میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ پاکستان کی فوج نے افغان صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں 'فضائی حدود' کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔
افغان طالبان کی حکومت نے اس 'فضائی کارروائی' پر اسلام آباد سے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا تھا اور اور خبردار کیا تھا کہ افغانستان کی علاقائی خودمختاری طالنان کے لیے سرخ لکیر ہے اور وہ اس حملے کا جواب دے گا۔
خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان گذشتہ کچھ عرصے سے تعلقات میں تناؤ ہے اور اسلام آباد نے بار بار کابل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے جو افغان سرزمین کو پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ طالبان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
اس حملے کے بعد عمر میڈیا نے کم از کم دو ایسی ویڈیوز اور دو بیانات جاری کیے تھے جس میں حکومت کے ان دعوؤں کی نفی کی گئی تھی۔ عمر میڈیا کی جانب سے ان ویڈیوز اور بیانات میں اس بات کی تردید کی تھی کہ ٹی ٹی پی کے میڈیا ونگ عمر میڈیا پر حملہ کیا گیا ہے۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری ایک ویڈیو میں عمر میڈیا کے سربراہ منیب جٹ غیر معمولی طور پر سامنے آئے تھے اور انھوں نے اس دعوے کی تردید کی تھی کہ وہ اور ان کے ساتھی ان حملوں میں مارے گئے ہیں۔
اسلام آباد نے بار بار کابل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرےشدت پسندوں کے پروپیگنڈے کو روکنے کی حکمتِ عملی اور چیلنجز
ان زمینی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ عمر میڈیا تواتر سے مختلف ذرائع ابلاغ پر حکومت اور فوج مخالف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے مگر ریاست پاکستان تمام وسائل ہونے کے باوجود بھی ان کو روکنے میں مشکل کیوں پیش آ رہی ہے؟
اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ 'دہشتگرد اپنا پروپیگنڈا سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلاتے ہیں اور صرف حکومت یا ملک کا سائبر کرائم ونگ اسے نہیں روک سکتا۔'
انھوں نے اس معاملے کی پیچیدگی کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پاکستان کے باہر سے آپریٹ کیے جا رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں، سائبر کرائم ونگ کے لیے یہ عملی طور پر ممکن نہیں کہ وہ ان تمام ممالک سے چلائے جانے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی شناخت اور روک تھام کر سکے۔'
انھوں نے کہا کہ 'جن ممالک سے یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چلائے جا رہے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ جس طرح اپنے ملک میں ایسے پروپیگنڈے کو پھیلنے سے روکتے ہیں ویسے ہی اسے پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر پھیلنے سے روکیں۔'
وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ 'اسی وجہ سے ہمیں پھر پاکستان میں کچھ پلیٹ فارمز پر پابندی لگانی پڑتی ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ لوگوں کی آزادی اظہار رائے کی آزادی سلب نہ ہو کیونکہ پلیٹ فارم بند کرنے سے لوگوں کے جائز حقوق بھی متاثر ہوتے ہیں۔'
تاہم مبصرین اس سے کچھ مختلف رائے رکھتے ہیں۔
نیوز ویب سائٹ خراسان ڈائری کے ایڈیٹر اور ٹی ٹی پی کی کارروائیوں پر نظر رکھنے والے صحافی افتخار فردوس نے بی بی سی سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً عمر میڈیا جیسے پروپیگنڈا ٹول یا ذرائع کو روکنا مشکل ہے لیکن حکومت کو اس ضمن میں درپیش مشکلات کی دیگر کچھ اہم وجوہات بھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست پاکستان کو شدت پسند تنظیموں کی جانب سے پروپیگنڈے کو روکنے میں جو سب سے زیادہ مشکل پیش آ رہی ہے اس میں نئی ٹیکنالوجی اور اس سے منسلک پلیٹ فارم بھی ایک وجہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کے ان اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو نیکٹا جیسے ادارے جو اس پروپیگنڈے کو روکنے کا کام کر رہے ہیں وہ ابھی بھی ٹیکنالوجی اور پالیسی کے اعتبار سے ایسا لگتا ہے کہ سنہ 2000 کی دہائی میں کام کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کاؤنٹر پروپیگنڈا کے حکومتی پلان میں کوئی جدت، کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔
افتخار فردوس اپنے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی خریدنا ہی سوال نہیں ہے بلکہ اس کو استعمال کرنے کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے جو کہ ریاستی اداروں میں آج کے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ دکھائی نہیں دیتی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ریاست کی کچھ حدود ہوتی ہیں جبکہ ان شدت پسند تنظیموں کے نہ تو کوئی اصول ہیں اور نہ ہی حدود۔۔۔ریاست کے لیے ایک پیچیدہ صورتحال کا آسان جواب دینا یقیناً مشکل ہوتا ہے۔ اگر ہم حالیہ تناظر میں دیکھیں تو ٹی ٹی پی نے اپنے پروپیگنڈے کے بیانیے میں ایک بڑی تبدیلی کی ہے اور پاکستان کے اندر موجود سیاسی تقسیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے مقبول بیانیے کو اپنانے کی کوشش کی ہے اور اس طرح وہ عوام کو ریاست، حکومت پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔'
افتخار فردوس کے مطابق 'اگر ہم خصوصاً ٹی ٹی پی کے عمر میڈیا کے رواں برس کے اوائل سے بیانیے کو دیکھیں تو انھوں نے روز مرہ سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں اور حملوں کی ذمہ داری لینے کے بجائے سماجی معاملات، مسائل اور بین الاقوامی امور پر بیانات جاری کرنے شروع کیے ہیں اور مسلح شدت پسند کارروائیوں کے لیے اپنے دیگر حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا استعمال کروایا ہے۔ '
'حکومت کو ان تنظمیوں کے پروپیگنڈے کو ناکام بنانے کے لیے سٹرٹیجک کمیونیکیشن کے ایسے ماہر افراد چاہییں جو معاشرے میں موجود تقسیم کو بڑھانے کے لیے باریکی سے تیار کردہ بیانیے کی نہ صرف نفی کر سکیں بلکہ ان کے خلاف ایک مؤثر اور عملی بیانیے تشکیل دے سکیں۔ مگر بدقسمتی سے حکومت اب تک ایسے افراد کو استعمال میں لانے میں ناکام رہی ہیں۔ '
حال ہی میں ٹی ٹی پی کی پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے خلاف شدت پسند کارروائیوں میں واضح اضافہ ہوا ہےان کا کہنا تھا کہ حکومت کی ایک اور مشکل ان کا ہر چیز یا معلومات تک رسائی کے ذرائع پر پابندی لگانے کا طرز عمل ہے۔
'آج کل کے سوشل میڈیا دور میں معلومات چھپ نہیں سکتی اور نہ ہی اس تک رسائی کو مکمل طور پر روکنا ممکن ہے، لہذا حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صرف کسی بھی واقعے کی ہونے یا نہ ہونے کی خبر کو چھپانا یا روکنا اور ذرائع ابلاغ پر پابندی لگانا ہی اس کا کام نہیں بلکہ ایسے واقعات میں جلد از جلد ریاست کے بیانیے کو عوام تک پہنچانا ضروری ہے۔ '
افتخار فرودس کہتے ہیں کہ ریاست اس شدت پسندی خاص کر ٹی ٹی پی کے معاملے کو مذہبی رنگ دے کر کھیل رہی ہے مگر وہ یہ بھول رہی ہے کہ مذہبی گراؤنڈ طالبان کا ہے اور اگر آپ اس کے میدان پر کھیلے گے تو یقیناً آپ کے لیے مشکل ہو گی۔
طالبان کے اندورنی اختلافات
تجزیہ کاروں کے مطابق ٹی ٹی پی کے طاقتور پروپیگنڈا آپریشن کو حال ہی میں اندرونی تنازعات اور مبینہ لیکس کا سامنا رہا ہے، جس سے سکیورٹی خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔
حال ہی میں ٹی ٹی پی کے کئی کمانڈروں کی ہلاکتوں کا تعلق تنظیم کی آن لائن موجودگی سے جوڑا گیا ہے۔
ٹی ٹی پی کے اندر پروپیگنڈا آپریشن اور سوشل میڈیا کو بغیر احتیاط یا بنا وی پی این کے استعمال کرنے کی بحث نے جنم لیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس سے ان کی لوکیشن اور ٹھکانوں کے ظاہر ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے انٹیلی جنس کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائیوں میں ٹی ٹی پی کے متعدد کمانڈروں کی ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کو مجبوراً تنظیم کے لیے انتباہی پیغامات جاری کرنے پڑے جن میں انھیں آن لائن سرگرمیوں کو محدود کرنے اور احتیاط سے استعمال کرنے کا کہا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی کے اندر دھڑا بندی اور عمر میڈیا کی طرز پر جماعت الاحرار سمیت دیگر گروہوں کے اپنے آزاد میڈیا ونگ استعمال کرنے کے اعلانات نے بھی اسے متاثر کیا ہے۔
اندورنی تقسیم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کے سربراہ نے 20 فروری کو ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کالعدم تنظیم کی کارروائیوں میں کامیابی کے حصول کے لیے اتحاد اور اعتماد کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
ایسے میں کیا عمر میڈیا کے پروپیگنڈے پر بھی منفی اثر پڑے گا؟
اس سوال کے جواب میں افتخار فردوس کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام شدت پسند تنظیموں کے مقابلے میں عمر میڈیا سب سے بڑا اور پرانا ہے۔ اس کے تقریباً 52 لاکھ سبسکرائبرز اور فالورز ہیں۔ اس اعتبار سے وہ کسی بھی شدت پسند تنظیم کے پروپیگنڈا میڈیا سے زیادہ فعال اور مؤثر ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر نور ولی محسود کے نظریے کو دیکھا جائے تو وہ ٹی ٹی پی کو ایک منظم فوج کی طرح چلاتے ہیں اور ان کے بیان کا مقصد بھی یہ ہی تھا کہ عمر میڈیا سمیت دیگر اراکین کی جانب سے بھی جو بیان دیا جائے وہ ٹی ٹی پی کی شوریٰ سے منظور شدہ ہو۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی میں اس وقت تقریباً چھوٹے بڑے 72 گروہ شامل ہیں اور اس میں بڑا گروہ جماعت الحرار ہے اور وہ اب غازی میڈیا کے نام سے اپنا علیحدہ پروپیگنڈا میڈیا ونگ چلاتے ہیں اور ٹی ٹی پی ان کے متعدد بیانات اور اعلانات سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے کیونکہ یہ کارروائیاں ان کے ایجنڈے میں فٹ نہیں ہوتیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ ٹی ٹی پی کے مخالف لشکر اسلام اور حافظ گل بہادر گروپ نے بھی اپنی کارروائیوں کے لیے علیحدہ سے اپنے پروپیگنڈا چینلز بنائے ہیں۔
’ٹی ٹی پی چاہتی ہیں کہ کوئی بھی ذیلی گروہ کسی بھی کارروائی کی تشہیر آزادانہ طور پر اپنے کسی سوشل میڈیا یا آن لائن میڈیا پلیٹ فارم سے نہ کرے بلکہ تنظیمی ڈھانچے کے تحت مرکزی شوریٰ سے منظوری کے بعد عمر میڈیا سے ہی کیا جائے اس لیے ان کے میڈیا پروپیگنڈا کے حوالے سے یقیناً اندرونی اختلافات پائے جاتے ہیں۔‘