حمیرا اصغر کی موت کے وقت کا تعین ماہرین ہی کریں گے تاہم اکتوبر 2024 کے بعد ان کا کسی سے رابطہ نہیں تھا: کراچی پولیس

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ اداکارہ حمیرا علی کی موت کی وجہ اور وقت کا حتمی تعین طبی ماہرین کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد ہی ممکن ہو سکے گا تاہم ابتدائی تحقیقات کے مطابق اکتوبر 2024 کے بعد سے ان کا کسی سے رابطہ نہیں تھا۔

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ اداکارہ حمیرا اصغر علی کی موت کی وجہ اور وقت کا حتمی تعین طبی ماہرین کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد ہی ممکن ہو سکے گا تاہم ابتدائی تحقیقات کے مطابق اکتوبر 2024 کے بعد سے ان کا کسی سے رابطہ نہیں تھا۔

حمیرا اصغر کی لاش منگل کو کراچی کے علاقے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی میں ایک فلیٹ سے اس وقت برآمد ہوئی تھی جب عدالت کے حکم پر فلیٹ خالی کروانے کے لیے حکام وہاں پہنچے تھے۔

لاش کے پوسٹ مارٹم کے بعد حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یہ لاش 'کئی دن پرانی' تھی اور جسم کے گلنے سڑنے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔

بدھ کی شام پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں پولیس اور طبی حکام کے حوالے سے یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ اداکارہ کی لاش چند دن نہیں بلکہ کئی ماہ پرانی ہے کیونکہ ان کی رہائش گاہ سے ملنے والے شواہد اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ ممکنہ طور پر ان کی وفات چھ ماہ قبل ہوئی تھی۔

اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کراچی پولیس کے ایس ایس پی جنوبی مہزور علی کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات میں فلیٹ سے کسی تشدد کی علامات یا کوئی آلہ نہیں ملا جس کی بنیاد پر حمیرا اصغر کی موت کی وجہ کے بارے میں کوئی نتیجہ اخذ کیا جا سکے اور یہ اب میڈیکل رپورٹ سے ہی واضح ہو گی۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 'لاش کتنی پرانی ہے اس بات کا تعین بھی طبی ماہرین ہی کر پائیں گے۔'

تاہم ایس ایس پی جنوبی مہزور علی کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'حمیرا اصغر کی سرگرمیاں ستمبر،اکتوبر 2024 کے بعد نہیں تھیں۔ ان کی سوشل میڈیا پر موجودگی بھی نہیں تھی اور فون پر بھی کسی سے رابطہ نہیں تھا۔'

ان کے مطابق اپریل 2024 کے بعد جب مکان مالک کو حمیرا کی جانب سے کرایہ نہیں ملا تو اس نے عدالت سے رجوع کر لیا اس لیے وہ بھی کسی طرح اداکارہ سے رابطے میں نہیں آیا۔

کئی ماہ تک لاش کی فلیٹ میں ممکنہ موجودگی کی صورت میں ہمسایوں کی جانب سے کسی بدبو کے بارے میں بات نہ کرنے کے حوالے سے مہروز علی کا کہنا تھا کہ جس فلیٹ سے لاش ملی 'اس کے سامنے والے فلیٹ کے لوگ بھی ستمبر سے چھٹیوں پر گئے ہوئے تھے جو فروری میں واپس آئے۔ لاش کا تعفن ابتدائی دنوں میں ہوتا ہے یہ عرصہ گزر چکا تھا۔'

تحقیقات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں مہروز علی نے بتایا کہ 'پولیس کو دو موبائل فون ملے تھے جن کی سی ڈی آر کروائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ابھی تک اور کوئی فون نہیں ملا۔

ان کے مطابق حمیرا علی کے کسی دوست یا ساتھی نے بھی تفتیش کے لیے رضاکارانہ طور پر پولیس سے رابطہ نہیں کیا تاہم کچھ لوگوں نے یہ ضرور کہا ہے کہ وہ ان کی تدفین کرنا چاہتے ہیں لیکن پولیس کی کوشش ہے کہ اولیت قریبی رشتے داروں کو دی جائے۔

'ان کے بہنوئی نے رابطہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ حمیرا کے والد کے ساتھ لاش وصول کرنے آئیں گے۔' خیال رہے کہ بدھ کو پولیس حکام نے کہا تھا کہ رابطہ کرنے پر حمیرا کے والد نے لاش وصول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

ڈی آئی جی جنوبی اسد رضا نے اس سے قبل بی بی سی کو بتایا کہ جب پولیس نے حمیرا کے خاندان سے رابطہ کیا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’وہ گذشتہ سات سال سے ان سے رابطے میں نہیں تھیں اور اکیلی رہتی تھیں۔‘

حمیرا علی کی لاش فی الوقت مردہ خانے میں ہے اور چھیپا فاؤنڈیشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان سے لاش کی وصولی کے لیے تاحال کسی نے رابطہ نہیں کیا۔

لاش کیسے دریافت ہوئی

ایس ایس پی جنوبی مہروز علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اداکارہ حمیرا علی لاہور کی رہائشی تھیں اور اتحاد کمرشل کے علاقے میں سنہ 2018 سے فلیٹ میں رہتی تھیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’سنہ 2024 سے انھوں نے کرایہ دینا بند کردیا تھا جس کے خلاف مکان مالک نے عدالت سے رجوع کر رکھا تھا۔‘

ایس ایس پی کے مطابق ’پولیس عدالت کے بیلف کے ساتھ منگل کو متعلقہ فلیٹ پر پہنچی تو دروازہ اندر سے بند تھا۔‘

’جب آہنی گیٹ اور لکڑی کا دروازہ توڑ کر پولیس اندر داخل ہوئی تو حمیرا علی کی لاش زمین پر موجود تھی جو کئی روز پرانی تھی۔‘

پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سے جب بی بی سی نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’لاش کی حالت خراب تھی‘ تاہم موت کی وجہ کے بارے میں بعد میں بتایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’لاش سے نمونے حاصل کر لیے گئے ہیں اور خاتون کی موت کی اصل وجہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے بعد سامنے آئے گی۔‘

پولیس نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ فلیٹ سے تفتیش کاروں نے فورینزک شواہد اکٹھے کر لیے ہیں اور ’تمام ممکنہ شواہد کی تفتیش کی جا رہی ہے۔‘

کراچی میں فلاحی ادارے چھیپا کے رضاکاروں نے حمیرا کی لاش اٹھائی۔ ایمبولینس ڈرائیور زبیر بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ فلیٹ پر پہنچے تو اس وقت تک پولیس دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو چکی تھی۔

زبیر بلوچ کہتے ہیں کہ انھوں نے دیکھا کہ ’سٹور روم جیسے ایک کمرے میں فرش پر قالین کے اوپر ایک عورت کی لاش پڑی ہوئی تھی جس نے نیلے رنگ کی پتلون اور اور پنک رنگ کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔‘

ان کے مطابق ’یہ فلیٹ عمارت کے چوتھے فلور پر تھا جس میں دو سے تین کمرے تھے۔ ایک بیڈ روم تھا، گھر میں بجلی نہیں تھی۔‘

’معلوم ہوا کہ مکان مالک نے بجلی بند کرا دی تھی۔ دوسری طرف سے کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں۔ شاید اسی وجہ سے بدبو باہر نہیں گئی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے اندازے کے مطابق لاش کم از کم ایک ماہ پرانی ہوگی۔‘

نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل حمیرا اصغرنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ 'انھوں نے کالج کے زمانے سے رفیع پیر تھیٹر میں کام کیا جس کے بعد انھوں نے ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھا انھوں نے کئی برانڈز کے لیے ماڈلنگ کی۔'

انھوں نے چند برس قبل نجی ٹی وی اے آر وائی کے ریئیلٹی شو تماشا گھر سے شہرت حاصل کی تھی جس کے بعد وہ متعدد ٹی وی ڈراموں اور چند فلموں میں بھی نظر آئیں۔

حمیرا اصغر کی کئی دن پرانی لاش ملنے کی خبر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے افراد افسوس کا اظہار کرتے دکھائی دیے وہیں بہت سے لوگ اس بات پر حیرانی اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ کسی کو اتنا عرصہ کچھ پتا کیوں نہیں چلا۔

کشف نے ایکس پلیٹ فارم پر لکھا کہ ’اتنے دن تک؟ والدین؟ بہن بھائی؟ خاندان؟ باقی لوگ یا دوست؟ ساتھ کام کرنے والے؟ وہ تماشہ میں تھیں اور شاید وہاں انھوں نے کچھ دوست بنائے ہوں گے لیکن کسی نے بھی جا کر ان کا حال جاننے کی کوشش نہیں کی؟‘

ندرت فاطمہ نے لکھا کہ ’آج کراچی ایک اور آواز خاموش ہونے کی خبر سے جاگا۔‘ انھوں نے لکھا کہ ’کسی نے نوٹس نہیں کیا، کسی نے ان کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔‘

’یہ ایک سانحہ ہی نہیں ہے بلکہ ہماری اجتماعی تنہائی اور غفلت کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔‘

اداکارہ صحیفہ جبار خٹک کا کہنا ہے کہ (شوبز) انڈسٹری باہر سے تو بہت چکاچوند والی دکھائی دیتی ہے لیکن اس میں رہنا بہت مشکل ہے۔

اداکارہ حنا الطاف نے اپنے بیان میں کہا کہ حمیرا اکیلی رہتی تھیں اور تنہائی ہی میں چل بسیں اور دنوں تک کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ صرف نقصان نہیں بلکہ غفلت سے جگانے کی گھنٹی ہے کہ دوستوں کا خیال رکھا جائے اور ان کا جو کبھی اس کا مطالبہ نہیں کرتے۔‘

کراچی میں ایسا دوسرا واقعہ

کراچی میں حالیہ دنوں میں ایسا دوسرا واقعہ ہے جہاں اکیلی رہنے والی ایک ادکارہ کی لاش ملی ہو۔ اس سے پہلے عائشہ حان نامی سینئیر اداکارہ کی موت پر بھی سوشل میڈیا شدید ردِ عمل سامنے آیا تھا۔

یاد رہے کہ رواں سال جون میں معروف سینئر پاکستانی ادکارہ عائشہ خان کی ان کے گھر سے7 روز پرانی لاش ملی تھی۔ اُن کی عُمر 76 برس تھی۔

پولیس کے مطابق عائشہ خان کی طبعی موت واقع ہوئی تھی۔ اداکارہ عائشہ خان گلشن اقبال بلاک 7 نجیب پلازہ میں واقع اپنے فلیٹ میں اکیلی رہتی تھیں اور فلیٹ سے تعفن اٹھنے پر اہل محلہ نے پولیس کو بلایا تھا۔ جب لوگ ان کے فلیٹ کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے تو اداکارہ گھر میں مردہ حالت میں پائی گئیں۔

عائشہ خان 22 اگست 1948 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ 1964 میں انھوں نے اداکاری کے میدان میں قدم رکھا اور پی ٹی وی کے متعدد مقبول ڈراموں میں اپنی جاندار اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts