آر ایس ایس کے 100 سال: وہ ہندو تنظیم جس نے گاندھی کے قتل پر ’مٹھائی بانٹی‘ اور انڈیا کو دو وزرائے اعظم دیے

آر ایس ایس کی تاریخ، انڈیا کو ہندو راشٹر (ملک) بنانے پر اس کے زور اور اقلیتوں کے تئیں اس کی پالیسی پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ اس پر ملک کی آزادی میں حصہ نہ لینے کا، قومی انڈین پرچم کو نہ اپنانے اور بابائے قوم گاندھی جی کو قتل کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
آر ایس ایس
Getty Images
اپنی حفاظت کے نام پر آر ایس ایس اپنے رضاکاروں کو جسمانی تربیت بھی دیتی ہے

انڈیا کی متنازع ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) 2025 میں اپنی بنیاد کے 100 سال مکمل کر رہی ہے۔ ایک صدی قبل قائم ہونے والی اس تنظیم نے ملک بھر میں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں پر اپنی چھاپ چھوڑی ہے۔

ان سو سالوں میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوا ہے کہ آر ایس ایس، اس کا نظریہ یا اس کے کام پر لوگوں کی توجہ نہ رہی ہو۔

سنہ 2014 میں مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے آر ایس ایس کا سیاسی اثر و رسوخ کئی گنا بڑھ گیا ہے اور یہ اب تک کی سب سے مضبوط پوزیشن میں دکھائی دے رہی ہے۔

لیکن آر ایس ایس کی تاریخ، انڈیا کو ہندو راشٹر (ملک) بنانے پر اس کے زور اور اقلیتوں کے تئیں اس کی پالیسی پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔

اس پر ملک کی آزادی میں حصہ نہ لینے کا، قومی انڈین پرچم کو نہ اپنانے اور بابائے قوم گاندھی جی کو قتل کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ گاندھی کے قتل کے بعد اس پر پابندی بھی لگائی گئی تھی۔ یہاں تک کہ گذشتہ سال تک سرکاری اہلکاروں پر اس میں شمولیت پر پابندی تھی جسے ’چُپکے سے‘ ہٹا دیا گيا ہے۔

آئیے ہم اس تنظیم سے متعلق کچھ اہم سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہیں۔

آر ایس ایس
Getty Images
آر ایس ایس کا کہنا ہے یہ دنیا کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم ہے

آر ایس ایس کیا ہے؟

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کو عام طور پر آر ایس ایس یا سنگھ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ایک ہندو قوم پرست تنظیم ہے۔ اس کی بنیاد سنہ 1925 میں ڈاکٹر کیشو بلیرام ہیڈگیوار نے مہاراشٹر کے شہر ناگپور میں رکھی تھی اور آج تک یہیں اس کا ہیڈکوارٹر ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ہیڈگیوار ہندو قوم پرست مفکر ونائک دامودر ساورکر کے خیالات سے متاثر تھے۔ کچھ عرصہ کانگریس کے ساتھ کام کرنے کے بعد ہیڈگیوار نے نظریاتی اختلافات کی وجہ سے کانگریس پارٹی چھوڑ دی اور سنگھ کی بنیاد رکھی۔

آر ایس ایس کو دنیا کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم کہا جاتا ہے۔ تاہم اس بات کی کوئی سرکاری گنتی نہیں ہے کہ کتنے لوگ آر ایس ایس سے وابستہ ہیں۔

آر ایس ایس خود کو ایک غیر سیاسی ثقافتی تنظیم کہتی ہے، لیکن یہ سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ریڑھ کی ہڈی کہی جاتی ہے اور بنیادی تنظیم کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔

آر ایس ایس
Getty Images
آر ایس ایس ہندو نظریاتی تنظیم ہے

آر ایس ایس کے بنیادی اغراض و مقاصد کیا ہیں؟

آر ایس ایس کے مطابق یہ ایک ثقافتی تنظیم ہے جس کا مقصد ہندو ثقافت، ہندو اتحاد اور خود انحصاری کی اقدار کو فروغ دینا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ وہ قومی خدمت اور ہندوستانی روایات اور ورثے کے تحفظ جیسے مسائل پر زور دیتا ہے۔

غیر سیاسی ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود آر ایس ایس کے بہت سے ارکان انتخابی سیاست میں سرگرم ہیں۔ اس ضمن میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے لے کر موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی تک کئی ناموں کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔

یہ جماعت سماج کی تعمیر نو کا دعوی کرتی ہے۔ آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت کہتے ہیں کہ آر ایس ایس ’ایک نظام ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔‘ ان کے مطابق آر ایس ایس ’افراد سازی کا کام کرتی ہے۔‘

چنانچہ انڈیا میں زندگی کے تقریبا تمام گوشے میں آپ کو اس کے خیالات کے حاملین مل جائیں گے۔

صرف ہندو مرودوں کو ہی اس میں شمولیت کی اجازت ہے
Getty Images
صرف ہندو مرودوں کو ہی اس میں شمولیت کی اجازت ہے

شاکھا کیا ہے اور کوئی آر ایس ایس کا ممبر کیسے بن سکتا ہے؟

شاکھا یا شاخ سنگھ کی بنیادی تنظیمی اکائی ہے۔ یہ زیادہ تر مقامی سطح پر کام کرتی ہے۔

شاکھا وہ جگہ ہے جہاں سنگھ کے ارکان کو نظریاتی اور جسمانی تربیت دی جاتی ہے۔

زیادہ تر شاکھا ہر صبح منعقد ہوتی ہے اور کبھی کھبی شام کو بھی کام کرتی ہیں۔ کچھ علاقوں میں، یہ ہفتے میں چند دن کام کرتی ہیں۔

آر ایس ایس کے مطابق انڈیا میں اس کی 73000 سے زیادہ شاکھائیں ہیں جن میں جسمانی ورزش اور کھیلوں کے ساتھ ساتھ ٹیم ورک اور قائدانہ صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے پروگرام یا سرگرمیاں شامل ہیں۔

اس کے ساتھ یہاں ’مارچنگ‘ اور ’سیلف ڈیفنس‘ کی تکنیکیں بھی سکھائی جاتی ہیں۔

یہاں ہندوتوا، ہندو قوم پرستی اور دیگر بنیادی نظریات سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ کوئی بھی ہندو مرد اس کا رکن بن سکتا ہے اور جو کوئی ان کی منعقد کردہ شاکھا میں شرکت کرتا ہے وہ اس کا رکن ہے، جسے وہ کاریہ کرتا یعنی رضاکار کہتے ہیں۔

آر ایس ایس
Getty Images
خواتین کے لیے علیحدہ تنظیم راشٹریہ سیویکا سمیتی ہے

کیا خواتین آر ایس ایس کی رکن بن سکتی ہیں؟

خواتین راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی رکن نہیں بن سکتیں۔

سنگھ اپنی ویب سائٹ پر ’اکثر پوچھے گئے سوالات‘ والے حصے میں لکھتا ہے کہ سنگھ کا قیام ہندو برادری کو منظم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ عملی حدود کو دیکھتے ہوئے صرف ہندو مردوں کو اس میں شامل ہونے کی اجازت تھی۔

آر ایس ایس کے مطابق جب ہندو خواتین کے لیے ایسی تنظیم کی ضرورت محسوس ہونے لگی تو مہاراشٹر کے شہر وردھا سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن لکشمی بائی کیلکر نے آر ایس ایس کے بانی ڈاکٹر ہیڈگیوار سے رابطہ کیا اور ان سے بات چیت کے بعد 1936 میں راشٹر سیویکا سمیتی شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور خواتین کو اس سمیتی میں شرکت کی ترغیب دی جاتی ہے۔

بہر حال سنگھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپنے سو سال پورے ہونے والے میں وہ خواتین کے رابطہ پروگرام کے ذریعے ہندوستانی فکر اور سماجی تبدیلی میں خواتین کی فعال شرکت کو بڑھانا چاہتا ہے۔

آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت
Getty Images
آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت

آر ایس ایس کو فنڈز کیسے ملتے ہیں؟

آر ایس ایس کوئی رجسٹرڈ تنظیم نہیں ہے اور اس وجہ سے اس کی شفافیت اور جوابدہی کی کمی پر اکثر تنقید کی جاتی ہے۔

آر ایس ایس کے فنڈز کے بارے میں شفافیت کی کمی کے الزامات بھی ہیں، کیونکہ سنگھ انکم ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرتا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ یہ ایک اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والی تنظیم ہے اور باہر سے کوئی پیسہ نہیں لیا جاتا، چاہے کوئی سنگھ کے کام کے لیے رضاکارانہ طور پر چندہ ہی کیوں نہ دے۔

تاہم آر ایس ایس کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ گرودکشنا (گرو کے اعزاز میں دی گئی رقم) کے ذریعے اپنے اخراجات پورے کرتا ہے۔ ان کے رضاکار زعفرانی پرچم کو اپنا گرو مانتے ہوئے سال میں ایک بار گرودکشنا دیتے ہیں۔

آر ایس ایس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے رضاکار بہت سے سماجی خدمت کے کام کرتے ہیں اور انھیں اس کے لیے سماج سے تعاون ملتا ہے۔ ان سماجی کاموں کے لیے رضاکاروں نے ٹرسٹ بنا رکھے ہیں، جو پیسہ اکٹھا کرتے ہیں اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے اکاؤنٹس کا انتظام کرتے ہیں۔

آر ایس ایس کے رجسٹرڈ نہ ہونے کے بارے میں سرسنگھ چالک یعنی اس تنظیم کے سربراہ موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ جب آر ایس ایس شروع ہوئی تو آزاد ہندوستان کی کوئی حکومت نہیں تھی اور آزادی کے بعد کوئی ایسا قانون نہیں بنایا گیا جس میں کہا گیا ہو کہ ہر تنظیم کو رجسٹر کرنا ضروری ہے۔

بھاگوت کے مطابق، سنگھ 'افراد کا ادارہ' ہے اس لیے اس پر ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا۔

آر ایس ایس کے بانی اور دوسرے سربراہ
Getty Images
ہیڈگیوار اور گولورکر

آر ایس ایس کا تنظیمی ڈھانچہ کیا ہے؟

آر ایس ایس یا سنگھ میں سب سے اعلیٰ مقام سرسنگھ چالک کا ہے۔ فی الحال موہن بھاگوت اس عہدے پر فائز ہیں۔

سرسنگھ چالک کے بعد سب سے اہم عہدہ سرکاریواہ ہے، جو سنگھ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر ہے اور اسے سنگھ کے روزمرہ کے معاملات پر فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔ فی الحال، دتاتریہ ہوسابلے سنگھ کے سرکاریواہ ہیں۔

اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ڈاکٹر ہیڈگیوار کے بعد آر ایس ایس میں سرسنگھ چالک بننے والے پانچ سرسنگھ چالکوں میں سے چار سرسنگھ چالک پہلے سرکاریواہ تھے اور ایک سہ یا نائب سرکاریواہ تھا۔

شریک چیئرپرسن کا کردار جوائنٹ سکریٹری کا ہوتا ہے۔ ایک وقت میں متعدد شریک چیئرپرسن ہو سکتے ہیں۔

سنگھ کے مطابق 922 اضلاع میں روزانہ 73,117 شاکھائیں لگتی ہیں۔ اس کے 6,597 بلاکس اور 27,720 منڈل ہیں۔ ہر منڈل 12 سے 15 گاؤں پر مشتمل ہے۔

آر ایس ایس کے تحت بہت سی تنظیمیں کام کرتی ہیں، ان تنظیموں کو سنگھ سے منسلک تنظیمیں کہا جاتا ہے، اس پورے گروپ کو سنگھ پریوار کہا جاتا ہے۔

سنگھ پریوار میں بھارتیہ جنتا پارٹی، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد، سودیشی جاگرن منچ، ونواسی کلیان آشرم، راشٹریہ سکھ سنگھ، ہندو یووا واہنی، بھارتی کسان سنگھ اور بھارتیہ مزدور سنگھ اہیمت کے حامل ہیں۔

آر ایس ایس
Getty Images
آر ایس ایس والے اب ہاف پینٹ کی جگہ فل پینٹ بھی پہننے لگے ہیں

اس میں کتنے لوگ شامل ہیں اور سربراہ کیسے بنا جاتا ہے

سنگھ میں اب تک چھ سرسنگھ چالک ہوئے ہیں۔ سنگھ کے بانی ڈاکٹر کیشو بلیرام ہیڈگیوار سنگھ کے پہلے سرسنگھ چالک تھے۔ وہ 1925 سے 1940 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

1940 میں ہیڈگیوار کی موت کے بعد مادھو سداشیوراؤ گولوالکر آر ایس ایس کے دوسرے سرسنگھ چالک بن گئے۔ وہ 1973 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

1973 میں گولوالکر کی موت کے بعد بالاصاحب دیورس سرسنگھ چالک بن گئے۔ وہ 1994 تک اس عہدے پر رہے۔ صحت کی وجوہات کی وجہ سے انھوں نے راجندر سنگھ (رجّو بھیا) کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ راجندر سنگھ 2000 تک سنگھ کے سرسنگھ چالک رہے۔

سنہ 2000 میں کے ایس سودرشن سنگھ کے نئے سرسنگھ چالک بنے اور 2009 تک اس عہدے پر رہے۔ 2009 میں سدرشن نے موہن بھاگوت کو اپنا جانشین منتخب کیا جو اب تک عہدے پر فائز ہیں۔

سرسنگھ چالک کے انتخاب کا کوئی اصول نہیں ہے جس کی وجہ سے اس پر تنقید ہوتی ہے۔

ڈاکٹر ہیڈگیوار کے بعد جتنے بھی سرسنگھ چلک تھے ان کی تقرری پچھلے سرسنگھ چالکوں نے کی تھی۔ سرسنگھ چالک تاحیات عہدہ پر فائز رہتے ہیں اور وہ اپنے جانشینوں کا انتخاب کرتے ہیں۔

بھاگوت کہتے ہیں: 'میرے بعد کون سرسنگھ چالک ہوگا اور میں کب تک سرسنگھ چالک رہوں گا یہ سب مجھ پر منحصر ہے۔' سنگھ میں میرا کوئی اختیار نہیں ہے۔ میں صرف ایک دوست، ایک رہنما اور ایک فلسفی ہوں۔ آر ایس ایس سربراہ کو اور کچھ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔'

گولولکر آر ایس ایس کے دوسرے سربراہ رہے
Getty Images
گولولکر آر ایس ایس کے دوسرے سربراہ رہے

آر ایس ایس پر پابندی کب اور کیوں لگی؟

آر ایس ایس پر پہلی بار 1948 میں مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد پابندی لگائی گئی تھی۔ 30 جنوری 1948 کو ناتھورام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ اس وقت کی حکومت کو شبہ تھا کہ مہاتما گاندھی کے قتل میں آر ایس ایس کا ہاتھ تھا اور گوڈسے آر ایس ایس کا رکن تھا۔

آر ایس ایس کو ذات پات کی تقسیم کو فروغ دینے والی تنظیم کے طور پر دیکھتے ہوئے، حکومت نے فروری 1948 میں اس پر پابندی لگا دی اور اس کے سرسنگھ چالک گولوالکر کو گرفتار کر لیا۔

گولوالکر اور حکومت کے درمیان اگلے سال پابندی ہٹانے کے بارے میں کئی دور کی بات چیت ہوئی۔

حکومت کا موقف تھا کہ آر ایس ایس کو تحریری اور شائع شدہ آئین کے اندر کام کرنا چاہیے، اپنی سرگرمیوں کو ثقافتی دائرے تک محدود رکھنا چاہیے، تشدد اور رازداری کو ترک کرنا چاہیے، اور انڈین آئین اور قومی پرچم سے وفاداری کا عہد کرنا چاہیے۔ (آر ایس ایس: اے مینز ٹو انڈیا، اے جی نورانی، صفحہ 375)

اس دوران سردار پٹیل اور گولوالکر کے درمیان کئی خطوط کا تبادلہ ہوا۔

ان خطوط میں سے ایک میں سردار پٹیل نے گولوالکر کو لکھا کہ 'سنگھ کی تمام تقریریں فرقہ وارانہ زہر سے بھری ہوئی ہیں اور اس زہر کے آخری نتیجہ کے طور پر ملک کو گاندھی جی کی قربانی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔'

سردار پٹیل نے یہ بھی لکھا کہ انھیں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اطلاع دی تھی کہ 'آر ایس ایس کے لوگوں نے گاندھی جی کے قتل کے بعد جشن منایا اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔'

لیکن پھر 11 جولائی 1949 کو حکومت ہند نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ 'آر ایس ایس کے رہنماؤں کی طرف سے کی گئی ترامیم اور وضاحتوں کے پیش نظر، حکومت ہند اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ آر ایس ایس کی تنظیم کو ایک جمہوری، ثقافتی تنظیم کے طور پر کام کرنے، ہندوستانی آئین کی پاسداری کرنے، رازداری اور تشدد سے پرہیز کرنے، قومی پرچم کو قبول کرنا چاہیے۔' (آر ایس ایس: اے مینز ٹو انڈیا، اے جی نورانی، صفحہ 390)

اس کے ساتھ ہی 1948 میں لگائی گئی پابندی ہٹا دی گئی۔ تاہم آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ یہ پابندی بغیر کسی شرط کے ہٹائی گئی تھی۔

کیا آر ایس ایس نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں حصہ لیا تھا؟

آر ایس ایس پر بڑے پیمانے پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے برطانوی راج کے خلاف ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں فعال طور پر حصہ نہیں لیا۔

1925 میں جب آر ایس ایس وجود میں آئی تو تحریک آزادی نے زور پکڑا ہوا تھا۔ گولوالکر کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ آر ایس ایس نے 1942 کی ہندوستان چھوڑو تحریک میں حصہ نہیں لیا تھا۔

دوسری طرف سنگھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے آزادی کی جدوجہد میں جوش و خروش سے حصہ لیا۔

اپنی کتاب میں سنیل امبیکر لکھتے ہیں کہ سنگھ نے اپنی تمام شاخوں میں 26 جنوری 1930 کو یوم آزادی کے طور پر منایا۔ آزادی کی تحریک میں ہزاروں رضاکاروں نے کھل کر حصہ لیا اور سنگھ نے کھل کر ان کی حمایت کی۔

امبیکر کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس نے سول نافرمانی کی تحریک اور ہندوستان چھوڑو تحریک میں بھی حصہ لیا تھا۔

لیکن معروف مورخ اور مصنف دھیریندر جھا کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ انھوں نے آر ایس ایس پر وسیع تحقیق کی ہے۔ سنگھ کے دوسرے سرسنگھ چالک گولوالکر پر ان کی کتاب حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اس سے قبل وہ ناتھورام گوڈسے اور ہندوتوا پر بھی کتابیں لکھ چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 'آر ایس ایس کے آزادی کی تحریک میں حصہ لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ آر ایس ایس کے بنیادی اصولوں نے انھیں انگریز مخالف جدوجہد سے دور رکھا۔

دھریندر جھا کے مطابق آر ایس ایس ہندوتوا کے نظریے پر مبنی ایک تنظیم ہے جو 'ہندوؤں کو یہ بتانے کی کوشش کر رہی تھی کہ ان کے سب سے بڑے دشمن مسلمان ہیں، برطانوی حکومت نہیں۔'

دھیریندر جھا کہتے ہیں کہ 1935 میں جب آر ایس ایس اپنے قیام کی دسویں سالگرہ منا رہی تھی تو ہیڈگیوار نے اپنی ایک تقریر میں برطانوی راج کو 'ایکٹ آف پروویڈنس' (خدائی قانون) قرار دیا تھا۔

جھا کہتے ہیں: 'آر ایس ایس کی اصل اساس بالکل بھی انگریز مخالف نہیں تھی۔ جبکہ ایک سطح پر وہ انگریزوں کی حامی تھی۔ کیونکہ یہ انگریز مخالف تحریک کو تقسیم کر رہی تھی۔ آزادی کی تحریک ایک ایسی تحریک تھی جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے اور آر ایس ایس صرف ہندو مفادات کی بات کرتی تھی۔'

سینئر صحافی اور مصنف نیلنجن مکوپادھیائے نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے بڑے سرکردہ رہنماؤں پر کتاب لکھی ہے۔

وہ کہتے ہیں: 'آر ایس ایس کا مقصد نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی حاصل کرنا نہیں تھا۔ آر ایس ایس کی بنیاد ہندو سماج کو اسلام اور عیسائیت کے خلاف مضبوط کرنے کے خیال سے رکھی گئی تھی۔

'ان کا مقصد انگریزوں کو بھگانا نہیں تھا۔ ان کا مقصد ہندو برادری کو متحد کرنا تھا، انھیں ایک آواز سے بولنے کے لیے تیار کرنا تھا۔'

ناتھو رام گوڈسے کو پھانسی دی گئی
Getty Images
ناتھو رام گوڈسے کو مہاتما گاندھی کے قتل میں پھانسی دی گئی

ناتھورام گوڈسے اور آر ایس ایس کے درمیان کیا تعلق تھا؟

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ پر سب سے سنگین تنقید یہ ہے کہ مہاتما گاندھی کا قتل کرنے والے ناتھورام گوڈسے آر ایس ایس کے رکن تھے۔

آر ایس ایس نے ہمیشہ خود کو گوڈسے سے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ گوڈسے نے جب مہاتما گاندھی کو قتل کیا تو وہ آر ایس ایس کے رکن نہیں تھے۔ اس لیے گاندھی کے قتل کے لیے آر ایس ایس کو ذمہ دار ٹھہرانا غلط ہے۔

قتل کے بعد کے مقدمے میں خود ناتھورام گوڈسے نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ آر ایس ایس میں تھے لیکن بعد میں آر ایس ایس چھوڑ کر ہندو مہاسبھا میں شامل ہو گئے۔

دھیریندر جھا نے گوڈسے پر ایک کتاب لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف دو سوال ہیں: گوڈسے نے آر ایس ایس کب چھوڑا اور ہندو مہاسبھا میں کب شامل ہوئے؟

وہ لکھتے ہیں کہ 'اس وقت آر ایس ایس کے بہت سے لوگ ہندو مہاسبھا میں تھے اور بہت سے ہندو مہاسبھا کے لوگ آر ایس ایس میں تھے۔ 1947 میں جب ممبئی پولیس نے ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کے لوگوں کی فہرست تیار کی تو معلوم ہوا کہ ان میں اوورلیپ ہے۔'

جھا کے مطابق ناتھورام گوڈسے کے بھائی اور گاندھی کے قتل میں شریک ملزم گوپال گوڈسے جیل سے رہائی کے بعد زندگی بھر یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ناتھورام گوڈسے نے آر ایس ایس کو کبھی نہیں چھوڑا۔

ماضی میں کچھ مواقع پر گوڈسے خاندان کے افراد کے بیانات سامنے آئے جس میں انھوں نے کہا کہ ناتھورام گوڈسے آخر تک آر ایس ایس سے وابستہ تھے۔ ان کے بیانات میں آر ایس ایس کی جانب سے ناتھورام گوڈسے سے دوری برقرار رکھنے پر آر ایس ایس سے ناراضگی بھی ظاہر کی گئی ہے۔

نیلنجن مکوپادھیائے کہتے ہیں: 'آر ایس ایس رکنیت پر مبنی تنظیم نہیں ہے۔ اس لیے اس میں شامل ہونے کے لیے کوئی اصول یا مستعفی ہونے کا کوئی عمل نہیں ہے۔'

گوڈسے آر ایس ایس میں تھا اور پھانسی سے پہلے اس نے آخری کام جو کیا وہ آر ایس ایس کی پرارتھنا پڑھنا تھا۔ آر ایس ایس سے ان کی وفاداری کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے؟

موجودہ وزیر داخلہ امت شاہ اور موجودہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت
Getty Images
موجودہ وزیر داخلہ امت شاہ اور موجودہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت

آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان کیا تعلق ہے؟

آر ایس ایس کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔

عام لوگوں میں ایک عام خیال ہے کہ پچھلے تین لوک سبھا انتخابات اور کئی اسمبلی انتخابات میں نچلی سطح کے آر ایس ایس کارکنوں کی موجودگی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو سیاسی فائدہ پہنچایا اور پارٹی کو انتخابات جیتنے اور حکومت بنانے کے قابل بنایا۔

سنگھ لیڈروں نے بارہا کہا ہے کہ وہ پارٹی سیاست میں شامل نہیں ہیں۔ لیکن یہ کوئی راز نہیں ہے کہ سنگھ سے وابستہ بہت سے لوگ اب بی جے پی میں ہیں اور سرگرم سیاست کا حصہ ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، وزیر زراعت شیوراج سنگھ چوہان، اور روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے وزیر نتن گڈکری ایسے چند رہنما ہیں جو طویل عرصے سے آر ایس ایس کا حصہ رہے ہیں۔

آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان قریبی تعلقات کی ایک جھلک 2015 میں اس وقت دیکھنے کو ملی جب مرکز میں بی جے پی کی حکومت کو ایک سال مکمل ہوا تھا۔

مودی حکومت کے اہم وزراء نے دہلی کے وسنت کنج میں لگاتار تین دن تک آر ایس ایس کی میٹنگ میں حصہ لیا اور اپنی اپنی وزارتوں کے کام کاج کے بارے میں تفصیلی معلومات دی۔

اس وقت شائع ہونے والی اطلاعات کے مطابق میٹنگ میں راجناتھ سنگھ، ارون جیٹلی، سشما سوراج، منوہر پاریکر اور جے پی نڈا جیسے سینئر لیڈروں نے شرکت کی۔

میٹنگ میں اس بات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا کہ کس طرح آر ایس ایس نے معیشت، تعلیم اور قومی سلامتی جیسے مسائل پر بی جے پی کو اسٹریٹجک مشورہ دیا تھا۔

تیسرے دن وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی میٹنگ میں شرکت کی۔ اس وقت میڈیا رپورٹس کے مطابق انھوں نے رضاکار ہونے پر فخر کا اظہار کیا تھا۔

اس تین روزہ پروگرام پر تنقید کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ جمہوری طریقے سے منتخب حکومتی وزراء اپنی کام کی رپورٹیں کسی غیر سرکاری ادارے کو کیسے پیش کر سکتے ہیں۔ ناقدین نے کہا کہ یہ ملک کے نظام، آئین اور قواعد کے مطابق غلط ہے۔

آر ایس ایس بھگوا پرچم کو اپنا پرچم مانتی ہے
Getty Images
آر ایس ایس بھگوا پرچم کو اپنا پرچم مانتی ہے

ہندوستانی پرچم اور آر ایس ایس کا تنازع کیا ہے؟

آر ایس ایس کے دوسرے سربراہ گولوالکر نے ہندوستانی ترنگے پرچم پر تنقید کی تھی۔

اپنی کتاب 'بنچ آف تھاٹس' میں وہ لکھتے ہیں: 'یہ پرچم کیسے وجود میں آیا؟ فرانسیسی انقلاب کے دوران فرانسیسیوں نے 'مساوات'، 'برادری' اور 'آزادی' کے تین نظریات کے اظہار کے لیے اپنے پرچم پر تین رنگ کی پٹیاں لگائیں۔

'ترنگے کی پٹیوں کی ہمارے آزادی پسندوں کو بھی ایک خاص اپیل تھی، اسی لیے کانگریس نے اسے اپنایا۔'

گولوالکر نے یہ بھی لکھا کہ ترنگا "ہماری قومی تاریخ اور ورثے پر مبنی کسی قومی نظریے یا سچائی سے متاثر نہیں۔'

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ میں بھگوا (زعفرانی) پرچم کو گرو کا درجہ دیا گیا ہے۔ موہن بھاگوت کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ بھگوا جھنڈا قدیم زمانے سے لے کر آج تک سنگھ کی وراثت کی علامت رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں: 'ہماری تاریخ کا جب بھی موضوع آتا ہے، ہمیشہ یہ ہمارا زعفرانی جھنڈا رہا ہے۔ آزاد ہندوستان کا جھنڈا کیسا ہونا چاہیے؟ اس سلسلے میں فلیگ کمیٹی نے جو رپورٹ دی تھی، اس میں یہ تجویز دی گئی تھی معروف اور قائم شدہ زعفرانی پرچم ہی ہونا چاہیے۔

بعد میں یہ بدل گیا، ترنگا جھنڈا آیا۔ یہ ہمارا قومی پرچم ہے۔ ہمیں بھی اس کا پورا احترام ہے۔'

آج آر ایس ایس قومی پرچم کا احترام کرنے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن آزادی سے پہلے اور بعد میں کئی دہائیوں تک ترنگے پر اس کی سوچ پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔

نیلنجن مکوپادھیائے کہتے ہیں: 'جب 1929 میں کانگریس کے لاہور اجلاس میں مکمل سوراجیہ کی بات ہوئی تو یہ طے پایا کہ 26 جنوری 1930 کو یوم آزادی کے طور پر منایا جائے گا اور ترنگا جھنڈا لہرایا جائے گا۔ اس دن بھی آر ایس ایس نے ترنگے کی بجائے بھگوا پرچم لہرایا تھا۔'

آر ایس ایس کو اقلیت مخالف سمجھا جاتا ہے
Getty Images
آر ایس ایس کو اقلیت مخالف سمجھا جاتا ہے

مسلمانوں اور مسیحیوں پر آر ایس ایس کا نظریہ

آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت نے مختلف مواقع پر کہا ہے کہ انڈیا میں رہنے والے تمام لوگ ہندو ہیں اور جو بھی ہندوستان کو اپنا گھر سمجھتا ہے وہ ہندو ہے، چاہے اس کا مذہب کوئی بھی ہو۔ اس کے علاوہ بھاگوت اکثر یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ہندوستان ایک ہندو قوم ہے۔

لیکن آر ایس ایس کے اقلیتی برادریوں بالخصوص مسلمانوں اور مسیحیوں کے تئیں رویہ پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔

اس مسئلے پر آر ایس ایس کی سوچ کی ایک جھلک آر ایس ایس کے دوسرے سربراہ مادھو سداشیو راؤ گولوالکر کی کتاب 'بنچ آف تھاٹس' میں دیکھی جا سکتی ہے۔

گولوالکر نے لکھا: 'ہر کوئی جانتا ہے کہ یہاں (ہندوستان میں) صرف مٹھی بھر مسلمان دشمن حملہ کرنے آئے تھے، اسی طرح کچھ غیر ملکی عیسائی مشنری بھی یہاں آئے تھے۔

'اب مسلمانوں اور مسیحیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ وہ صرف مچھلی کی طرح بڑھتے ہی نہیں تھے۔ انھوں نے مقامی لوگوں کو تبدیل کیا۔ ہم اپنے آباؤ اجداد کو ایک ہی طرح ڈھونڈ سکتے ہیں کہ ایک حصہ ہندو مذہب سے منہ موڑ کر مسلمان ہوا اور دوسرا حصہ عیسائی ہوگیا۔ باقی لوگ مذہب تبدیل نہیں کر سکے اور ہندو ہی رہے۔

اسی کتاب میں گولوالکر نے مسلمانوں، مسیحیوں اور کمیونسٹوں کو 'قوم کا اندرونی دشمن' قرار دیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.