113 برس قبل غرقاب ہونے والے بحری جہاز ٹائٹینک کے مکمل ڈیجیٹل سکین کے تفصیلی تجزیے سے اس کی تباہی سے قبل آخری چند گھنٹوں کے بارے میں نئی معلومات سامنے آئی ہیں۔
ڈیجیٹل سکین کے مطابق ٹائٹینک کا اگلا حصہ سمندر کی تہہ میں سیدھا پڑا ہے113 برس قبل غرقاب ہونے والے بحری جہاز ٹائٹینک کے مکمل ڈیجیٹل سکین کے تفصیلی تجزیے سے اس کی تباہی سے قبل آخری چند گھنٹوں کے بارے میں نئی معلومات سامنے آئی ہیں۔
جہاز کے سائز کے عین مطابق تیار کردہ تھری ڈی نقل دکھاتی ہے کہ 1912 میں ایک برفانی تودے سے ٹکرانے کے بعد جہاز کیسے دو ٹکڑے ہو کر ڈوبا تھا۔ اس حادثے میں ڈیڑھ ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
یہ سکین بوائلر روم کا ایک نیا منظر دکھاتا ہے، جو عینی شاہدین کے ان بیانات کی تصدیق کرتا ہے کہ انجینیئرز نے جہاز کی روشنیاں جلائے رکھنے کے لیے آخر تک کام کیا۔
اور ایک کمپیوٹر سمولیشن سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ٹائٹینک کے ڈھانچے میں کاغذ کے صفحے جتنے بڑے سوراخ جہاز کی تباہی کا باعث بنے۔
ٹائٹینک پر تحقیق کرنے والے تجزیہ کار پارکس سٹیفنسن کا کہنا ہے کہ ’ٹائٹینک اس تباہی کا آخری باقی رہ جانے والا عینی شاہد ہے اور اس کے پاس اب بھی سنانے کو مزید کہانیاں ہیں۔‘
ٹائٹینک کے ڈیجیٹل سکین کا مطالعہ نیشنل جیوگرافک اور اٹلانٹک پروڈکشنز کی طرف سے ایک نئی دستاویزی فلم کے لیے کیا گیا ہے جس کا عنوان’ٹائٹینک: دی ڈیجیٹل ریزیریکشن‘ ہے۔
بحری جہاز کے ڈھانچے سے ٹوٹ کر الگ ہونے والے عقبی حصے کو بہت زیادہ نقصان پہنچا تھابحرِاوقیانوس کے برفیلے پانیوں میں 3800 میٹر کی گہرائی میں موجود ٹائٹینک کے ملبے کو روبوٹس کی مدد سے سکین کیا گیا۔
اس دوران ہر زاویے سے لی گئی سات لاکھ سے زیادہ تصاویر کو جہاز کا ’ڈیجیٹل ٹوئن‘ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا، جسے 2023 میں بی بی سی نیوز نے خصوصی طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔
چونکہ جہاز کا ڈھانچہ بہت بڑا ہے اور تاریک گہرائیوں میں موجود ہے، اس لیے اسے آبدوزوں کی مدد سے کھوجنا کرنا صرف دلکش تصویریں ہی دکھا پاتا ہے تاہم یہ سکین ٹائٹینک کا پہلا مکمل نظارہ فراہم کرتا ہے۔
جہاز کا بڑا اگلا حصہ سمندر کے فرش پر سیدھا پڑا ہے جیسے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہو لیکن 600 میٹر کے فاصلے پر موجود عقبی حصہ ٹوٹی پھوٹی دھات کا ڈھیر ہے۔ اسے یہ نقصان اس وقت پہنچا تھا جب جہاز آدھا ٹوٹنے کے بعد سمندر کے فرش سے ٹکرایا تھا۔
ٹائٹینک کی ڈیجیٹل نقل کی ایک تصویر جس میں جہاز کے اگلے حصے میں چار پورٹ ہول دکھائے گئے ہیںنقشہ سازی کی نئی ٹیکنالوجی بحری جہاز کا جائزہ لینے کا ایک مختلف طریقہ فراہم کر رہی ہے۔
پارکس سٹیفنسن نے کہا کہ ’یہ ایک جرم کے مقام کی طرح ہے: آپ کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ثبوت کیا ہیں، اس تناظر میں کہ وہ کہاں موجود ہیں اور ملبے کے مقام کا ایک جامع جائزہ یہ سمجھنے کی چابی ہے کہ یہاں کیا ہوا تھا۔‘
اس سکین سے جو نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان میں ایک پورٹ ہول بھی شامل ہے جسے غالباً آئس برگ نے توڑ دیا تھا۔ یہ حادثے میں زندہ بچ جانے والوں کی فراہم کردہ ان تفصیلات سے مطابقت رکھتا ہے کہ تصادم کے دوران کچھ لوگوں کے کیبن میں برف داخل ہو گئی تھی۔
ایک بوائلر روم ٹائٹینک کے اگلے حصے کے عقب میں ہے جہاں سے جہاز دو حصوں میں تقسیم ہواماہرین ٹائٹینک کے ایک بڑے بوائلر روم کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ سکین پر اسے دیکھنا آسان ہے کیونکہ یہ اگلے حصے کے عقب میں اس مقام پر ہے جہاں جہاز دو حصوں میں ٹوٹا تھا۔
بحری جہاز کے مسافروں کا کہنا تھا کہ جہاز کی روشنیاں ڈوبتے وقت بھی جل رہی ہیں۔
ڈیجیٹل سکین سے پتا چلتا ہے کہ کچھ بوائلراندر کی جانب دبے ہوئے ہیں، جس سے لگتا ہے کہ وہ اس وقت بھی کام کر رہے تھے جب جہاز زیرِ آب آ چکا تھا۔
اگلے حصے کے عرشے پر پڑے ہوا ایک کھلا ہوا والو بھی دریافت ہوا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے نظام کے لیے بھاپ دستیاب تھی۔
پارکس سٹیفنسن کے مطابق یہ جوزف بیل کی قیادت میں کام کرنے والی انجینئرز کی ایک ٹیم کے مرہونِ منت تھا جو لائٹس روشن رکھنے کے لیے بھٹیوں میں کوئلہ ڈالنے کے لیے جہاز پر ہی موجود رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سب لوگ جہاز کے حادثے میں مر گئے لیکن ان کے بہادرانہ اقدامات نے بہت سی جانیں بچائیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انھوں نے روشنیوں اور بجلی کو آخری وقت تک کام کے قابل رکھا تاکہ عملے کو مکمل اندھیرے کی بجائے کچھ روشنی کے ساتھ لائف بوٹس کو محفوظ طریقے سے روانہ کرنے کا وقت مل سکے۔‘
’انھوں نے جتنا ممکن ہو سکا افراتفری پھیلنے کو روکا اور عرشے پر پڑا، کھلا ہوا سٹیم والو اس بات کی علامت ہے۔‘
تصویر کے درمیان میں ایک گول والو کھلی حالت میں دیکھا جا سکتا ہےایک نئی سمیولیشن سے جہاز کے ڈوبنے کے بارے میں مزید معلومات سامنے آئی ہیں۔
اس سمیولیشن میں ٹائٹینک کے بلیو پرنٹس کی مدد سے بنایا گیا جہاز کا ایک جامع ماڈل استعمال کیا گیا اور اس میں جہاز کی رفتار، سمت اور پوزیشن کے بارے میں بھی معلومات شامل کی گئی ہیں تاکہ برف کے تودے سے ٹکرانے سے ہونے والے نقصان کا اندازہ لگایا جا سکے۔
تحقیق کے قائد اور یونیورسٹی کالج لندن سے تعلق رکھنے والے پروفیسر جیوم پیک کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ٹائٹینک کے ڈوبنے کے عمل کو دوبارہ پیش کرنے کے لیے جدید عددی ایلگوردم، کمپیوٹیشنل ماڈلنگ اور سپر کمپیوٹنگ کی صلاحیتوں کا استعمال کیا۔‘
سمیولیشن سے پتا چلتا ہے کہ اگرچہ جہاز برفانی تودے سے معمولی سا ٹکرایا لیکن اس تصادم کے بعد اس کے ڈھانچے میں تودے سے رگڑنے کے نتیجے میں سلسلہ وار سوراخ ہوئے جو ڈھانچے کے نچلے حصے میں ایک قطار میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
سمیولیشن سے پتا چلتا ہے کہ اگرچہ جہاز برفانی تودے سے معمولی سا ٹکرایا لیکن اس تصادم کے بعد اس کے ڈھانچے میں تودے سے رگڑنے کے نتیجے میں سوراخ ہو گئےیہ خیال کیا جاتا تھا کہ ٹائٹینک ڈوب نہیں سکتا اور اسے چار واٹر ٹائٹ کمپارٹمنٹس میں پانی بھر جانے کی صورت میں بھی تیرتے رہنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
لیکن سمیولیشن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ برفانی تودے سے تصادم کے بعد جہاز کے چھ کمپارٹمنٹس کو نقصان پہنچا تھا۔
نیو کیسل یونیورسٹی میں بحریہ کے فن تعمیر کے ایک ایسوسی ایٹ لیکچرر سائمن بینسن نے بتایا کہ ’ٹائٹینک کے ڈوبنے اور نہ ڈوبنے کے درمیان فرق کاغذ کے ایک صفحے کے برابر حجم کے سوراخوں کا ہے۔‘
’مسئلہ یہ ہے کہ وہ چھوٹے سوراخ جہاز کی پورے ڈھانچے کی لمبائی میں موجود ہیں اس لیے سمندر کا پانی آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر ان تمام سوراخوں میں داخل ہوا اور پھر آخرکار کمپارٹمنٹ پانی سے بھرے اور ٹائٹینک ڈوب گیا۔‘
بدقسمتی سے سکین پر اس نقصان کو نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ جہاز کے اگلے حصے کا نچلا حصہ سمندر کے فرش پر موجود گارے کے نیچے دبا ہوا ہے۔
اس تھری ڈی سکین کے مکمل مطالعے میں کئی برس لگیں گےٹائی ٹینک کا انسانی المیہ اب بھی بہت زیادہ واضح ہے۔
جہاز کے مسافروں کے ذاتی اثاثے سمندر کے فرش پر بکھرے پڑے ہیں۔
ڈیجیٹل سکین 1912 کی اس سرد رات کے بارے میں نئے اشارے فراہم کر رہا ہے لیکن ماہرین کو تھری ڈی نقل کی ہر تفصیل کو مکمل طور پر جانچنے میں برسوں لگیں گے۔
پارکس سٹیفنسن نے کہا کہ ’وہ ہمیں ایک وقت میں صرف اپنی کچھ کہانیاں تھوڑی تھوڑی دے رہا ہے۔ ہر بار، وہ ہمیں مزید کی خواہش کے ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔‘