حضرت موسیٰ، فرعون کی شکست اور لاش محفوظ کیے جانے کا قصہ اسلام اور دیگر مذاہب میں

قرآن کی ’سورۃ القصص‘ میں ہے کہ ’فرعون نے سرکشی اختیار کر لی تھی۔ لوگوں کو اُس نے گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اُن میں سے ایک گروہ کو اُس نے سختی سے دبا رکھا تھا اور اُن کے بیٹوں کو وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ذبح کر چھوڑتا اور اُن کی عورتوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔‘
تصویر
Getty Images
دریائے نیل کے ملنے اور فرعون، اُس کے لشکر اور سازوسامان کی غرقابی کا تصویری خاکہ

جب حضرت موسیٰ کی پیدائش ہوئی تو مصر میں آباد اُن کی قوم، بنی اسرائیل، میں ہر پیدا ہونے والے لڑکے کو قتل کیا جا رہا تھا۔

’بنی اسرائیل‘ مصر میں حضرت یوسف کے زمانے سے رہ رہے تھے جہاں حضرت موسیٰ کی پیدائش کے زمانے میں قبطی نسل کے فراعین (فرعونوں) کی حکومت تھی۔

قرآن کی ’سورۃ القصص‘ میں ہے کہ ’فرعون نے سرکشی اختیار کر لی تھی۔ لوگوں کو اُس نے گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اُن میں سے ایک گروہ کو اُس نے سختی سے دبا رکھا تھا اور اُن کے بیٹوں کو وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ذبح کر چھوڑتا اور اُن کی عورتوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔‘

حضرت موسیٰ کا قصہ اسلام، یہودیت اور مسیحیت میں یکساں بنیادی ڈھانچے پر مبنی ہے۔

بائبل کی ’کتاب خروج‘ سے پتا چلتا ہے کہ بنی اسرائیل سے بیگار لی جاتی رہی اور انھوں نے فرعون کے لیے ذخیرے کے شہر ’پتوم‘ اور ’غمیس‘ تعمیر کیے۔

پھر (قبطی قوم کے ایک) فرعون نے پہلے دائیوں کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دیں اور پھر قبطیوں کو عام حکم دیا کہ جہاں دیکھیں کہ بنی اسرائیل کے ہاں کوئی بیٹا پیدا ہوا ہے اُسے اٹھائیں اور دریا میں پھینک دیں۔ ’اور اگر بیٹی ہو تو وہ جیتی رہے۔‘

یہودی تعلیمات اور روایات کے مجموعے ’تلمود‘ سے علم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف کی وفات کے ایک صدی سے زائد مدت کے بعد نئی قوم پرست حکومت نے پہلے تو بنی اسرائیل سے اُن کی زمینیں، اُن کے مکانات اور جائدادیں چھینیں۔ پھر انھیں حکومت کے تمام عہدوں سے ہٹایا، اس کے بعد بھی جب قبطی حکمرانوں نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل اور اُن کے ہم مذہب مصری کافی طاقتور ہیں تو انھوں نے اسرائیلیوں کو ذلیل و خوار کرنا شروع کیا اور ان سے سخت محنت کے کام بہت کم معاوضے پر یا بلا معاوضہ لینے لگے۔

’تلمود‘ اور دوسری اسرائیلی روایات میں ہے کہ فرعون سے کسی نجومی نے یہ کہا تھا کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ایک لڑکے کے ہاتھوں اُس کا تختہ الٹ جائے گا اور اسی خطرے کو روکنے کے لیے فرعون نے بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔

تصویر
Getty Images
الہامی کتب میں مصر کے حاکم اُس فرعون کا نام موجود نہیں جو حضرت موسیٰ کا ہم عصر تھا۔ رعمسيس (رمسیس) دوم نامی فرعون کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ کا ہم عصر تھا، تاہم اس کی تصدیق ہونا باقی ہے

حضرت موسیٰ کی پیدائش اور دریا میں ڈالنے کا واقعہ

بہرحال ’بائبل‘ اور ’تلمود‘ کے مطابق حضرت یعقوب کے بیٹے ’لاوی‘ کی اولاد میں سے عمرام ( قرآن اسی کا تلفظ عمران کرتا ہے) کے ہاں حضرت موسیٰ کی پیدائش ہوئی۔

اُن سے پہلے اُن کی ایک بیٹی مریم اور ایک بیٹے ہارون تھے۔ ہارون اُس زمانے میں پیدا ہوئے ہوں گے جب نوزائیدہ لڑکوں کے قتل کا حکم نہیں ہوا تھا۔

قرآن میں ہے کہ ’ہم نے موسیٰ کی ماں کو (اِسی بنا پر) وحی کی کہ ابھی اِسے دودھ پلاؤ، پھر جب اِس کی نسبت تمھیں (جان کا) خطرہ ہو تو اِسے دریا میں ڈال دینا اور کوئی اندیشہ اور غم نہ کرنا۔ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اِس کو ہم واپس تمھارے پاس پہنچا دیں گے اور اِسے پیغمبروں میں سے (ایک پیغمبر) بنائیں گے۔‘

بائبل کا بیان ہے کہ پیدائش کے بعد تین مہینے تک حضرت موسیٰ کی والدہ اُن کو چھپائے رہیں۔

قرآن کی ’سورة طہ‘ میں ہے کہ اللہ کی جانب سے ارشاد ہوا کہ ’بچے کو ایک تابوب میں رکھ کر دریا میں ڈال دے۔‘ بائبل اور تلمود کا بیان ہے کہ حضرت موسیٰ کی والدہ نے سرکنڈوں کا ایک ٹوکرا بنایا اور اسے چکنی مٹی اور رال سے لیپ کر پانی سے محفوظ کر دیا اور پھر اس میں حضرت موسیٰ کو لٹا کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔

والدہ نے پالا پوسا

دریائے نیل بنی اسرائیل کی بستیوں سے گزرتا ہوا شاہی محلات کی طرف جاتا تھا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ جس ٹوکرے میں تھے، اُسے خود بادشاہ اور ملکہ نے یا اُن کے خدام نے دیکھا اور دریا سے نکال لیا۔

قرآن میں ہے کہ ’فرعون کی بیوی نے (بچے کو دیکھا تو فرعون سے) کہا: یہ تو میری اور تمھاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، تم لوگ اِسے قتل نہ کرو۔ کیا عجب کہ یہ ہمیں نفع پہنچائے یا ہم اِسے بیٹا ہی بنا لیں۔‘

بائبل اور تلمود کا بیان ہے کہ جس خاتون نے حضرت موسیٰ کو پالنے اور بیٹا بنانے کے لیے کہا تھا وہ فرعون کی بیٹی تھیں۔ لیکن قرآن اسے ’امرأۃ فرعون‘ (فرعون کی بیوی) کہتا ہے۔

قرآن میں ہے کہ ’اُدھر موسیٰ کی ماں کا دل بالکل بے قرار ہو گیا۔ اگر ہم اُس کے دل کو نہ سنبھالتے کہ اُس کو ہمارے وعدے کا یقین رہے تو وہ اُس کا راز فاش کر بیٹھتی۔ اور (اِسی بے قراری میں) اُس نے بچے کی بہن سے کہا کہ اُس کے پیچھے پیچھے جائے۔ چنانچہ وہ (اجنبی بن کر) اُس کو دور سے دیکھتی رہی اور فرعون کے لوگوں کو اِس کی کچھ خبر نہ ہوئی۔‘

اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت موسیٰ کی یہ بہن اس وقت دس، بارہ برس کی تھیں۔ انھوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ بھائی کا پیچھا کیا اور یہ پتا چلا لیا کہ وہ فرعون کے محل میں پہنچ چکا ہے۔

قرآن میں ہے کہ ’اور اِدھر دودھ پلائیوں کے دودھ سے ہم نے موسیٰ کو پہلے ہی روک رکھا تھا۔‘

یعنی فرعون کی بیوی جس انا کو بھی دودھ پلانے کے لیے بلاتی تھیں، بچہ اُس سے دودھ نہیں پیتا تھا۔

قرآن میں ہے کہ ’چنانچہ (موسیٰ کی بہن وہاں پہنچی اور یہ دیکھا تو) اُس نے اُن سے کہا: تم لوگ کہو تو میں تمھیں ایک گھرانے کا پتا بتاؤں جو تم لوگوں کی خاطر اِسے پالیں گے اور بڑی خیر خواہی سے اِس کی دیکھ بھال کریں گے؟‘

’اِس طرح موسیٰ کو ہم نے اُس کی ماں کی طرف لوٹا دیا کہ اُس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ آزردہ خاطر نہ ہو اور اِس لیے کہ وہ اچھی طرح جان لے کہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے۔‘

تصویر
Getty Images
فرعون کے دربار کا تصوراتی خاکہ

شاہی پرورش

’بائبل‘ اور ’تلمود‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا نام ’موسیٰ‘ فرعون کے ہاں رکھا گیا تھا۔ یہ عبرانی زبان کا نہیں بلکہ قبطی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں ’پانی سے بچایا گیا۔‘ قدیم مصری زبان سے یہی علم ہوتا ہے۔ اِس زبان میں ’مو‘ پانی کو کہتے تھے اور ’اوشے‘ کا مطلب تھا ’بچایا ہوا۔‘

قرآن میں ہے کہ ’(فرعون کے زیر سایہ پرورش پا کر یہی) موسیٰ جب اپنی جوانی کو پہنچا اور ہر لحاظ سے پختہ ہو گیا تو ہم نے اُسے علم و حکمت سے نوازا۔ اچھے لوگوں کو ہم اِسی طرح صلہ دیتے ہیں۔‘

بائبل کی ’کتاب الاعمال‘ میں بتایا گیا ہے کہ ’موسیٰ نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور وہ کام اور کلام میں قوت والا تھا۔‘

’تلمود‘ کا بیان ہے کہ موسیٰ اکثر جشن کے علاقے میں جاتے جہاں اسرائیلیوں کی بستیاں تھیں، اور ان تمام سختیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے جو اُن کی قوم کے ساتھ قبطی حکومت کے ملازمین کرتے تھے، انھی کی کوشش سے فرعون نے اسرائیلیوں کے لیے ہفتہ میں ایک دن کی چھٹی مقرر کی۔

’انھوں نے فرعون سے کہا کہ مسلسل کام کی وجہ سے یہ لوگ (بنی اسرائیل) کمزور ہو جائیں گے اور حکومت ہی کے کام کا نقصان ہو گا۔ اُن کی قوت بحال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں ہفتے میں ایک دن آرام کا دیا جائے۔ اسی طرح اپنی دانائی سے انھوں نے اور بہت سے ایسے کام کیے جن کی وجہ سے مصر میں اُن کی شہرت ہو گئی تھی۔‘

مصر سے مدین کا سفر اور شادی

قرآن میں ہے کہ حضرت موسیٰ نے ایک روز ایک اسرائیلی اور ایک قبطی کی لڑائی میں قبطی کو گھونسا رسید کیا تو بے ارادہ اُس کی جان چلی گئی۔ ’موسیٰ نے فوراً معافی مانگی: اے رب! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، مجھے بخش دے۔‘

بائبل کا بیان قرآن سے متفق ہے، اپنی جان بچانے کو حضرت موسیٰ نے مصر سے نکل کر مدین کا رُخ کیا تھا۔ لیکن تلمود حضرت موسیٰ کے بھاگ کر حبش جانے کا بتاتی ہے۔

مدیَن فرعون کی سلطنت سے باہر قریب ترین آزاد اور آباد علاقہ تھا ۔ آج کل اسے ’البدع‘ کہتے ہیں۔

قرآن سے پتا چلتا ہے کہ موسیٰ مدین پہنچے، وہاں ایک کنویں پر دو لڑکیوں کی جانوروں کو پانی پلانے میں مدد کی جن کے والد بوڑھے تھے۔ پھر ایک لڑکی نے اُن کی اپنے والد سے ملاقات کروائی۔ یہیں حضرت موسیٰ کا نکاح ہوا اور انھوں نے آٹھ یا دس سال مزدوری کی۔

’خروج‘ میں ہے کہ ’موسیٰ مدین گیا، کنویں پر لڑکیوں کو چرواہوں سے بچایا۔ لڑکیاں اپنے والد ’رعوئیل یا یترو‘ کے پاس لے گئیں، اُس نے موسیٰ کو گھر بلایا اور ’صفورہ‘ سے شادی کر دی۔ مگر اس میں حضرت موسیٰ کی مزدوری کا ذکر نہیں ہے۔

اللہ سے ہم کلامی

تصویر
Getty Images

قرآن میں ہے کہ حضرت موسیٰ مدت پوری کرنے کے بعد اپنے اہل و عیال کو لے کر مدین سے روانہ ہوئے اور اس سفر میں اللہ تعالیٰ سے گفت گو اور منصبِ نبوت پر تقرر ہوا۔

’پھر جب موسیٰ وہاں پہنچا تو وادی ایمن کے کنارے سے، اُس مبارک خطے میں، اُس کو درخت سے آواز آئی کہ اے موسیٰ، میں ہوں اللہ، جہانوں کا پروردگار۔‘

’اور یہ بھی کہ اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دو۔ پھر جب موسیٰ نے دیکھا کہ لاٹھی بل کھا رہی ہے، گویا کہ سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور اُس نے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ فرمایا: موسیٰ، آگے آؤ اور ڈرو نہیں، تم بالکل مامون ہو۔‘

’اپنا ہاتھ ذرا اپنے گریبان میں ڈالو، وہ بغیر کسی مرض کے سفید (چمکتا ہوا) نکلے گا اور اِس کے لیے اپنا بازو اپنی طرف سکیڑ لو، جس طرح خوف سے سکیڑتے ہیں۔ سو تیرے پروردگار کی طرف سے فرعون اور اُس کے درباریوں کے پاس جانے کے لیے یہ دو نشانیاں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں۔‘

بائبل (کتاب خروج) کا بیان ہے کہ حضرت موسیٰ اپنے خسر کی بکریاں چراتے ہوئے بیابان کے پرلی طرف سے خدا کے پہاڑ ’حورب‘ کے نزدیک آ نکلے تھے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے اُن سے کلام کیا اور انھیں رسالت کے منصب پر مامور کر کے مصر جانے کا حکم دیا۔ پھر وہ اپنے خسر کے پاس واپس آ گئے اور ان سے اجازت لے کر اپنے بچوں کے ساتھ مصر روانہ ہوئے۔

بائبل اور تلمود دونوں کا بیان ہے کہ تب پچھلے فرعون کی موت کے بعد ایک دوسرا فرعون مصر میں حکمران تھا۔

قرآن میں ہے کہ ’پھر جب موسیٰ ہماری اِن واضح نشانیوں کے ساتھ اُن کے پاس آیا تو اُنھوں نے کہہ دیا کہ یہ تو محض گھڑا ہوا جادو ہے اور اِس طرح کی بات ہم نے اپنے اگلے باپ دادوں میں تو کبھی سُنی ہی نہیں۔‘

’فرعون نے کہا: دربار کے لوگو، میں تو اپنے سوا تمھارے لیے کسی اور معبود سے واقف نہیں ہوں۔ اچھا تو اے ہامان، تم میرے لیے مٹی کی اینٹوں کا پزاوہ لگواؤ اور ایک اونچا محل میرے لیے بنواؤ تاکہ موسیٰ کے خدا کو میں (آسمان میں) جھانک کر دیکھوں، اور میں تو اِسے ایک جھوٹا آدمی سمجھتا ہوں۔‘

’فرعون اور اُس کے لشکروں نے زمین میں ناحق گھمنڈ کیا اور خیال کیا کہ وہ ہماری طرف نہیں لوٹائے جائیں گے۔‘

تصویر
Getty Images
مصر میں پائے جانے والے فرعون کے محل کے کھنڈرات

دریا کا شگاف اور فرعون کا غرق ہونا

ڈیلس میں غامدی سینٹر آف اسلامک لرننگ سے منسلک محقق نعیم بلوچ کے مطابق حضرت موسیٰ کی داستان کا وہ حصہ جو بائبل (عہد نامہ قدیم) اور تلمود میں بیان ہوا ہے وہ زمانی ترتیب سے ہے لیکن قرآن میں یہ واقعہ سورہ القصص، سورہ الاعراف، سورہ طہ، سورہ الشعراء اور سورہ الزخرف میں بیان ہوا ہے اور یہ زمانی ترتیب سے نہیں بلکہ پیغمبر اسلام کی دعوت کی مناسبت سے مختلف ادوار کے واقعات پر مشتمل ہے۔

انھوں نے کہا کہ البتہ مجموعی لحاظ سے قرآن اور بائبلکے بیان میں کوئی اصولی اور بنیادی فرق نہیں جزوی اختلافاتضرور ہیں۔ ان تمام واقعات کا خلاصہ اگر کیا جائے تو کچھ یوں ہے کہ جب حضرت موسیٰ مدین میں کئی سال گزارنے کے بعد کوہِ طور پر اللہ کی تجلی کے ذریعے سےرسول مقرر کیے گئے تو انھیں حکم ہوا کہ مصر جا کر فرعون کو اللہ کا پیغام پہنچائیں اور بنی اسرائیل کو غلامی سے نجات دلائیں۔

بائبل اور قرآن، دونوں کے مطابق، حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی حضرت ہارون کو ساتھ لیا اور فرعون کے دربار میں چلے گئے۔

بائبل کی کتاب ’خروج‘ میں فرعون اور موسیٰ کے درمیان ہونے والا مکالمہ یوں ہے: ’خداوند، عبرانیوں کا خدا، کہتا ہے: میرے لوگوں کو جانے دو تاکہ وہ بیابان میں میری عبادت کریں۔‘

’فرعون نے انکار کر دیا اور کہا: میں خداوند کو نہیں جانتا، اور نہ بنی اسرائیل کو جانے دوں گا۔‘

قرآن میں بھی سورہ القصص میں اِسی مفہوم کے جملے ہیں۔

حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے فرعون کے سامنے اللہ کے حکم سے کئی معجزات دکھائے، جن میں لاٹھی کا اژدھا بننا، ہاتھ کا روشن ہونا، اور مصر پر مختلف قسم کے عذاب نازل ہونا شامل تھا۔۔۔جیسے خون، مینڈک، جوئیں، مکھیوں کے غول، مویشیوں کی موت، پھوڑے، اولے، ٹڈیاں، اندھیرا، اور آخر میں پہلوٹھے بیٹوں کی موت۔

قرآن میں ان آفات کا خلاصہ سورہ الاعراف کی آیات 131 تا 136 میں بیان ہوا ہے۔

البتہ بائبل میں مذکور ہے کہ آخرکار جب پہلوٹھے بیٹوں کی موت کا عذاب آیا تو فرعون خوفزدہ ہو گیا اور حضرت موسیٰ سے کہا کہ وہ اپنی قوم کو لے کر مصر سے چلے جائیں۔قرآن کے مطابق فرعون اور اس کی قوم نے بنی اسرائیل اور حضرت موسیٰ سے جان چھڑانے ہی کو بہتر جانا۔

حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے اور بیابان کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس موقع پر بائبل میں مذکور ہے، اور تفسیری روایت سے بھی اسی کی تصدیق ہوتی ہے، کہ کچھ وقت بعد، فرعون کو اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہوا اور اس نے اپنی فوج کے ساتھ حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کا پیچھا کیا۔

بائبل کے مطابق، جب وہ بحرِ قلزم (Red Sea) کے کنارے پہنچے تو حضرت موسیٰ نے اللہ کے حکم سے اپنا عصا سمندر پر مارا، اور سمندر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور بنی اسرائیل خشک راستے سے پار ہو گئے۔ یہی بیان قرآن میں ہے۔

فرعون اور اس کی فوج بھی اُن کے پیچھے سمندر میں داخل ہوئے، لیکن جب بنی اسرائیل نکل چکے تو پانی دوبارہ مل گیا اور فرعون اپنی پوری فوج سمیت غرق ہو گیا۔

خروج کے مطابق ’پانی واپس آ گیا اور فرعون کی ساری فوج، رتھوں اور سواروں کو ڈھانپ لیا۔ ان میں سے کوئی بھی نہ بچ سکا۔‘

تلمود میں اس واقعے کو تھوڑی مزید تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

قرآن سے علم ہوتا ہے کہ سمندر میں راستہ بنایا گیا اور فرعون غرق ہوا۔

قرآن کی سورہ القصص میں ہے کہ ’آخر اُسے اور اُس کے لشکروں کو ہم نے پکڑا، پھر اُنھیں سمندر میں پھینک دیا تو دیکھ لو کہ اِن ظالموں کا انجام کیسا ہوا۔‘

اور اللہ نے اس کا جسم محفوظ رکھا۔

سورہ یونس میں ہے کہ ’(اے فرعون) سو آج ہم تیرے (بے جان) جسم کو بچا لیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے (عبرت کا) نشان ہو سکے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.