متعدد والدین کی طرح کیرس ہارڈنگ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے بعد زیادہ وقت اپنے گھر کی صفائی پر خرچ کرتی ہیں۔ وہ ایسا کرتے ہوئے پیسہ بھی بنا رہی ہیں مگر کیسے؟
کیرس ہارڈنگمتعدد والدین کی طرح کیرس ہارڈنگ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے بعد زیادہ وقت اپنے گھر کی صفائی پر لگاتی ہیں۔
مگر بہت سے لوگوں کے برعکس 27 برس کی تین بچوں کی اس ماں کو اپنے گھر کی صفائی ستھرائی کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر ری سیٹ کے عنوان سے چلنے والے ٹرینڈ میں آن لائن ہزاروں لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
ٹک ٹاک اور انسٹا گرام پر ایک لاکھ فالوورز کے ساتھ کیرس اس وقت فل ٹائم انفلوئنسر بن چکی ہیں جو اپنے معمول کے روزمرہ کے کام کی بنیاد پر سوشل میڈیا سے پیسے کما رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان کے زندگی کے معمولات میں لوگوں کی اس قدر دلچسپی ہوگی۔
سنہ 2022 میں جب کیرس کے ہاں دوسرے بچے کا جنم ہوا تو انھوں نے یہ سوچا کہ اب زندگی میں انھیں کچھ اور بھی کرنے کی ضرورت ہے اور یوں انھوں نے اپنے معمولات میں ’ایوننگ ری سیٹ‘ کا مشغلہ شامل کر لیا۔
انھوں نے کہا کہ ہر روز انھیں ’ری سیٹ‘ کے لیے 20 منٹ درکار ہوتے ہیں، جس دوران وہ گھر کی خوب صفائی کرتی ہیں، فرش دھوتی ہیں، چیزوں کو اٹھا کر ادھر ادھر رکھتی ہیں۔ اور جب بچے سونے کے لیے اپنے بستر پر چلے جاتے ہیں تو پھر وہ اگلے دن کی تیاری شروع کر دیتی ہیں۔
وہ ویڈیوز کو مختصر ریل کی صورت میں ایڈیٹنگ کرنے سے پہلے خود فلم بناتی ہیں اور پھر وہ انھیں سوشل میڈیا پر شیئر کر دیتی ہیں۔
کیرس کا کہنا ہے کہ جو چیزیں ان کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہیں وہ ان کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے میں لطف محسوس کرتی ہیں کیونکہ بطور ماں یہ سب کچھ بہت مشکل ہے۔
ان کے مطابق آپ کے پاس کرنے کو بہت کچھ ہوتا ہے مگر بس آپ کو اس طرف کچھ دھیان دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کیرس کا کہنا ہے کہ کسی چیز کو دیکھنے والوں کے لیے متعلقہ بنانا سب سے اہم ہے۔ ان کے مطابق ان کا ارادہ کبھی بھی دوسروں کو ’کسی شخص سے کم تر‘ کا احساس دلانا نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں کبھی نہیں چاہتی کہ لوگوں کو لگے میں اپنے گھر کو کسی اور وجہ سے صاف رکھنا چاہتی ہوں بجائے اس کے کہ اس سے میری زندگی آسان ہوتی ہے۔‘
’ہاں، میری باتوں سے حوصلہ لیں اور خود کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ لیکن اگر میرا مواد دیکھ کر آپ کو اپنے بارے میں برا محسوس ہو تو بہتر ہے کہ آپ اسے دیکھنا چھوڑ دیں۔‘
ایمن فورڈ سے تعلق رکھنے والی ان کی ساتھی انفلوئنسر ایملی جونز (جن کے 13 ہزار سے زیادہ انسٹاگرام فالوورز ہیں) کا کہنا ہے کہ انھوں نے صفائی کرتے ہوئے وقت بچانے سے متعلق جو گر بتائے ان میں وہ سو فیصد درست معلومات دے رہی تھیں۔
دو بچوں کی ماں اور 32 برس کی ایمن کے مطابق گھر کی صفائی ستھرائی میں روزانہ ہی اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
’میں کوشش کرتی ہوں کہ جب بچے کی نیند کا وقت ہو اور میرے پاس آدھا یا ایک گھنٹہ ہو تو میں سوچتی ہوں چلو، آدھا گھنٹہ ہی سہی کچھ کر لیتی ہوں۔ کیونکہ میرے لیے یہی حقیقت ہے، اور یہی طریقہ قابلِ عمل بھی ہے۔‘
ان کے مطابق آپ پورا دن تو صفائی میں نہیں لگا سکتے اور یہ ناممکن بھی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں ایک ماں بھی ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ میں کام کرنے کی بھی کوشش کرتی ہوں۔ میرے دو بچے ہیں۔ اور مجھے بھی باقی ماؤں جیسی صورتحال کا سامنا رہتا ہے۔‘
انسٹاگرام پر ’کلیننگ‘ اور ’ری سیٹ‘ کے ہیش ٹیگ میں بالترتیب 11 ملین اور دو اعشاریہ چھ ملین تک پوسٹ شیئر کی جاتی ہیں۔
انسٹاگرام، ٹک ٹاک، فیس بک اور یوٹیوب پر دو ملین فالوورز رکھے والی ہرٹفورڈشائر کی 30 برس کی رو ڈے برطانیہ میں ایک بہت نامی گرامی ’کلیننگ‘ (صفائی ستھرائی کی ویڈیو شیئر کرنے) والی انفلوئنسر ہیں۔
وہ ایسی ویڈیوز شیئر کرتی ہیں جن میں وہ دکھاتی ہیں کہ ایک گھنٹے میں کیسے صفائی مکمل کی جا سکتی ہے۔ وہ اپنے لیے 60 منٹ کا ٹائمر لگاتی ہیں اور پھر وہ ایک گھنٹے کے دوران جتنا ممکن ہے صفائی کرتی ہیں۔
رو کا کہنا ہے کہ ’حقیقی طور پر میں صفائی کے لیے کم سے کم وقت صرف کرنا چاہتی ہوں، اور مجھے لگتا ہے کہ لوگ بھی ایسا ہی سوچتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر زیادہ تر صفائی سے متعلق مواد خواتین کی طرف سے شیئر کیا جاتا ہے مگر اب مرد انفلوئنسر بھی اس طرف آ رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ یہ کوئی بہت بڑی بات ہے کہ میں یہ ساری صفائی کر رہی ہوں۔‘
’بس ایسا ہے کہ ہمارے گھر میں کام کی تقسیم کچھ اس طرح ہوئی ہے کہ صفائی کا تھوڑا زیادہ حصہ میں سنبھالتی ہوں کیونکہ میں سارا دن 9 سے 5 کی نوکری پر نہیں ہوتی۔‘
ان کے مطابق ’اگر جنس کی بات کی جائے تو یہ محض صرف خواتین ہی نہیں ہیں جو ایسا کر رہی ہیں۔‘
ان کے مطابق اب سوشل میڈیا پر بہت سے مرد بھی یہی کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اب بہت سارے مرد بھی مواد تخلیق کرتے ہیں جسے میں دیکھ رہی ہوتی ہوں۔ ان کے مطابق جب میں کسی مرد کو ’ری سیٹ‘ کی ویڈیو میں دیکھتی ہوں تو پھر انھیں دیکھتی رہ جاتی ہوں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ابھی تک اس شعبے میں خواتین ہی زیادہ ہیں۔ مگر اب بہت سے مرد بھی اس طرف رخ کر رہے ہیں۔
گھر کی صفائی بھی اور معاوضہ بھی
لندن کی سٹی سینٹ جارج یونیورسٹی میں سوشیالوجی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سٹیفنی ایلس بیکر کہتی ہیں کہ صفائی کا کام خواتین کے لیے ہی مخصوص سمجھا جاتا تھا۔
ان کے مطابق اب صفائی کے کام کی بنیاد پر سوشل میڈیا کے لیے مواد کی تیاری کنٹرول کا احساس بھی دلاتی ہے۔
جس کام کے لیے عام طور پر کچھ بھی معاوضہ نہیں ملتا تھا اب وہیکام ان کی آمدن کا ذریعہ بھی بن گیا ہے۔
ڈاکٹر بیکر کہتی ہیں کہ اب لائف سٹائل سے متعلق مواد مقبولیت حاصل کر رہا ہے تاہم اس طرح کے مواد میں لوگوں کی دلچسپی کوئی نئی بات نہیں ہے۔
ان کی رائے میں اس طرح کا مواد سوشل میڈیا سے قبل بھی پایا جاتا تھا مگر اب فرق یہ ہے کہ سوشل میڈیا اسے مزید قابل رسائی بنا رہا ہے۔
ان کے مطابق صفائی کا کام دیکھنے وال ناظرین اور ذرائع بدل گئے ہیں مگر اپنی اصلاح اور مزید بہتری کی فکر نسلوں سے چلی آ رہی ہے۔
سوئنزی یونیورسٹی کی ماہر نفسیات ڈاکٹر کیری براڈشا کہتی ہیں کہ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ لوگوں کو 60 سیکنڈ والی صفائی کی ویڈیو سے جھانسہ دیا جا سکتا ہے جبکہ حقیقت کی دنیا میں یہ کام گھنٹوں لے سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ہم آسانی سے اس بات کے جھانسے میں آ سکتے ہیں کہ ہمیں بھی ان لوگوں کی طرح ہونا چائیے جنھیں ہم ویڈیوز میں دیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر کیری براڈشا کہتی ہیں کہ وہ سمجھ سکتی ہیں کہ صفائی سے متعلق ویڈیو دیکھنے کا کیا چسکا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق صفائی کے ذریعے آپ کچھ حل طلب مسائل کا حل نکالتے ہیں اور یہ سب کچھ بہت جلدی جلدی میں ہو رہا ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ دماغی تسکین کا ایک ذریعہ بھی ہے۔