پنجابی زبان کے معروف شاعر سید فضل شاہ نے اپنی تصنیف سوہنی ماہیوال میں حسن و جمال کی پیکر سوہنی کو محبت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والی دوشیزہ کے طور پر بیان کیا ہے۔افسانوی حیثیت کی حامل سوہنی کے کردار کو اکثر ایک بہادر محبوبہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو ماہیوال کے لیے معاشرے کو چیلنج کرتی ہے۔
پنجابی زبان کے معروف شاعر سید فضل شاہ نے اپنی تصنیف سوہنی ماہیوال میں حسن و جمال کی پیکر سوہنی کو محبت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والی دوشیزہ کے طور پر بیان کیا ہے۔افسانوی حیثیت کی حامل سوہنی کے کردار کو اکثر ایک بہادر محبوبہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو ماہیوال کے لیے معاشرے کو چیلنج کرتی ہے۔
دنیا بھر میں محبت کی کہانیوں کی طرح سوہنی ماہیوال کی کہانی کو بھی کچھ لوگ سچی کہانی جانتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اسے خیالی تصور کرتے ہیں۔
بہر حال سوہنی ماہیوال کی محبت کی کہانی ہماری دیسی زبانوں (اردو، ہندی، پنجابی) کے ادب میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ یہ کردار اور کہانی ہمیں انسانی زندگی کے بہت سے اسرار سے روشناس کراتی ہے۔
ہیر رانجھا، رومیو جولیٹ اور لیلی مجنوں کی داستانوں کی طرح یہ کہانی بھی قرون وسطیٰ کی ہے۔
انڈیا کی پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ پنجابی کے ریٹائرڈ پروفیسر اور لوک کہانیوں میں دلچسپی رکھنے والے محقق پروفیسر سکھ دیو سنگھ سرسا کہتے ہیں کہ ہمیں سترھویں صدی تک سوہنی کے بارے میں کوئی کہانی نہیں ملتی ہے۔
سوہنی کی کہانیاں اٹھارویں صدی میں سامنے آنے لگیں۔ یہ لوک کہانی پہلے لوگوں کے ذہنوں میں تھی۔
رقص کے ذریعے کہانیاں پیش کرنے کے ماہر اور تھیٹر کے فنکار ڈاکٹر نریندر نندی جنھوں نے اپنی تحقیق میں سٹیج پر پیش کی جانے والی کہانیوں کے موضوع پر تحقیق کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس سے قبل بھانڈ اور مراسی اس کہانی کو اپنے اپنے انداز میں پیش کرتے تھے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ اس افسانے نے اٹھارویں صدی میں مستقل کہانی کا روپ دھار لیا۔
پروفیسر سرِسا کہتے ہیں کہ خوبصورت سوہنی کے بارے میں سو سے زیادہ ادیبوں نے کہانیاں یا نظمیں لکھی ہیں۔ سوہنی ماہیوال کے متعلق پہلی کہانی حافظ برخوردار کی کہانی سمجھی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ ’سوہنی‘ کی داستان لکھنے والے اہم کہانی نویسوں میں ہاشم شاہ، احمد یار، قادر یار، میاں محمد بخش، محمد بوٹا گجراتی کے نام بھی نمایاں ہیں۔
ان سب میں فضل شاہ کی ’سوہنی‘ نے سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے اور یہ ان کی شاہکار تخلیق سمجھی جاتی ہے۔
پروفیسر سرسا نے مان داس نامی ایک سنت کی لکھی ہوئی سوہنی ماہیوال کی کہانی کا بھی ذکر کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سنہ 1898 کی اپنی تصنیف میں کہانی کار سادھو مان داس نے فیروز پور ضلع میں گاؤں داؤدھر کا بھی ذکر کیا ہے۔ انھوں نے سوہنی ماہیوال کی کہانی کو روح اور خدا کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ کہانی کو پڑھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ مصنف کوئی عالم دین ہے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ سوہنی کی کہانی پنجابی کے علاوہ اردو اور فارسی زبانوں میں بھی لکھی گئی ہیں۔
’یہ بات قابل ذکر ہے کہ سوہنی ماہیوال کی کہانی زیادہ تر مسلمان کہانی نویسوں نے لکھیں، ہندو مصنفوں کی تحریریں بھی موجود ہیں، اور ایک سکھ مصنف نے بھی سوہنی ماہیوال کی محبت کے بارے میں لکھا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’نامور ادیبوں میں سے ایک مصنف سندر سنگھ نامدھاری بھی شامل ہیں۔ بہت سے سادھو سنتوں نے اس کہانی کو بیان کیا ہے۔ تاہم یہ بھی خیال رہے کہ کسی خاتون مصنف نے اس کے متعلق کوئی تحریر نہیں چھوڑی ہے۔‘
ہر مصنف کا بیان کرنے کا انداز مختلف ہے، اس لیے مختلف مصنفین کی لکھی ہوئی سوہنی مہیوال کی کہانیوں میں معمولی فرق ہے۔
بنیادی طور پر سوہنی کی داستان میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ بہت سے واقعات کو مختلف حوالوں سے پیش کیا جاتا ہے، لیکن کہانی کا محور مجموعی طور پر مروجہ ہے۔
سوہنی ماہیوال کی کہانی کیا تھی؟
سوہنی ماہیوال کی کہانی پاکستان میں آنے والے علاقے گجرات کی کہانی ہے۔ سوہنی کے والد کا نام تولہ تھا جو ایک مشہور کمہار تھے۔ غیر ملکی تاجر اکثر ان کے ہاں مٹی کے برتن خریدنے آتے تھے۔
پروفیسر سرسا کہتے ہیں کہ ’عام یہ بات ہے کہ سوہنی کے والد ایک کمہار تھے، لیکن درحقیقت وہ مٹی کے برتنوں کے ایک بڑے تاجر تھے جن کے پاس بڑے بڑے تاجر آتے تھے۔ اور اس طرح سوہنی ایک امیر گھرانے کی بیٹی تھی۔‘
کہا جاتا ہے کہ عزت بیگ جسے ماہیوال کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، بلخ، بخارا کے ایک امیر گھرانے کے سوداگر کے بیٹے تھے اور وہ بھی وہاں کاروبار کے لیے آئے تھے۔
کئی جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ انھیں گھومنے پھرنے کا شوق تھا اور سیرو سیاحت کرتے ہوئے وہ سوہنی کے علاقے میں پہنچ گئے۔ جب انھوں سوہنی کو تولا کمہار کی دکان پر دیکھا ہے تو وہ ان کے حسن کے سحر میں آ گئے۔
وہ بار بار سوہنی کو دیکھنے کے لیے برتن خریدنے کے بہانے دکان پر جاتے۔ جب ان کی ساری دولت ختم ہو گئی تو انھوں نے تولا کے ہاں مویشیوں کو چرانے کی نوکری کر لی۔
سوہنی بھی ماہیوال کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو جاتی ہے۔
جب گھر والوں کو ان کی محبت کا پتہ چلا تو انھوں نے سوہنی کو ماہیوال سے ملنے سے منع کر دیا اور اس کی زبردستی شادی کر دی۔
جس کے بعد ماہیوال ایک دریا کے کنارے رہنے چلا جاتا ہے۔ وہ دریا پار کر کے سوہنی سے ملنے آتا ہے۔
وہ اس کے لیے بھنی ہوئی مچھلی بھی لاتا ہے۔ ایک دن جب اسے مچھلی نہیں ملتی، تو وہ اس کے لیے اپنی ران کا بھنا ہوا گوشت لاتا ہے۔
جب سوہنی کو پتہ چلا تو وہ مہیوال سے کہتی ہے کہ اب وہ دریا پار کر کے خود اس سے ملنے آئے گی۔
ہر رات، وہ ایک مٹی کے گھڑے کی مدد سےدریا کے پار تیر کر اپنے محبوب سے ملنے جاتی ہے۔ سوہنی کی نانی کو جب اس بات کا پتہ چلا تو اس نے ایک رات پرانے گھڑے کی جگہ نیا یعنی تازہ بنا گھڑا رکھدیا۔
اگلی رات سوہنی ماہیوال سے ملنے سردی میں کانپتی ہوئی نکلی اور اس نے دیکھا کہ اس کا پکی مٹی سے بنا گھڑا تبدیل کر دیا گیا ہے اور اس کے پاس کچا گھڑا ہے مگر وہ پھر بھی ماہیوال سے ملنے چل پڑی۔
سوہنی جیسے ہی کچے گھڑے کی مدد سے دریا میں اترتی ہے تو مٹی کا گھڑا ٹوٹ جاتا ہے اور سوہنی ڈوب جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مہیوال بھی دریا میں ڈوب کر مر جاتا ہے۔
پروفیسر سکھدیو سنگھ سرساکیا سوہنی کی خوبصورتی نے اسے ممتاز بنایا؟
فضل شاہ کی ’سوہنی‘ میں ذکر ہے کہ سوہنی اتنی خوبصورت تھی کہ عزت بیگ یعنی مہیوال اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر متاثر ہو گیا اور اس کے قدم لڑکھڑا گئے۔
صورتَ سوہنی دیکھ کے سوہنی دی،
عزت بیگ ڈگا غش کھا جانی
لیکن بہت سے ادیبوں کا کہنا ہے سوہنی کی خاصیت اس کے حسن میں نہیں بلکہ اس کے کردار میں ہے۔ سوہنی کا کردار خوبصورتی، ذہانت، ہمت اور شائستگی کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر نریندر نندی کہتے ہیں کہ محبت کا صادق جذبہ سوہنی کے کردار کی ایک بڑی خصوصیت تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جس نے کسی سے محبت کی گویا اس نے سب کچھ مان لیا۔ سوہنی پنجاب کی سرزمین سے سچی محبت کی تصویر پیش کرتی ہے۔‘
پروفیسر سرسا کا خیال ہے کہ پنجاب کی محبت کی کہانیوں کی ہیروئنوں میں تین ہیروئن ہیر، سسی اور سوہنی مختلف قسم کی ہیروئنز ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ تینوں قرون وسطی کے مردانہ معاشرے کے جبر کا شکار ہیں۔ تینوں نازنین عام گھروں کی بیٹیاں نہیں بلکہ بااثر گھروں کی بیٹیاں تھیں۔
پروفیسر سرسا کے مطابق، مصنف یہ پیش کرتے ہیں کہ قرون وسطیٰ کے جاگیردارانہ معاشرے میں بڑے گھرانوں کی بیٹیاں اپنی خاندانی روایات کو ترک کر کے محبت کی روایت کو اپناتی تھیں، جو اس زمانے میں ایک انتہائی جرات مندانہ عمل تھا۔
کہتے ہیں کہ خوبصورت عورت اس لیے خوبصورت ہوتی ہے کہ وہ محبت کی خاطر اپنے آپ کو قربان کر دیتی ہے۔
'ہماری ہیروئنیں اپنی خوبصورتی سے عظیم نہیں بنتیں، وہ اپنی قربانیوں سے عظیم بنتی ہیں۔'
محبت کی کہانیوں میں دیگر ہیروئنیں بھی محبت کے لیے قربانی دیتی ہیں لیکن سوہنی ان سے مختلف کیسے ہیں؟
پروفیسر سرسا کا کہنا ہے کہ دوسری ہیروئنوں کو معلوم نہیں تھا کہ موت ان کے راستے میں آسکتی ہے۔ جس طرح سسی جانتی تھی کہ پنوں سے ملنے کے لیے صحرا کو پار کرنا مشکل ہو گا، تاہم اسے پنوں سے ملنے کی امید تھی۔
’جب ایک خوبصورت عورت مٹی کا برتن لے کر اسے پانی میں ڈبوتی ہے تو وہ اسے اپنی تمام تر امیدوں کے ساتھ ڈبوتی ہے، وہ اسے مرنے کی نیت سے ڈبوتی ہے۔‘
’سسی اور ہیر نے اپنے محبوب سے ملاقات کا امکان دیکھا، دوسری طرف سوہنی نے موت کو دیکھا، لیکن پھر بھی وہ پیچھے نہیں ہٹی۔‘
پرعزم اور ذہین سوہنی اندر سے نرم دل بھی ہے۔ فضل شاہ کی کہانی کے مطابق دریا میں اپنی ناگزیر موت کو دیکھ کر وہ مہیوال اور سکھیوں سے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے اور اپنی ماں کو بھی شدت سے یاد کرتی ہے۔
سوہنی کا شادی کو چیلنج کرنا
قرون وسطی کا معاشرہ شادی کے رواج پر سختی سے کاربند تھا، اور سوہنی کی شادی کسی اور سے کر دی گئی، لیکن سوہنی اس شادی کو قبول نہیں کرتی۔
ڈاکٹر نریندر نندی کہتے ہیں کہ قرون وسطیٰ کے معاشرے میں کسی کی محبت کے لیے معاشرے سے لڑنا اس زمانے کی عورت کے لیے بڑی بات تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’سوہنی پورے معاشرے سے اوپر اٹھ کر سچی محبت کی علامت بن جاتی ہے، جو سماج کے دیے ہوئے شوہر کو قبول نہیں کرتی۔‘
بہت سے مصنف لکھتے ہیں کہ جب گھر والوں نے سوہنی کی شادی کر دی تو اس نے اپنے شوہر کو اس قدر زور سے تھپڑ مارا کہ وہ نامرد ہو گیا۔
پروفیسر سرسا کا کہنا ہے کہ حقیقت میں عورت کے انکار کو ایک تھپڑ کے تناظر میں بیان کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جب ایک شادی شدہ عورت اپنا جسم، اپنے والدین اور معاشرے کے مقرر کردہ شوہر کے حوالے کرنے سے انکار کرتی ہے تو یہ منھ پر طمانچہ ہے۔ قرون وسطیٰ کے معاشرے میں شادی شدہ عورت کے لیے اپنے شوہر کو شوہر ہونے کے حق سے انکار کرنا بہت بڑی بات تھی۔‘
یہ سوہنی کی بغاوت تھی کہ اس نے اپنے باپ اور معاشرے کی طرف سے دیا ہوا شوہر قبول نہیں کیا۔
کئی حوالوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوہنی اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ میرے اندر ایک جن کالے سانپ کی شکل میں رہتا ہے۔ اگر آپ مجھے کسی دوسرے آدمی کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھیں تو اسے تنگ نہ کریں۔ اگر تم نے ایسا کیا تو وہ تمہیں مار ڈالے گا۔‘
ایک اورجگہ یہ ذکر آتا ہے کہ سوہنی نے اپنےشوہر سے کہا کہ جن اس کے اندر ایک کالے سانپ کی طرح رہتا ہے ’اگر تم مجھے چھوؤ گے تو وہ تمہیں کاٹ لے گا۔‘
کچھ مصنف یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس کے شوہر کو اس بات کا صدمہ تھا کہ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ماہیوال سے ملنے چلی جاتی تھی۔ پروفیسر سرسا اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جو عورت اپنے شوہر اور اپنے محبوب میں فرق کرنا سیکھ لیتی ہے وہ ہیروئن بن جاتی ہے۔
سرسا کے مطابق یہ کہانیاں قرون وسطیٰ کے معاشرے میں شادی کے نظریے پر بھی سوال اٹھاتی ہیں کہ کیا شادی کسی عورت کو بھیڑ بکری بنا کر کسی کے حوالے کرنا ہے؟
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک عورت جو معاشرے کے فیصلے کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا انتخاب کرتی ہے، وہ پدرانہ نظام اور شادی کے نظریے کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اور وہ ہماری ہیروئن بن جاتی ہے۔‘
سرسا کا کہنا ہے کہ جدید دور میں سوہنی کے کردار کی مطابقت یہ ہے کہ اگر شادی کے لیے عورت کی رضامندی نہیں ہو گی تو وہ ٹوٹ جائے گی۔
سرسا کے مطابق، سوہنی سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ محبت جسمانی میل سے زیادہ اہم ہے۔ ڈاکٹر نریندر نندی کہتے ہیں کہ بھائی گرداس جی نے سوہنی مہیوال کا ذکر اپنے بیانوں میں کیا ہے۔
نندی کا کہنا ہے کہ ’جو لوگ انھیں کمزور کردار سمجھتے ہیں وہ جاہل ہیں، جب کہ ہمارے گرو اور پیروں نے سوہنی جیسی مثالوں سے معاشرے کی رہنمائی کی ہے۔‘