آلو آپ کو سرخ اور رسیلے ٹماٹر کی طرح نہیں لگتا لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 90 لاکھ سال قبل یہ ٹماٹر ہی تھا جس کی وجہ سے دنیا کو آلو ملا۔
آلو نے لاکھوں سال پہلے سولینسیائی خاندان کے پودوں کی دو انواع کے امتزاج سے جنم لیا جن میں سے ایک ٹماٹر تھاتقریباً 90 لاکھ سال پہلے، اس علاقے میں جسے آج جنوبی امریکہ کہا جاتا ہے انسانوں کا وجود نہیں تھا، لیکن پودوں کی دو اقسام ایک ساتھ پروان چڑھ رہی تھیں۔
لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کی ماہر نباتات ڈاکٹر سینڈرا نیپ کہتی ہیں کہ ’ان میں سے ایک ’سولانم لائکوپرسیکم‘ نامی پودا تھا جسے آج ہم ٹماٹر کہتے ہیں اور دوسرا ’سولانم ٹیوبروزم‘ تھا جس کی تین موجودہ اقسام اب بھی چلی اور پوآن فرنینڈز جزائر میں پائی جاتی ہیں۔‘
جیسا کہ اِن کے ناموں سے سمجھا جا سکتا ہے، ان دونوں پودوں کا باہمی تعلق تھا اور اُن کی افزائش بھی مل کر ہوتی تھی۔
ڈاکٹر نیپ کا کہنا ہے کہ ’پھر اِن پودوں کی جینیات میں تبدیلی نے کچھ بالکل نیا بنا دیا، جس نے اینڈیز کی سرد، خشک آب و ہوا میں اُن کی بقا میں مدد کی۔‘
ماہرین اس عمل کو ’انٹرسپیسفک ہائبرڈائزیشن‘ کہتے ہیں۔ یہ عمل اکثر ہوتا ہے تاہم، بعض اوقات اس کے نتائج اچھے نہیں ہوتے۔
مثال کے طور پر، گھوڑی اور گدھے کے ملاپ سے خچرپیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک کامیاب ہائبرڈائزیشن ہے، جس کی قدر قدیم زمانے سے کی جاتی رہی ہے لیکن اگر خچر کی بات کی جائے تو اس جانور میں اپنی نسل کی افزائش یعنی جنم دینے کی صلاحیت نہیں ہے۔
ڈاکٹر نیپ کا کہنا ہے کہ پودوں کی دنیا میں بھی ہائبرڈائزیشن ہوتی ہے اور اس طرح ہم اکثر بہت سے نئے پودے حاصل کرتے ہیں۔
ہائبرڈائزیشن قدرتی طور پر یا انسانی مداخلت کے ذریعے ہو سکتی ہے جس سے ایسے پودے پیدا ہوتے ہیں جو دونوں پیرنٹ پودوں کا مرکب ہوتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’بعض اوقات ایسے پودوں میں تولیدی صلاحیت نہیں ہوتی، اس لیے اُن سے مزید نئی اقسام تیار نہیں کی جا سکتیں۔‘
لیکن جب حالات مثالی ہوں تو ہائبرڈائزیشن کے نتیجے میں توقع سے زیادہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
آلو کے معاملے میں ایسا ہی ہوا جس نے لاکھوں سال پہلے سولینسیائی خاندان کی دو انواع کے امتزاج سے جنم لیا۔
سولانم لائکوپرسیکم (بائیں) اور سولانم ٹیوبروزم (دائیں) آلو کے والدین تھےڈاکٹر نیپ کا کہنا ہے کہ ’یہ دلچسپ امر ہے کہ آلو، جو روزانہ کی بنیاد پر ہمارے لیے بہت اہم اور مفید ہیں، ان کی اصلیت اتنی قدیم اور غیرمعمولی ہے۔‘
چائنیز اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز کے پروفیسر سانوین ہوانگ نے آلو کی اصلیت پر ایک بین الاقوامی تحقیق کی سربراہی کی جس کے نتائج جولائی میں جرنل سیل میں شائع ہوئے۔
پروفیسر سانوین ہوانگ کہتے ہیں کہ ’ٹماٹر آلو کی ماں ہے جبکہ باپ ٹیوبروسم ہے۔‘
ایک دیرینہ معمے کا حل
سخت اور نشاستہ والے آلو، سرخ اور رسیلے ٹماٹر کی طرح نہیں دکھائی دیتے۔ لیکن ڈاکٹر نیپ، جو اس تحقیق میں شامل تھیں، کہتی ہیں کہ ’وہ بہت ملتے جلتے ہیں۔‘
اُن کے مطابق آلو اور ٹماٹر کے پودے کے پتے اور پھول بہت ملتے جلتے ہیں اور آلو کے پودے کا پھل چھوٹے سبز ٹماٹروں جیسا لگتا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’ہم ایک طویل عرصے سے جانتے ہیں کہ آلو، ٹماٹر اور ٹیوبروزم کا باہمی تعلق ہے۔ جو چیز ہم نہیں جانتے تھے وہ یہ کہ آلو کے سب سے قریب کون ہے کیونکہ مختلف جینز ہمیں مختلف کہانیاں سناتے ہیں۔‘
آلو اور ٹماٹر اس قدر ملتے جلتے ہیں کہ ان کی پیوند کاری سے ایک پودا بنتا ہے جس پر دونوں لگتے ہیںسائنسدانوں نے کئی دہائیوں تک آلو کی اصلیت کا معمہ حل کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑا اور وہ آلو کی منفرد ’جینیات‘ تھیں۔
جہاں انسانوں سمیت زیادہ تر انواع کے ہر خلیے میں کروموسوم کی دو نقول ہوتی ہیں، آلو میں یہ تعداد چار ہوتی ہے۔
اس تضاد کو حل کرنے کے لیے، تحقیقی ٹیم نے آلو، ٹماٹر اور ٹیوبروزم سمیت درجنوں انواع کے 120 سے زائد جینوم (ایک خلیے میں موجود تمام جین یا جینیاتی مواد کا مجموعہ) کا تجزیہ کیا۔
آلو کے ترتیب شدہ جینوم میں ٹماٹر اور ٹیوبروزم سے بہت زیادہ مماثلت دکھائی دی۔ ڈاکٹر نیپ کا کہنا ہے کہ اصل میں آلو کا تعلق صرف ٹماٹر یا پھر صرف ٹیوبروزم سے نہیں بلکہ یہ دونوں سے نکلا ہے۔
اس طرح محققین نے ٹماٹر اور ٹیوبروزم کے درمیان اس تعلق کو دریافت کیا جس کا نتیجہ لاکھوں سال پہلے جنوبی امریکہ کے پہاڑوں کے دامن میں آلو کی شکل میں نکلا تھا۔
ڈاکٹر نیپ کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک کامیاب ملاپ تھا کیونکہ اس نے جین کے اس امتزاج کو تخلیق کیا جس نے اینڈیز میں اس نئی قسم کو اینڈیز کے بلندوبالا علاقے میں پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔‘
اگرچہ زمین کے اوپر اُگنے والے آلو کے پودے کا تعلق اس کے والدین (پیرنٹ پودے) سے تھا لیکن اس میں ایک اور چیز تھی جو اس کے پیرنٹ پودوں کے پاس نہیں تھی۔
زمین کے اوپر اگنے والے اس آلو میں ایک ٹیوبر بھی تھا۔ ٹیوبر ہونے کا مطلب ہر وقت توانائی کی فراہمی کے ذریعے کی موجودگی ہے جو انتہائی سرد موسم سمیت بڑھوتری میں آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔
آلو کے پودے کا پھل چھوٹے ٹماٹروں کی طرح ہوتا ہےایک ’جینیاتی لاٹری‘
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ آلو کا یہ پودا جن میں ایک جینیاتی لاٹری کا نتیجہ تھا اور ٹماٹر اور ٹیوبروزم دونوں پودوں میں ایک جین تھا جو ٹیوبرز کی تشکیل کے لیے اہم تھا۔
اُن میں سے کوئی بھی اپنے بل بوتے پر ٹیوبر بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا لیکن جب وہ اکٹھے ہوئے تو ایک ایسا عمل شروع ہوا جس نے زیر زمین تنوں کو مزیدار آلو میں بدل دیا۔
ڈاکٹر نیپ کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والی چینی ٹیم نے اس عمل کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔
ہائبرڈائزیشن جس نے آلو پیدا کیا وہ ایک خوش کن حادثے سے زیادہ تھا کیونکہ آلو وہ حیرت انگیز چیز ثابت ہوئی جس کا پودا بغیر بیج یا پولینیشن کے عمل کے بغیر دوبارہ پیداوار دینے کے قابل تھا۔ یہی نہیں بلکہ وہ مختلف موسمی حالات اور زمین میں اگنے کی صلایت بھی رکھتا تھا۔
ڈاکٹر نیپ کا کہنا ہے کہ ’آج بھی آلو کی 100 سے زیادہ جنگلی اقسام براعظم امریکہ میں پائی جاتی ہیں، جو جنوب مغربی امریکہ سے چلی اور برازیل تک پھیلی ہوئی ہیں۔‘
زمین کے اوپر ایٹوبروسم (بائیں) اور ٹیوبروسم (دائیں) ایک جیسے نظر آتے ہیں لیکن یہ جڑ میں نشاستہ دار ٹیوبر ہیں جو آلو کو ممتاز کرتے ہیںسائنسدان بیجوں سے آلو کیوں اُگانا چاہتے ہیں؟
تاہم، بیج کے بغیر اگنے کی یہ صلاحیت آلو کے لیے بھی نقصان دہ رہی ہے۔
ڈاکٹر نیپ کا کہنا ے کہ ’اسے اگانے کے لیے آپ آلو کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اگر آپ کے پاس کسی کھیت میں آلو کی صرف ایک قسم ہے تو وہ بنیادی طور پر اس کا کلون ہیں۔‘
جینیاتی طور پر یکساں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آلو کی کوئی ایک قسم کسی بھی نئی بیماری کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
یہی وجہ ہے کہ سائنسدانوں نے یہ تحقیق کی۔ ڈاکٹر نیپ کے مطابق چینی ٹیم ایسے آلو بنانا چاہتی ہے جو بیجوں سے اگائے جا سکیں اور جن میں جینیاتی تبدیلی ممکن ہو۔
ٹیم کا خیال ہے کہ جنگلی انواع سے جینز لا کر ایسی قسمیں تخلیق کی جا سکتی ہیں جو ماحولیاتی چیلنجوں کا بہتر انداز میں مقابلہ کر سکیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں اور اس تحقیق میں شامل دیگر ماہرین حیاتیات یہ جاننا چاہتے تھے کہ آلو کا سب سے قریبی رشتہ دار کون سا پودا ہے، اور وہ اتنے مختلف کیوں ہیں۔‘
’لہٰذا ہم نے اس تحقیق کے لیے بہت سے مختلف انداز اپنائے، اور ہر ایک نکتہ نظر نئے سوالات لایا۔ اسی لیے اس تحقیق میں شامل ہو کر اور اس پر کام کرنے میں بہت مزہ آیا۔‘