کبھی کبھِار پرانی قبریں کی کھدائی کے دوران ایسی لاشیں ملتی ہیں جو کافی وقت گزرنے کے بعد بھی صحیح حالت میں ہوتی ہیں۔ لوگ اس کے لیے مختلف مذہبی توجیحات پیش کرتے ہیں لیکن ان لاشوں کے خراب نہ ہونے کی کچھ سائنسی وجوہات بھی ہوتی ہیں
لاشوں کے خراب نہ ہونے کی چند سائنسی وجوہات ہوتی ہیںسائنس بتاتی ہے کہ عموماً کسی بھی جاندار کی موت کے 12 گھنٹوں کے اندر جسم میں گلنے سڑنے کے عمل کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ جسم میں موجود بیکٹیریا کا پھیلاؤ ہوتا ہے۔
لیکن بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگوں کی لاشیں دفن کیے جانے کے کافی عرصے بعد بھی خراب نہیں ہوتیں۔ کبھی کبھِار پرانی قبروں کی کھدائی کے دوران ایسی لاشیں ملتی ہیں جو کافی وقت گزرنے کے بعد بھی صحیح حالت میں ہوتی ہیں۔
لوگ اس کے لیے مختلف مذہبی توجیحات پیش کرتے ہیں لیکن یہ واضح کہ ان لاشوں کے خراب نہ ہونے کی کچھ سائنسی وجوہات بھی ہوتی ہیں۔
ویسے تو لاشوں کے خراب نہ ہونے کے پیچھے متعدد عوامل ہوتے ہیں تاہم فرانزک ماہرین دو پہلوؤں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں: ایک ’ممیفیکیشن‘ اور دوسرا جسم کے اوپر ایڈیپوز ٹشو یا موم جیسی کوٹنگ کا بن جانا۔
جسم کا قدرتی طور پر ممی بن جانے کا عمل
لاش جس ماحول میں دفنائی جاتی ہے وہ کافی اہم ہوتا ہے۔ اگر وہاں کی ہوا خشک ہو، درجہ حرارت گرم ہو اور ہوا میں نمی کا تناسب بھی کم ہو تو ایسے میں لاش کے وہ حصہ جن میں پانی کی مقدار زیادہ پائی جاتی ہے، وہ جلد خشک ہو جاتے ہیں۔ پانی کے خشک ہونے کے باعث جسم میں بیکٹیریا کی افزائش رُک جاتی ہے۔
سر سلیم اللہ میڈیکل کالج ہسپتال کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ناظمن نہر روزی کہتی ہیں کہ اس سارے عمل کو ’ممیفکیشن‘ کہا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صحرائی علاقوں میں بہت سی لاشوں میں قدرتی ممیفکیشن کا پراسیس عام ہے اور لاشیں دفنائے جانے کے بعد کئی برسوں تک سلامت رہتی ہیں۔
جس علاقے کی زمین خشک اور مٹی ریتلی ہو، وہاں ایسا ہونا عام بات ہے تاہم مرطوب آب و ہوا والے علاقوں میں قدرتی ممیفکیشن کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔
مصر میں موجود رعمسيس دوم نامی فرعون کی ممی۔ قدیم مصری لاشوں کو محفوظ کرنے کا عمل کرتے تھے تاہم بعض معاملوں میں آب و ہوا کی وجہ سے یہ عمل خود بخود بھی ہو سکتا ہےجسم کی باہری سطح پر ایڈیپوز ٹشو یعنی موم جیسی پرت کا بننا
ایڈیپوز ٹشو بنیادی طور پر ایک موم جیسا مادہ ہے جو جسم میں موجود چربی کو محفوظ رکھتا ہے اور اسے گلنے سڑنے نہیں دیتا۔
یو ایس نیشنل لائبریری آف میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق اس پرت کے بننے اور ختم ہونے کا انحصار ماحول پر ہوتا ہے۔ ایڈیپوز ٹشو ایک بار بننے کے بعد سینکڑوں سال تک برقرار رہ سکتے ہیں۔
আরো পড়তে পারেন:
ڈاکٹر ناظمن نہر روزی کہتی ہیں کہ کسی بھی لاش پر ایڈیپوز ٹشو کے بننے کا انحصار بہت سے عوامل پر ہوتا ہے جیسا کہ ماحولیاتی درجہ حرارت، آب و ہوا، مرنے والے کی غذائی عادات، دفناتے وقت لاش کی حالت اور یہ بھی کہ اسے کس انداز میں دفنایا گیا یے۔
ڈاکٹر روزی کہتی ہیں کہ ’مرطوب ماحول یا ایسی جگہوں پر جہاں نمی زیادہ پائی جاتی ہے، جسم سفید پڑ جاتا ہے، جو دیکھنے میں کسی کوٹنگ (تہہ یا پرت) کی طرح لگتا ہے۔ جسم کا وہ حصہ جہاں زیادہ چربی پائی جاتی ہے پانی کے ساتھ مل کر کیمیائی ردعمل کرتا ہے اور ایک تیل والے، گیلے موم جیسے مادے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اگر اس طرح کے ایڈیپوز ٹشوز لاش پر بن جائیں تو جسم کئی سال بلکہ کئی بار تو دہائیوں تک کے لیے محفوظ ہو جاتا ہے۔
نیشنل لائبریری آف میڈیسن کی ایک اور تحقیق کے مطابق، یہ عمل لاش کو کئی دہائیوں تک محفوظ رکھ سکتا ہے۔
ایڈیپوز ٹشو کے بننے کے لیے تین چیزیں کی ضرورت ہوتی ہے: جسم میں ہائیڈروکسی فیٹی ایسڈز کا بننا، لاش کے آس پاس کے ماحول میں نمی کا ہونا اور آکسیجن کی کمی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ لاش کو زمین میں بہت گہرائی میں دفن کیے جانے پر بھی جسم پر ایڈیپوز ٹشوز بن سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ کئی ایسی ادویات بھی ہوتی ہیں جو جسم میں ایڈیپوز ٹشو بنا سکتی ہیں۔ ڈاکٹر روزی کہتی ہیں کہ جسم میں مختلف دھاتوں اور سنکھیا کی موجودگی بھی لاش کے گلنے سڑنے کی رفتار کو کم کر سکتی ہے۔
کسی بھی لاش کے گلنے کا انحصار اس ماحول اور آب و ہوا پر بھی ہوتا ہے جس میں اسے دفنایا گیا ہوڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال کے سابق فرانزک ماہر ڈاکٹر کبیر سہیل اس سارے عمل کی وضاحت تھوڑے مختلف انداز میں کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سہیل کا کہنا ہے کہ ’جب جسم میں موجود چربی سخت ہو جاتی ہے تو پھر وہ بیکٹیریا جو لاش کے گلنے کا سبب بنتے ہیں، صحیح سے اپنا کام نہیں کر پاتے اور ایسی صورت میں جسم زیادہ عرصے تک اپنی اصل شکل برقرار رکھتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ظاہری طور پر لاش پہلے جیسی ہی دکھتی ہے، پھر کہا جاتا ہے کہ لاش کو کافی عرصہ پہلے دفنایا گیا تھا، لیکن اب بھی اس کی حالت پہلے جیسی ہی ہے۔‘
ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ مائیکرو بیالوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد میزان الرحمن کا کہنا ہے کہ اگر جسم میں چربی کی مقدار بہت زیادہ ہو تو بھی ایسا ہونے کا امکان ہے۔
اُن کے مطابق اگر تدفین کی جگہ پر ہوا موجود ہو یا وہ زمین جہاں لاش کو دفن کیا گیا ہو بالکل زرخیز نہ ہو یا اگر زمین ریتلی ہو تو بھی جسم کے گلنے سڑنے کا عمل سست ہو سکتا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ مرطوب ماحول میں جسم کی جلد چھ سے بارہ دنوں کے اندر ڈھیلی پڑ جاتی ہے، لیکن فربہ جسم میں اس عمل میں ایک مہینہ یا اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔
کیمیائی اثرات
بعض صورتوں میں لاش کو محفوظ رکھنے کے لیے مختلف کیمیکلز جیسے فارملین کو جسم پر لگا دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سہیل کہتے ہیں کہ اس طرح کے کیمیکلز کے استعمال سے جسم زیادہ دیر تک گلنے سڑنے سے بچایا جا سکتا ہے۔
وہ مثال دیتے ہیں کہ جب کسی شخص کی بیرون ملک موت ہو جاتی ہے اور لاش کو مرنے والے کے آبائی ملک لے جانے کی ضرورت ہوتی ہے تو لاش کو فارمل ڈی ہائیڈ، میتھانول یا دیگر اسی طرح کے کیمیکلز لگا کر محفوظ کر لیا جاتا ہے اور اس سارے عمل کو ’ایمبلمنگ‘ کہتے ہیں۔
ایسی لاشیں جب دفنائی جاتی ہیں تو جسم پر موجود کیمیکلز کے اثرات کی وجہ سے لاش کافی دیر تک اپنی اصل حالت برقرار رکھتی ہے۔
بعض صورتوں میں مٹی میں اس طرز کے کیمیکل کی موجودگی کے نتیجے میں بھی لاش لمبے عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہے۔
جرنل آف آرکیالوجیکل سائنس کے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ مٹی کی کیمیائی خصوصیات جیسا کہ اس میں پائی جانے والی دھاتوں، معدنیات اور تیزابیت بھی بعض اوقات جسم کے گلنے سڑنے میں تاخیر کا سبب بن سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ جہاں لاش دفن کی گئی ہے اس جگہ کا درجہ حرارت بھی بعض اوقات لاش کے گلنے کی رفتار پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمالیہ جیسے ٹھںڈے علاقوں میں دفنائی جانے والی لاشیں کئی دنوں اور مہینوں تک اپنی اصل حالت میں برقرار رہ سکتی ہیں۔