نیپال میں جاری بدعنوانی کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں اب تک کم از کم 19 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ وزیر اعظم کے پی شرما اولی مستعفی ہو چکے ہیں۔ ملک میں دہائیوں بعد اس قدر بدامنی دیکھی گئی ہے مگر اب بھی عوامی سطح پر حکومت کے خلاف غصہ پایا جا رہا ہے۔
نیپال میں جاری بدعنوانی کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں اب تک کم از کم 19 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ وزیر اعظم کے پی شرما اولی مستعفی ہو چکے ہیں۔ ملک میں دہائیوں بعد اس قدر بدامنی دیکھی گئی ہے مگر اب بھی عوامی سطح پر حکومت کے خلاف غصہ پایا جا رہا ہے۔
منگل کو مشتعل ہجوم نے دارالحکومت کھٹمنڈو میں واقع پارلیمنٹ کی عمارت کو نذر آتش کیا۔ اس کے سیاہ دھوئیں کو دور سے بھی آسمان میں دیکھا جا سکتا تھا۔
ملک بھر میں سرکاری عمارتوں اور سیاستدانوں کے گھروں پر حملے کیے گئے ہیں۔
منگل کو تین ہلاکتوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ جیل حکام کے مطابق اس افراتفری میں مغربی اضلاع کی دو جیلوں سے 900 قیدی فرار ہوگئے ہیں۔
یہ احتجاجی مظاہرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بندش کے بعد شدت اختیار کر گئے تھے۔ اگرچہ یہ پابندی ختم کر دی گئی تھی تاہم اس وقت تک یہ مظاہرے ایک تحریک میں بدل چکے تھے۔
منگل کی شب نیپال کے آرمی چیف نے بیان جاری کیا جس میں مظاہرین پر موجودہ بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے، لوٹ مار اور آتشزنی کا الزام لگایا ہے۔
نیپالی فوج کے سربراہ جنرل اشوک راج سگدل نے ایک ویڈیو پیغام میں مظاہرین کو بات چیت کی دعوت دی ہے تاکہ ملک میں موجودہ سیاسی بحران سے نکلا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج قومی اتحاد اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر بدامنی جاری رہی تو 'تمام سکیورٹی ادارے بشمول نیپال کی فوج صورتحال کو قابو میں لانے کے لیے پُرعزم ہے۔' اس حوالے سے رات 10 بجے کی ڈیڈلائن دی گئی ہے تاہم یہ تفصیلات نہیں دی گئیں کہ اس کے ردعمل میں کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
نیپالی وزیر اعظم مستعفی ہو چکے ہیں مگر یہ واضح نہیں کہ ان کی جگہ کون لے گا یا آگے کیا ہوگا کیونکہ اس وقت ملک کا کوئی سربراہ نہیں ہے۔ اطلاعات ہیں کہ وزرا سمیت بعض رہنماؤں نے سکیورٹی فورسز کے پاس پناہ لے رکھی ہے۔
73 سالہ کے پی اولی چار بار نیپال کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور وہ کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ہیں۔ ان کی رہائش گاہ کو بھی نذر آتش کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے ان کا استعفی موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے آئینی حل کی راہ ہموار کرے گا۔
اب تک مظاہرین نے اپنے مطالبات پیش نہیں کیے ہیں۔ وہ صرف بدعنوانی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ احتجاج بظاہر اچانک بڑے ہوتے گئے اور وہاں کوئی منظم قیادت نہیں ہے۔
نیپال میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے 'ہم تبدیلی چاہتے ہیں'
پارلیمنٹ کے اندر سینکڑوں مظاہرین نے اپنی فتح کا جشن منایا۔ وہ عمارت کے داخلے پر لگی آگ کے گرد رقص کرتے نظر آئے اور انھوں نے نیپال کا پرچم تھامے نعرے بازی بھی کی۔
کچھ لوگ عمارت کے اندر داخل ہوئے جہاں تمام کھڑکیاں ٹوٹ چکی ہیں۔ دیواروں پر گرافیٹی بنائی گئی ہے اور باہر حکومتی مخالف پیغامات سپرے کیے گئے ہیں۔
کھٹمنڈو کی 20 سالہ رہائشی مونا شریشتا پارلیمنٹ کے باہر موجود ایک ہجوم میں شامل تھیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ بدعنوانی طویل عرصے سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ 'یہ وقت ہے کہ ہماری قوم، ہمارے وزیر اعظم اور جو بھی طاقت میں ہے وہ بدل جائے کیونکہ ہم تبدیلی چاہتے ہیں۔'
ان کا کہنا ہے کہ 'یہ اب ہو چکا ہے اور ہم بہت خوش ہیں کہ ہم نے یہ ہوتا دیکھا اور ہم اس کے لیے لڑے ہیں۔ امید ہے یہ تبدیلی ہمارے لیے مثبت ہو گی۔'
شریشتا کا خیال ہے کہ ورکنگ کلاس سے جمع کیا گیا ٹیکس ایسے شعبوں میں استعمال ہو جس سے ملک میں ترقی ہو۔
سوشل میڈیا کی بندش پر عوامی غصہ اور جین زی کے مطالبات
گذشتہ ہفتے نیپال کی حکومت نے رجسٹریشن کی ڈیڈلائن پر عملدرآمد نہ کرنے والے 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کی تھی۔ ملک میں انسٹاگرام اور فیس بُک کے لاکھوں صارفین ہیں جو تفریح، خبروں اور کاروبار کے لیے ان پلیٹ فارمز پر انحصار کرتے ہیں۔
حکومت نے اس پابندی کا جواز کچھ یوں دیا کہ یہ فیک نیوز، نفرت انگیز تقاریر اور آن لائن فراڈ کی روک تھام کے لیے ضرورت ہے۔
تاہم نوجوانوں نے اس اقدام پر تنقید کی اور اسے اظہار رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیا۔
اگرچہ یہ پابندی جلد بازی میں پیر کی شب ختم کر دی گئی تھی تاہم مظاہرین کو روکا نہ جاسکا۔ انھوں نے سیاسی ایلیٹ کو نشانہ بنایا جس سے ملک میں افراتفری پیدا ہوئی ہے۔
ایک حکومتی وزیر نے بتایا کہ پیر کی شب ہنگامی اجلاس کے بعد پابندی ختم کر دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کی وجہ 'جین زی کے مطالبات پورے کرنا ہے۔'
نیپال میں اس سے قبل ایسے مظاہرے نہیں دیکھے گئے جن کا آغاز سوشل میڈیا پر پابندی کی وجہ سے ہوا اور ان کی قیادت ملک کے نوجوان طبقے نے کی ہو۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے مظاہرین کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکے مظاہرین میں سے زیادہ تر کا تعلق 'جین زی' سے ہے، یعنی ایسے نوجوان جو سنہ 1997 سے 2012 کے درمیان پیدا ہوئے۔
یہ اصطلاح پوری تحریک میں ایک علامت بن گئی ہے۔ اگرچہ ان مظاہروں کی کوئی مرکزی قیادت نہیں تھی تاہم نوجوانوں کے متعدد گروپس نے مظاہرین کو جمع کیا۔
19 برس کی طالبہ بینو کے سی نے بی بی سی نیپالی سروس کو بتایا کہ 'ہم ملک میں کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔'
'سیاست دان انتخابات میں وعدے کرتے ہیں لیکن بعد میں انھیں پورا نہیں کرتے۔ یہ بہت سے مسائل کی وجہ ہے۔'
انھوں نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا کی بندش کی وجہ سے ان کی آن لائن کلاسز متاثر ہوئیں۔
شبھانہ بدھاتھوکی نے اپنے غصے کا اظہار کچھ ایسے کیا کہ 'جین زی اب رکنے والی نہیں۔'
'یہ احتجاج سوشل میڈیا پر بندش سے کہیں زیادہ ہے، یہ ہماری آوازوں کو خاموش کرنے کے بارے میں ہے اور ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔'
کھٹمنڈو میں بہت سے مظاہرین ہاتھوں میں بینرز اٹھائے تبدیلی کے نعرے لگاتے نظر آئے۔
ان کے دو مطالبے واضح تھے: حکومت سوشل میڈیا پر سے پابندی ہٹا لے جبکہ حکام کرپشن کو ختم کریں۔
بہت سے مظاہرین نے سوشل میڈیا کی بندش کو آزادی اظہار پر پابندی اور سیات دانوں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات سے جوڑا۔
شبھانہ بدھاتھوکی کہتی ہیں کہ ’جین زی اب رکنے والی نہیں‘'نیپو بیبی' کی اصطلاح
ان مظاہروں میں دو ہیش ٹیگ خاصے مقبول رہے: 'نیپو بیبی' اور 'نیپو کڈز۔'
'نیپو' دراصل اقربا پروری کے لیے استعمال ہونے والی مختصر اصطلاح ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کیسے اشرافیہ صرف اپنے خاندان کے فائدے کو دیکھتے ہیں۔
یہ اصلاحات گذشتہ چند ہفتوں سے نیپال کے سوشل میڈیا پر خاصی مقبولیت حاصل کر رہی ہیں اور ایسی بہت سی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں جن میں سیاست دانوں کے شاہانہ طرز زندگی کو دیکھایا گیا۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ سیاست دان عوام کے پیسے پر شاہانہ زندگی گزارتے ہیں جبکہ عام لوگ جدوجہد کرتے ہیں۔
ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر وائرل ویڈیوز میں سیاسی خاندانوں کے شاہانہ طرز زندگی کا موازنہ عام لوگوں کی زندگی کے ساتھ کیا گیا۔ ان ویڈیوز کے مطابق اشرافیہ ڈیزائنر کپڑے، غیر ملکی دوروں اور لگژری گاڑیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ ملک کے نوجوانوں طبقے کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان مظاہروں کے نعرے عدم مساوات کے ساتھ ساتھ گہری مایوسی کی علامت بھی بن گئے۔