سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مریخ پر دریافت ہونے والی غیرمعمولی چٹانوں میں اس سیارے پر ماضی کی ممکنہ زندگی کے اب تک کے سب سے زیادہ دلکش ثبوت ملے ہیں۔
چٹانوں پر موجود غیرمعمولی نشانات سے تیندوے کے جسم پر موجود دھبوں کی طرح نظر آتے ہیںسائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مریخ پر دریافت ہونے والی غیرمعمولی چٹانوں میں اس سیارے پر ماضی کی ممکنہ زندگی کے اب تک کے سب سے زیادہ دلکش ثبوت ملے ہیں۔
ناسا کی خلائی گاڑی ’پرسیویئرنس روور‘ کے ذریعے گرد بھرے دریا کے کنارے پائے جانے والے مٹی کے ڈھیلے دلچسپ نشانات سے بھرے ہوئے ہیں جنھیں تیندوے کے دھبوں اور پوست کے بیجوں کا نام دیا گیا ہے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ان میں ایسے کیمیائی ردعمل سے جنم لینے والی معدنیات شامل ہیں جن کا تعلق قدیم مریخ کے جرثوموں سے ہوسکتا ہے۔
یہ ممکن ہے کہ معدنیات قدرتی ارضیاتی عمل کا نتیجہ ہوں لیکن یہ نتائج ناسا کے اس معیار پر پورا اترنے کے لیے کافی اہم ہیں جسے ’ممکنہ بایو سگنیچرز‘ یا زندگی کے ممکنہ آثار کہا جاتا ہے۔
مریخ پر وہ مقام جہاں یہ چٹانیں ملیںاس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرنے کے لیے مزید تحقیقات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں کہ آیا وہ اصل میں حیاتیاتی ہیں۔
امپیریل کالج لندن سے تعلق رکھنے والے سیاروں کے سائنسدان پروفیسر سنجیو گپتا کا کہنا ہے کہ 'ہمارے پاس اس سے پہلے ایسا کچھ نہیں تھا، اس لیے میرے خیال میں یہ بہت بڑی بات ہے۔
’ہم نے چٹانوں میں ایسی خصوصیات پائی ہیں جن کی وضاحت حیاتیات سے کی جا سکتی ہے- مائیکروبیئل عمل کے ذریعے۔ لہٰذا ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں زندگی مل گئی ہے لیکن ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ واقعی ہمیں تحقیق کے لیے کچھ دے رہا ہے۔‘

معدنیات جرثوموں کے ذریعے بنیں یا نہیں، اس کی تصدیق کرنے کا واحد طریقہ یہ ہوگا کہ چٹانوں کو تجزیے کے لیے زمین پر واپس لایا جائے۔
ناسا اور ای ایس اے کی جانب سے مریخ سے نمونوں کی واپسی کے مشن کی تجویز پیش کی گئی ہے لیکن اس کا مستقبل انتہائی غیریقینی نظر آتا ہے۔
امریکی خلائی ایجنسی کو سائنس بجٹ میں ایسی بہت زیادہ کٹوتیوں کا سامنا ہے جو ٹرمپ حکومت کے 2026 کے بجٹ میں تجویز کی گئی ہیں اور نمونوں کی واپسی کا منصوبہ بھی منسوخی کا سامنا کرنے والوں میں سے ایک منصوبہ ہے۔
آج مریخ ایک سرد اور خشک صحرا ہےلیکن اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ اربوں سال پہلے اس میں ایک کثیف ماحول اور پانی تھا، جس کی وجہ سے یہ ماضی کی زندگی کو دیکھنے کے لیے ایک امید افزا جگہ بنتا ہے۔
پرسیویئرنس روور کو، جو 2021 میں مریخ کی سطح پر اترا تھا ، حیاتیات کی علامات کی تلاش کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اس نے پچھلے چار سال جیزیرو شہابی گڑھے نامی خطے میں گزارے ہیں، جو کبھی ایک قدیم جھیل تھی اور جہاں ایک دریا بہتا تھا۔
روور کو پچھلے سال تیندوے کے دھبوں جیسے نشانوں والی چٹانیں برائٹ اینجل فارمیشن نامی علاقے میں ملیں جو دریا کے بہاؤ کی وجہ سے بننے والی ایک وادی کے زیریں حصے میں واقع ہے۔ یہ تقریباً ساڑھے تین ارب سال پرانی ہیں اور اس قسم کی چٹانوں کو جسے مڈ سٹون کہا جاتا ہے۔ یہ مٹی سے بنی باریک دانے دار چٹانیں ہیں۔
نیویارک کی سٹونی بروک یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سائنسدان جوئل ہرووٹز کا کہنا ہے، ’ہمیں فوری طور پر معلوم ہو گیا تھا کہ ان چٹانوں میں کچھ دلچسپ کیمیائی عمل ہوا ہے لہٰذا ہم فوراً بہت پرجوش ہوگئے تھے۔‘
روور نے چٹانوں میں معدنیات کا تجزیہ کرنے کے لیے اپنی آن بورڈ تجربہ گاہ میں کئی آلات استعمال کیے جس کے بعد اس ڈیٹا کو سائنس دانوں کے مطالعے کے لیے زمین پر واپس بھیج دیا گیا۔
ڈاکٹر ہرووٹز کا کہنا ہے ’ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ پایا ہے وہ کیمیائی ردعمل کے ایک مجموعے کا ثبوت ہے جو اس کیچڑ میں ہوا جو ایک جھیل کی تہہ میں جمع تھا - اور ایسا لگتا ہے کہ یہ کیمیائی ردعمل خود کیچڑ اور نامیاتی مادے کے درمیان ہوا ہے - اور ان دونوں اجزا نے مل کر نئی معدنیات کی تشکیل میں کردار ادا کیا۔‘
زمین پر اسی طرح کے حالات میں، معدنیات پیدا کرنے والے کیمیائی ردعمل عام طور پر جرثوموں کے ذریعہ کارفرما ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر ہرووٹز کا کہنا ہے کہ ’یہ اس بات کی ممکنہ وضاحت ہے کہ ان چٹانوں میں یہ خصوصیات کیسے پیدا ہوئیں۔ یہ آج تک ممکنہ بایو سگنیچر کی سب سے قابلِ یقین نشاندہی ہے۔‘
پرسیویئرنس نے مریخ سے چٹانوں کے نمونے اکٹھے کیے ہیںسائنس دانوں نے یہ بھی جائزہ لیا ہے کہ یہ معدنیات جرثوموں کے بغیر کیسے بن سکتی ہیں اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کیمیائی ردعمل کے پیچھے قدرتی ارضیاتی عمل بھی ہوسکتا ہے۔
تاہم ان کے خیال میں اس کے لیے بہت زیادہ درجہ حرارت کی ضرورت ہو گی اور ایسا نہیں لگتا کہ چٹانوں کو گرم کیا گیا ہو۔
ڈاکٹر ہرووٹز نے کہا کہ ’ہمیں غیر حیاتیاتی طریقوں کے حوالے سے کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا - لیکن ہم انھیں مکمل طور پر رد نہیں کرسکتے ہیں۔‘
پرسیویئرنس مریخ سے نمونے جمع کر رہا ہے جن میں برائٹ اینجل فارمیشن میں پائی جانے والی چٹانیں بھی شامل ہیں جنھییں کنستروں میں ذخیرہ کیا گیا ہے اور انھیں مریخ کی سطح پر کسی ایسے مشن کے انتظار میں رکھا جائے گا جو انھیں واپس زمین پر لا سکتا ہو۔
اس طرح کے مشن کے لیے ناسا کے منصوبے بجٹ میں کٹوتی کی دھمکی کی وجہ سے غیریقینی ہیں لیکن چین ایک نمونہ واپسی کے مشن پر بھی عمل پیرا ہے جو 2028 میں روانہ کیا جا سکتا ہے۔
اس فنکار کی تخلیق ظاہر کرتی ہے کہ جیزیرو شہابی گڑھا کیسا نظر آسکتا تھاجبکہ اس فیصلے پر ابھی بحث کی جارہی ہے، سائنسدان چٹانوں کے معائنے کے لیے بےچین ہیں۔
پروفیسر گپتا کا کہنا ہے کہ ’ہمیں ان نمونوں کو زمین پر واپس لانے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں حقیقی اعتماد کے لیے زیادہ تر سائنسدان زمین پر ان چٹانوں کو دیکھنا اور ان کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔
’یہ ان ترجیحی نمونوں میں سے ایک ہیں، جنھیں ہم زمین پر دیکھنا چاہتے ہیں۔‘