کراچی میں ڈکیتیوں کے ملزمان جو ’چینی ڈیٹنگ ایپ اور پولیس کی وردیاں استعمال کرتے تھے‘

ملزمان کی گرفتاری، ان کے موبائل فونز کے تجزیے اور تفتیش سے افسران کو معلوم ہوا کہ گرفتار کیے گئے افراد واداتوں میں پولیس کی جعلی وردیاں بھی استعمال کر رہے تھے۔ لیکن پھر ملزمان کی ایک غلطی نے پولیس کے لیے ان کی گرفتاری کو ممکن بنا دیا۔
سندھ، کراچی، پولیس
Getty Images
گرفتار کیے گئے افراد واداتوں میں پولیس کی جعلی وردیاں بھی استعمال کر رہے تھے (علامتی تصویر)

ویڈیو میں ایک ادھیڑ عمر شخص بیٹھا ہوا نظر آ رہا ہے اور جو شخص ویڈیو بنا رہا ہے وہ اسی شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہا ہے ’یہاں انھوں نے فُل امریکی ماحول بنایا ہوا ہے۔‘

یہ ایک ایسی ویڈیو کا منظر ہے جو کراچی پولیس کو حال ہی میں ایک ایسے ملزم کے موبائل فون سے ملی جسے متعدد ڈکیتیوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ یہ ملزم ایک ایسے گروہ کا حصہ تھا جسے رواں مہینے کی تین تاریخ کو گلشن اقبال پولیس نے گرفتار کیا۔

ان ملزمان کے خلاف ڈکیتی کے دو مقدمات قائم تھے جو کراچی ایسٹ پولیس کے ترجمان کے مطابق ’جعلی پولیس اہلکار بن کر‘ لوگوں کو ان کے گھروں میں جا کر لوٹ رہے تھے۔

بی بی سی کو دستیاب ایف آئی آرز کے مطابق اس گروہ نے تھانہ گلشنِ اقبال کی حدود میں دو وارداتیں رواں برس آٹھ فروری اور چھ مارچ کو کی تھیں۔

تاہم تفتیش کے دوران ڈکیتی کی ان وارداتوں کے پیچھے ملزمان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ایک ایسی چینی ڈیٹنگ ایپ کا استعمال کر رہے تھے جو ہم جنس پرستوں کے لیے ہے۔

ملزمان کی گرفتاری، ان کے موبائل فونز کے تجزیے اور تفتیش سے افسران کو معلوم ہوا کہ گرفتار کیے گئے افراد واداتوں میں پولیس کی جعلی وردیاں بھی استعمال کر رہے تھے لیکن پھر ملزمان کی ایک غلطی نے پولیس کے لیے ان کی گرفتاری کو ممکن بنا دیا۔

یہ غلطی کیا تھی؟ اسے سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ ملزمان ڈکیتی کے لیے لوگوں کو کیسے شناخت کرتے تھے اور کس طرح سے ان کا پتہ معلوم کرتے تھے۔

ملزمان لوگوں کو کیسے پھنساتے تھے؟

گلشنِ اقبال تھانے کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) نعیم راجپوت نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ان کے علاقے کے حدود میں تین ڈکیتیاں اور شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کی وارداتیں ہوئی تھیں تاہم مقدمے کے انداراج کے لیے صرف دو افراد ہی سامنے آئے۔

پولیس کے مطابق گرفتار ہونے کے بعد تفتیش کے دوران ایک مرکزی ملزم نے بتایا کہ وہ ڈکیتی کے لیے لوگوں کا انتخاب کرنے کے لیے ہم جنس پرست افراد کے لیے بنائی گئی سوشل میڈیا ایپ ’بلیوڈ‘ کا استعمال کرتے تھے۔ یہ ایک چینی ایپ ہے اور اسے سنہ 2012 میں بنایا گیا تھا۔

گلشنِ اقبال تھانے کے ایک پولیس اہلکار کا دعویٰ ہے کہ جن افراد کے گھروں پر ڈکیتی کی وارداتیں ہوئیں انھوں نے مقدمات کے اندراج کے وقت پورا واقعہ بیان نہیں کیا تھا۔

خیال رہے کہ پاکستان میں قانوناً ہم جنس پرستی کی اجازت نہیں۔ بی بی سی نے دونوں متاثرین سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

پولیس کو ملزمان کے موبائل فونز سے آٹھ ویڈیوز ملی ہیں اور پولیس کی جانب سے 14 متاثرین کو بھی شناخت کر لیا گیا ہے۔ ملزمان کے خلاف کراچی کے مختلف تھانوں میں چھ مقدمات درج ہیں۔

بی بی سی کو دستیاب معلومات کے مطابق متاثرین میں ایک صحافی، ایک سابق ایوی ایشن افسر اور پاکستانی بحریہ کے ایک سابق افسر بھی شامل ہیں۔

ایس ایچ او نعیم راجپوت کہتے ہیں کہ ’ان (ملزمان اور متاثرین) کے روابط انٹرنیٹ پر قائم ہوئے اور متاثرین نے ان کے ساتھ اپنی ذاتی معلومات جیسے گھر کا پتا وغیرہ بھی شیئر کیا۔‘

بلیوڈ ایپ
Getty Images
تفتیش کے دوران ایک مرکزی ملزم نے بتایا کہ وہ ڈکیتی سے قبل لوگوں کا انتخاب کرنے کے لیے ہم جنس پرست افراد کے لیے بنائی گئی سوشل میڈیا ایپ 'بلیوڈ' کا استعمال کرتے تھے

انھوں نے بتایا کہ ڈکیتی کی دونوں وارداتیں اپارٹمنٹس میں ہوئی تھیں۔

نعیم راجپوت کا کہنا تھا کہ ’اپارٹمنٹس میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی نیا بندہ آتا ہے تو اس سے سکیورٹی گارڈز پوچھتے ہیں کہ اندر کہاں جانا ہے؟ ملزمان کے پاس متاثرین کی ذاتی معلومات پہلے سے موجود ہوتی تھیں اس لیے انھیں کسی کے گھر میں گھسنے میں کوئی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔‘

ایک واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے ایس ایچ او نے مزید بتایا کہ جب ملزمان گھر میں داخل ہو جاتے تو اپنی جیکٹ اتارتے اور نیچے پولیس کی جعلی وردی پہنے ہوئے ہوتے تھے جسے دیکھ کر متاثرین گھبرا جاتے تھے اور پھر ملزمان گھر سے قیمتی سامان اور پیسے بھی لے جاتے تھے۔

پولیس کے مطابق ڈکیتی کے دونوں واقعات میں ملزمان متاثرین کو اپنے ساتھ اے ٹی ایم مشینوں تک بھی لے کر گئے تاکہ بینک اکاؤنٹس سے بھی پیسے نکلوائے جا سکیں۔

کراچی، ڈکیتی
Getty Images
ملزمان کے پاس متاثرین کی ذاتی معلومات پہلے سے موجود ہوتی تھیں

ایزی پیسہ کے ذریعے رقم کی منتقلی اور پولیس کو ملنے والا سُراغ

اس گروہ کی جانب سے گلشن اقبال کی حدود میں کی جانے والی پہلی ڈکیتی کے بعد پولیس کو ملزمان کی شناخت میں مشکل ضرور ہو رہی تھی لیکن ایس ایچ او نعیم راجپوت کے مطابق دوسری واردات کے دوران ملزمان پیچھے ایک سُراغ چھوڑ گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ملزمان جلدی میں تھے اور چاہتے تھے کہ متاثرہ شخص کے اکاؤنٹ میں موجود آخری 45 ہزار روپے بھی انھیں مل جائیں اور اس کے لیے انھوں نے ایزی پیسہ کے ذریعے متاثرہ شخص کے اکاؤنٹ سے پیسے کسی دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل کیے اور اسی طرح پولیس کو ایک فون نمبر مل گیا۔‘

نعیم راجپوت کے مطابق جب پولیس نے اس نمبر کی تفصیلات نکالیں تو انھیں اس نمبر کے کال ریکارڈ میں ایک ایسا نمبر دکھائی دیا جس پر متعدد بار کال کی جاتی تھی۔

’یہ نمبر کراچی کے علاقے کورنگی میں موجود تھا اور جب پولیس وہاں پہنچی تو انھیں ایک پیزا ڈیلیوری بوائے نظر آیا جس کا ان جرائم سے کوئی تعلق نہیں تھا، ملزمان کو اس کے ریستوران کا پیزا پسند تھا اس لیے وہ اس کو آرڈر دیا کرتے تھے۔‘

پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ یہی پیزا ڈیلیوری بوائے پھر پولیس اہلکاروں کو ملزم کے گھر لے گیا اور وہاں سے پولیس کو ایک ملزم کی والدہ کا فون نمبر ملا جنھوں نے پولیس کو بتایا کہ ان کے بیٹے نے دوسری شادی کر رکھی ہے اور اس کی پہلی بیوی رحیم یار خان جبکہ دوسری بیوی کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال میں مقیم ہے۔

نعیم راجپوت نے بتایا کہ ملزم اپنا تعارف بطور سی آئی اے پولیس کے اے ایس آئی کے کرواتا تھا اور جب اسے گرفتار کیا وہ تب بھی پولیس کی جعلی وردی میں ملبوس تھا۔

گلشنِ اقبال پولیس کے مطابق انھوں نے ملزمان کے قبضے سے لوٹا ہوا کچھ سامان بھی برآمد کر لیا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.