کیا آپ کو کبھی کسی نے کھانے کے ساتھ یا اس کے فورا بعد کافی یا چائے پینے کے مضر اثرات کے بارے میں خبردار کیا ہے؟ اگر ہاں تو وہ آپ کے خیرخواہ ہو سکتے ہیں کیونکہ اس میں کچھ صداقت کا عنصر ضرور ہے۔

کیا آپ کو کبھی کسی نے کھانے کے ساتھ یا اس کے فورا بعد کافی یا چائے پینے کے مضر اثرات کے بارے میں خبردار کیا ہے؟ اگر ہاں تو وہ آپ کے خیرخواہ ہو سکتے ہیں کیونکہ اس میں کچھ صداقت کا عنصر ضرور ہے۔
کافی میں ایک ہزار سے زیادہ کیمیائی مرکبات ہوتے ہیں جن میں سے چند کو ہم کیفین، پولیفینول، اور ٹیننز کے طور پر جانتے ہیں۔ یہ اجزا آپ کے کھانے کو جذب یا ہضم کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔
لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں میں یہ اثرات اتنے کم ہوتے ہیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
غذائیت فراہم کرنے والے اجزا ہمارے کھانے اور مشروبات میں پائے جانے والے مادے ہیں جو جسم میں کچھ اہم کام انجام دیتے ہیں۔ ہمیں صحت مند رکھنے کے لیے مختلف غذائیت یا غذائی اجزا کی ضرورت ہوتی ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کے نیوٹریشن سائنس ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ کرنے والے محقق اور ہیلتھ سائنسز اکیڈمی کے چیف سائنس ایجوکیٹر الیکس روآنی کہتے ہیں کہ ’غذائی اجزا کا جذب مکمل طور پر ’بلاک‘ نہیں ہوتا ہے البتہ اس عمل میں کچھ کمی واقع ہو سکتی ہے۔‘
روآنی وضاحت کرتے ہیں کہ اس کا اثر بہت سی چیزوں پر منحصر ہے جیسے کہ کافی کی طاقت، استعمال کی جانے والی غذائی اجزا کی مقدار، اور انفرادی خطرے کے عوامل جیسے عمر، میٹابولزم، صحت کی حالت اور جینیات وغیرہ۔
ہم جن غذائی اجزا کے بارے میں بات کر رہے ہیں ان میں کیلشیم، آئرن اور وٹامن بی وغیرہ شامل ہیں۔
لائنس پالنگ انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر اور اوریگون سٹیٹ یونیورسٹی کے کالج آف ہیلتھ کی پروفیسر ایملی ہو کہتی ہیں کہ اگر آپ کی ’غذائیت کی سطح پہلے سے ہی بہتر ہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن جو غذائیت کی کمی کے دہانے پر ہیں یا کمی کا شکار ہیں ان کے لیے کافی کا زیادہ استعمال مزید کمی کا باعث بن سکتا ہے۔‘
حاملہ خاتون کو اپنے جسم میں فولاد کی مقدار پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور زیادہ کافی پینے سے اس میں کمی واقع ہو سکتی ہےکن لوگون کو اپنی کافی کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے؟
سنہ 1980 کی دہائی سے ہونے والے مطالعات میں کافی کو آئرن یعنی فولاد کے کم جذب کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔
پروفیسر ایملی ہو کہتی ہیں کہ ’جب آپ کھانے کے ساتھ کافی پیتے ہیں، تو اس میں موجود پولیفینول آپ کے نظام انہضام میں کچھ مادوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ یہ بائنڈنگ پراسیس یعنی روکنے کا عمل آپ کے جسم کے لیے آئرن کو جذب کرنا مشکل بنا سکتا ہے کیونکہ ان مادوں کو خون میں شامل ہونے کے لیے آنتوں کے خلیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر وہ پولیفینول میں پھنسے رہتے ہیں، تو وہ صرف آپ میں داخل ہوتے ہیں اس سے گزرتے ہیں اور خارج ہوجاتے ہیں‘، جذب نہیں ہوتے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ آئرن کے لیے خاص طور پر اہم ہے اور بطور خاص پودوں پر مبنی کھانوں میں پائی جانے والے آئرن کے لیے جسے ’نان ہیم آئرن‘ کہا جاتا ہے۔ جسم کے لیے پھلوں اور سبزیوں پر مبنی کھانے سے نان ہیم آئرن جذب کرنا مشکل ہوتا ہے۔
کافی میں پولیفینول اور بطور خاص کلوروجینک ایسڈ ہوتے ہیں جو پھلوں اور سبزیوں سے آنے والے آئرن کو خون میں مناسب طریقے سے جذب ہونے سے روکتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر جسم کے لیے ضروری آئرن یا فولاد ان مرکبات میں پھنس جاتا ہے اور بالآخر جسم میں جانے اور اس کے ذریعے استعمال ہونے کے بجائے خارج ہو جاتا ہے۔
اس سب کا مطلب یہ ہے کہ آئرن کی کمی والے اور خون کی کمی کے شکار افراد کو آئرن سے بھرپور کھانے کے ساتھ کافی پینے کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔
ایلکس روآنی کہتے ہیں: ’بہتر تو یہ ہے کہ آئرن سے بھرپور غذا کھانے سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے یا چند گھنٹے بعد آپ اپنی کافی سے لطف اندوز ہوں تاکہ وہ آپ کے پیٹ میں مکس نہ ہوں۔‘
ماہواری کے دور سے گزرنے والی خواتین اور حاملہ خواتین اکثر ان اثرات کا سامنا کرتی ہیں جنھیں اپنے آئرن کی سطح پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انھیں عام طور پر زیادہ آئرن کی ضرورت ہوتی ہے اور ان میں آئرن کی کمی سے انیمیا ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے اس لیے انھیں اپنی کافی کے استعمال پر نظر رکھنی چاہیے۔
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ کیفین آپ کے جسم کے لیے کیلشیئم کا حصول مشکل بنا سکتی ہےکیلشیم
کیلشیم ہڈیوں کی صحت کے لیے انتہائی ضروری جزو ہے لیکن برطانیہ میں 16-49 سال کی عمر کے نو فیصد افراد کم سے کم کیلشیم کی مقدار (لویسٹ ریفرنس نیوٹرینٹ انٹیک) سے بھی کم کیلشیم لیتے ہیں۔ یہ کمی انھیں بعد کی زندگی میں کمزور ہڈیوں کے خطرے سے دوچار کر دیتی ہے۔
ہمارے گردے خون سے فضلہ اور اضافی پانی (پیشاب کے طور پر) نکالتے ہیں اور جسم میں کیمیکلز (سوڈیم، پوٹاشیم اور کیلشیم وغیرہ) کو متوازن رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ وہ ہارمونز بھی بناتے ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کیفین آپ کے جسم میں کیلشیم کے ٹکنے کو مشکل بنا سکتا ہے اور گردوں میں اس کے پراسس ہونے اور آنتوں میں جذب ہونے پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
اس لیے اس کے اثرات ان لوگوں پر زیادہ ہو سکتے ہیں جو پہلے سے ہی کم کیلشیم والی خوراک کھاتے ہیں یا ہڈیوں سے متعلق صحت کے مسائل سے دو چار ہیں۔
روآنی کا کہنا ہے کہ ’آسٹیوپوروسس انٹرنیشنل نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک مشہور تحقیق میں کہا گيا ہے کہ کیفین ہڈیوں کے میٹابولزم میں مداخلت کر کے ہڈیوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن آسٹیوپوروسس کے خطرے پر کیفین کے حقیقی اثرات کا تعین کرنے کے لیے مزید مطالعات کی ضرورت ہے۔‘
کیلشیم جسم میں ذخیرہ کیا جا سکتا ہے لہٰذا آپ کو کوئی تجویز کردہ مقدار روزانہ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن مہینوں میں 19 سال سے 64 سال کی عمر کے بالغ افراد کو روزانہ اوسطاً 700 ملی گرام کیلشیم لینی چاہیے۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کیفین کا ڈائیورٹک اثر ہوتا ہے یعنی آپ کو کتنی بار پیشاب کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
پروفیسر ہو کہتی ہیں کہ ’یہ پانی میں حل ہونے والے وٹامنز (جیسے بعض وٹامن بی) اور معدنیات (جیسے آئرن اور کیلشیم) کے ضائع ہونے کا سبب بن سکتا ہے، کیونکہ جسم سے اخراج کی سطح کو منظم کرنے میں ان کا کردار ہوتا ہے۔
بی وٹامنز
محقق روآنی بتاتے ہیں کہ ’گردے کے کام اور غذائیت کے تحلیل ہونے پر کافی کے اثر کی وجہ سے، کافی کی زیادہ مقدار پینا (جیسے دن میں چار کپ یا اس سے زیادہ) اخراج (پیشاب پخانے) میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے، اور اس کے ساتھ، پانی میں تحلیل ہونے والے وٹامنز، بشمول بی ٹامنز کے اخراج کا سبب بن سکتا ہے۔'
بی وٹامنز پانی میں گھل جاتے ہیں، اس لیے وہ جسم میں جمع نہیں ہوتے۔ اس کے بجائے کوئی بھی اضافی چیز پیشاب کے ذریعے خارج ہوجاتی ہے۔
ماہرین صحت یہ مشورہ دیتے ہیں کمچی جیسی پروبائیوٹک سے بھرپور غذائیں کافی کے ساتھ نہیں لینی چاہیےپروبایوٹکس
پروبائیوٹکس زندہ بیکٹیریا اور خمیر ہیں جنھیں صحت کے مختلف فوائد کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
این ایچ ایس کی ویب سائٹ کے مطابق بعض صورتوں میں یہ آپ کی آنتوں میں بیکٹیریا کے قدرتی توازن کو بحال کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں لیکن ان کے بارے میں صحت کے بہت سے دعووں کے بارے میں کم شواہد ہیں۔
لیکن اگر آپ پروبائیوٹک سپلیمنٹس یا پروبائیوٹک سے بھرپور غذائیں جیسے دہی اور کمچی کو آزمانا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ انھیں کافی جیسے گرم مشروبات کے ساتھ استعمال کرنے سے بچیں۔
روآنی کہتے ہیں کہ ’پروبائیوٹکس میں زندہ بیکٹیریا گرم ماحول کے لیے انتہائی حساس ہوتے ہیں، اور زیادہ درجہ حرارت جیسے کافی کی گرمی کو برداشت کرنے کی ان کی قوت کم ہوتی ہے اس لیے کافی معدے میں ان کی بقا کی شرح کو کم کر سکتی ہے، جس سے وہ کم موثر ہو جاتے ہیں۔‘
بعض اوقات پروبایوٹکس کو ڈاکٹر اینٹی بائیوٹک ادویات کی وجہ سے ہونے والے اسہال کو کم کرنے میں مدد کے لیے تجویز کرتے ہیں۔ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے اگر آپ نے ایک کپ کافی پی ہے تو پروبائیوٹک لینے کے لیے نصف گھنٹے سے ایک گھنٹے تک انتظار کریں۔
صرف کافی نہیں ہے بلکہ دوسری مشروبات جن میں زیادہ کیفین ہوتے ہیں وہ بھی جسم میں غذائی اجزاء کے جذب ہونے کے عمل میں روکاوٹ بن سکتے ہیںکیا کافی کے بدلے چائے پینا بہتر ہے؟
اگر آپ کافی کی جگہ چائے پینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو آپ کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ چائے پر بھی کافی جیسے ہی خدشات لاگو ہوتے ہیں۔
پروفیسر ہو نے خبردار کرتے ہوئے کہا: ’درحقیقت، چائے میں موجود پولیفینول غذائی اجزا کی حیاتیاتی طور پر دستیابی پر اسی طرح کا اثر ڈال سکتے ہیں جیسے کافی کے پڑتے ہیں لہٰذا اگر آپ غذائی اجزا کے جسم میں جذب ہونے یا ہضم ہونے کے بارے میں فکر مند ہیں تو آپ کو اپنی چائے کے استعمال کے وقت پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔‘