سعودی عرب کے وہ شہزادے جو پچھلے دو دہائیوں سے خاموشی کی دنیا میں ہیں، اپنی زندگی کی 36 ویں برس میں داخل ہوگئے ہیں۔ شہزادہ الولید بن خالد بن طلال آل سعود کو دنیا "سلیپنگ پرنس" کے نام سے جانتی ہے۔
یہ نوجوان شہزادہ 2005 میں برطانیہ کے ایک ملٹری کالج میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے ایک خطرناک کار حادثے کا شکار ہوئے تھے، جس میں انہیں شدید دماغی چوٹ لگی۔ اس چوٹ کے بعد وہ مسلسل کومہ میں چلے گئے، اور تب سے وہ لائف سپورٹ مشینوں، وینٹی لیٹر اور فیڈنگ ٹیوب کے ذریعے زندگی گزار رہے ہیں۔
کنگ عبدالعزیز میڈیکل سٹی میں زیرِ علاج شہزادے کی حالت میں برسوں سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ صرف 2019 میں ایک لمحے کے لیے ان کی انگلیاں اور سر ہلتے دیکھے گئے تھے، مگر ہوش میں آنے کی کوئی پکی امید اب تک سامنے نہیں آ سکی۔
ڈاکٹرز کئی بار مشورہ دے چکے ہیں کہ لائف سپورٹ ہٹایا جائے، کیونکہ بہتری کے امکانات تقریباً معدوم ہو چکے ہیں۔ تاہم، ان کے والد شہزادہ خالد بن طلال ہر بار یہ رائے مسترد کر دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے:
"اگر اللہ نے ان کی موت لکھی ہوتی تو وہ اس دن نہ بچتے۔ ہم بس دعا کر رہے ہیں اور امید نہیں چھوڑتے۔"
سعودی عوام اور دنیا بھر سے ان کے چاہنے والے شہزادہ الولید کی سالگرہ پر پیغامات اور دعائیں شیئر کر رہے ہیں۔ شہزادہ صرف شاہی خاندان کے فرد نہیں بلکہ اب امید، برداشت اور والدین کی بے مثال محبت کی ایک علامت بن چکے ہیں۔