بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے رہنما اظہرالاسلام کی سزائے موت کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اظہرالاسلام سنہ 2012 سے جیل میں قید تھے اور ان پر ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے ارتکاب کا الزام تھا۔سنہ 1952 میں پیدا ہونے والے اظہرالاسلام جماعت اسلامی کے ان چھ رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہیں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے دور میں سزائیں دی گئی تھیں۔واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں جون 2026 میں عام انتخابات متوقع ہیں جن میں جماعت اسلامی سمیت متعدد سیاسی جماعتیں سرگرمی سے حصہ لینے کی تیاری کر رہی ہیں۔اظہرالاسلام کے وکیل شیشر منیر کا کہنا ہے کہ وہ ’خوش قسمت‘ ہیں کیونکہ دیگر پانچ سیاسی رہنماؤں کو پہلے ہی پھانسی کی سزا دی جا چکی ہے۔ان پانچ میں سے چار کا تعلق جماعت اسلامی جب کہ ایک کا بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) سے تھا۔انہوں نے کہا کہ ’اظہرالاسلام زندہ تھے، اسے لیے انہیں انصاف مل گیا۔‘اظہرالاسلام کو سنہ 2014 میں 1971 کی جنگ کے دوران ریپ، قتل اور نسل کشی جیسے جرائم کی بنیاد پر موت کی سزا سنائی گئی تھی۔سنہ 1971 میں جماعت اسلامی نے پاکستان کی حمایت کی تھی۔شیخ حسینہ واجد نے اپنے دور اقتدار میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی تھی اور اس کے رہنماؤں کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن کیا تھا۔اظہر الاسلام نے سزائے موت کے خلاف سنہ 2015 میں اپیل دائر کی تھی لیکن 2019 اس سزا کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔اس کے بعد سنہ 2020 میں اظہرالاسلام نے اس فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کی تھی۔