پنجگور کی کھجور کی امریکہ برآمد: ’اب بچوں کے لیے کتابیں بھی ہیں اور پینسلیں بھی‘

image
54 سالہ محمد یونس پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے شہر پنجگور کے رہائشی ہیں۔ ان کے آٹھ بچے ہیں جن میں سے پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ ان سبھی کو پڑھائی کا بہت شوق ہے۔ لیکن کچھ عرصہ پہلے تک محمد یونس کسی کو سکول نہیں بھیجتے تھے۔

اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کے پاس کسی بچے کی تعلیم کے لیے پیسے تھے نہ ہی ان کے کپڑوں، جوتوں، بستوں اور کتابوں کے لیے۔

محمد یونس کی خاندانی زمین پر کھجوروں کے کچھ درخت تھے، ان پر کھجور کا پھل تو اچھا لگتا تھا لیکن اس کی قیمت اچھی نہیں لگتی تھی۔

کھجور پکتی تھی اور بیوپاری خریدتے نہیں تھے، یہاں تک کہ وہ خراب ہونے کے قریب ہوتی اور پھر وہ من مانی قیمت دے کر چند پیسوں کے عوض اس کو اٹھا لیتے۔

خاندان کی گزر بسر کرنے کے لیے محمد یونس کو دیہاڑی پر مزدوری کرنا پڑتی۔ کبھی کسی مستری کے ساتھ تو کبھی کسی ریستوران پر اور کبھی کہیں اور۔

یہ سال 2021 کی بات ہے جب متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے ساتھ مل کر محمد یونس کے علاقے میں کھجوروں کا ایک پراسیسنگ پلانٹ لگایا تاکہ یہاں پیدا ہونے والی کھجوروں کو بین الااقوامی معیار کے مطابق تیار کر کے پاکستان اور دنیا بھر میں فروخت کے لیے بھیجا جائے۔

تمر پنجگور کے نام سے جانی جانے والی اس فیکٹری کے قیام کے بعد محمد یونس اور ان کے علاقے کے دیگر زمیندار اپنی کھجوریں فیکٹری کو فروخت کرنا شروع کر دی جہاں سے انہیں بہتر قیمت ملنے لگی۔

اگرچہ محمد یونس کی کھجوریں اب بہتر قیمت پر فروخت ہوتی تھیں لیکن ان کے گھر کے حالات زیادہ نہیں بدلے کیونکہ ان کے پاس اتنے زیادہ درخت نہیں تھے جو ان کو محض کھجوروں کی فروخت سے مالی آسودگی فراہم کر سکتے۔

خیر زیادہ وقت نہیں گزرا جب انہیں علم ہوا کہ اسی کھجور فیکٹری میں ایک عدد مالی کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا پہلا مالی نوکری چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی قسمت آزمانے کے لیے فیکٹری انتظامیہ سے رابطہ کیا تو انہیں مارچ 2022 میں نوکری مل گئی۔

 محمد یونس فیکٹری میں لگے درختوں کی باغبانی کرتے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

اب وہ جہاں فیکٹری میں لگے پودوں اور درختوں کی باغبانی کرتے ہیں وہیں اپنی زمینوں پر کھجوروں کے درختوں کی تعداد بڑھا رہے ہیں تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ کھجوریں فروخت کر کے زیادہ پیسے کما سکیں۔

ان کو اس وقت تنخواہ اور کھجور کی آمدن سے اتنے مناسب پیسے مل جاتے ہیں کہ وہ اچھی گزر بسر کرنے کے ساتھ اپنے بچوں کو سکول بھیجیں۔ محمد یونس بتاتے ہیں کہ ان کے سات بچے پرائمری سے لے کر مڈل تک مختلف جماعتوں کے طلبا ہیں۔

’اب میں ان کی پینسل اور کاپیوں (کتابوں) کا خرچ برداشت کر لیتا ہوں کیونکہ کہ اب مجھے اس کھجور فیکٹری سے باقاعدہ تنخواہ ملتی ہے۔ پہلے میں ان کو پڑھنے کے لیے نہیں بھیجتا تھا کیونکہ اگر یہ سکول جاتے تو  کتابیں، کپڑے، جوتے تو ایک طرف ان کے جیب خرچ کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ اس وقت میں دیہاڑی دار مزدور ہوتا تھا اور آمدن کا کبھی پتہ نہیں ہوتا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پہلے ہمیں دکاندار ادھار پر راشن بھی نہیں دیتے تھے کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ ہماری مستقل آمدن نہیں ہے اور ان کے پیسے ڈوب جانے کا خدشہ ہے۔ اب ہم جب چاہیں دکان سے کوئی بھی چیز لے سکتے ہیں اور اس کا حساب مہینے کے آخر میں ختم کر دیتے ہیں۔‘

پنجگور میں کھجور کے پراسیسنگ پلانٹ نے صرف محمد یونس جیسے غریب اور چھوٹے زمینداروں کی حالت نہیں بدلی بلکہ بڑے زمیندار بھی اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔

سرکاری معلومات کے مطابق پاکستان کا شمار کھجوریں پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے اور 17 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا پنجگور سالانہ 70 ہزار ٹن کھجوریں پیدا کرتا ہے جو مکمل ملکی پیداوار کا 50 فیصد ہے۔

تمر پنجگور کے مینیجر حسن خان کے مطابق 10 ٹن کے قریب کھجوریں امریکہ کو برآمد کی گئی ہے (فوٹو: اردو نیوز)

یہاں کی سب سے معروف کھجور ’مضاواتی‘ ہے جبکہ اس کے علاوہ یہاں پر شریفہ، راباعی، جانسور اور کربہ کھجوریں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ تاہم یہاں کے زمیندار چند سال پہلے تک ان کھجوروں کی مناسب قیمت نہ ملنے اور بیوپاریوں کی اجارہ داری سے پریشان تھے۔

انہی میں سے ایک تعلیم یافتہ نوجوان محمد جان ہیں جنہوں نے کمپیوٹر سائنس میں بی ایس کر رکھا ہے لیکن والد کی وفات کی وجہ سے انہیں خاندانی پیشہ زراعت سنبھالنا پڑا۔ وہ بتاتے ہیں کہ تمر پنجگور کے قیام سے کھجور کے زمینداروں کے استحصال کا خاتمہ ہو گیا ہے۔

’جب میں نے یہ کاروبار سنبھالا تو مجھے مارکیٹ کا اتنا اندازہ نہیں تھا، ہمارا واسطہ بیوپاریوں سے پڑتا تھا جو ہماری کھجور بہت سستے داموں لیتے تھے۔ فیکٹری کے قیام کے بعد جب ہم نے یہاں اپنی کھجور فروخت کرنا شروع کی تو نہ صرف ہمیں اس کی قیمت بہتر ملی بلکہ اس کی پروسیسنگ سے ہماری کھجور کی مانگ بھی بڑھ گئی۔‘

انہوں نے بتایا کہ اب انہیں تمر پنجگور فیکٹری نہ صرف کولڈ سٹوریج کی سہولت فراہم کرتی ہے بلکہ کھجور کی ترسیل کے لیے مخصوص ٹوکریاں بھی فراہم کرتی ہے جس سے ان کی کھجور ضائع ہونے سے بچ جاتی ہے اور وہ اس کو باغات سے ان ٹوکریوں میں ڈال کر محفوظ طریقے سے فیکٹری میں لے آتے ہیں۔

تمر پنجگور کے مینیجر حسن خان کے مطابق پنجگور سے رواں سال 600 ٹن کھجور تیار کرکے پاکستان کی مقامی مارکیٹ فروخت کی گئی ہے اور 10 ٹن کے قریب امریکہ کو برآمد کی گئی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’2021 میں لگائی جانے والی اس فیکٹری کا مقصد یہ تھا کہ بلوچستان میں پیدا ہونے والی کھجور کے ضیاع کو بچایا جائے اور زیادہ سے زیادہ کھجور کو مارکیٹ میں بھیجنے کے قابل بنایا جا سکے۔‘

سرکاری معلومات کے مطابق پاکستان کا شمار کھجوریں پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

’اگست اور ستمبر کے ماہ میں جب کھجور کی کاشت ہو جاتی ہے تو ہم اس کی گریڈنگ کر کے اور پیکنگ کر کے مارکیٹ میں بھجوا دیتے ہیں۔‘

حسن خان نے بتایا کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی مضاواتی کھجور ایران اور دنیا کے کئی دیگر ممالک کی کھجور سے ذائقے میں بہتر اور سائز میں بڑی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ محمد یونس اور محمد جان جیسے مقامی زمیندار اب اپنے باغات میں درختوں کی تعداد اور کھجوروں کی پیداوار زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہتے ہیں۔

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.