جب ہم پاکستان میں زراعت کے شعبے کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے ذہن میں گندم، کپاس، چاول، گنا، مکئی وغیرہ کی فصلوں کے نام فوری طور پر ابھرتے ہیں۔ ان فصلوں کو پاکستان کے زرعی شعبے میں بڑی یا اہم فصلیں قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں فوڈ سکیورٹی کے ساتھ ساتھ ملک کی اہم ٹیکسٹائل اور شوگر انڈسٹری کے ساتھ برآمدی شعبے میں بھی ان فصلوں کا اہم کردار ہے۔

پاکستانی حکومت کی طرف سے جاری کردہ اقتصادی سروے کے مطابق معیشت میں کلیدی کردار کا حامل زراعت کے شعبے میں موجودہ مالی سال کے دوران شرح نمو ایک فیصد سے بھی کم رہی ہے۔
حکومتی اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ زراعت کے شعبے میں آدھا فیصد شرح نمو کی وجہ پولٹری اور لائیو سٹاک کے شعبے میں ہونے والی معاشی ترقی ہے۔ جبکہ بڑی فصلوں کی پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
جب ہم پاکستان میں زراعت کے شعبے کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے ذہن میں گندم، کپاس، چاول، گنا، مکئی وغیرہ کی فصلوں کے نام فوری طور پر ابھرتے ہیں۔
ان فصلوں کو پاکستان کے زرعی شعبے میں بڑی یا اہم فصلیں قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں فوڈ سکیورٹی کے ساتھ ساتھ ملک کی اہم ٹیکسٹائل اور شوگر انڈسٹری کے ساتھ برآمدی شعبے میں بھی ان فصلوں کا اہم کردار ہے۔
تاہم موجودہ مالی سال کے اقتصادی سروے میں جب ان فصلوں کی پیداوار کا جائزہ لیا جائے تو فصلوں کی پیداوار میں موجودہ مالی سال میں ساڑھے تیرہ فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
پاکستان میں زراعت کا شعبہ کچھ چھوٹی فصلوں جیسے باجرہ، جوار، پھل و سبزیوں پر بھی مشتمل ہے۔ تاہم زرعی شعبے میں بڑی پانچ فصلیں گندم، گنا، چاول، کپاس اور مکئی شمار کی جاتی ہیں جن کی پیداوار میں بڑی کمی دیکھی گئی۔
واضح رہے کہ ملک میں زرعی شعبہ قومی جی ڈی پی میں 23 فیصد سے زائد حصہ رکھتا ہے اور ملک میں 40 فیصد کے قریب روزگار بھی فراہم کرتا ہے۔
بڑی فصلوں کی پیداوار کیوں کم رہی؟
موجودہ مالی سال کے جاری کردہ اقتصادی سروے کے مطابق ملک کی پانچ بڑی فصلوں کی پیداوار میں ساڑھے تیرہ فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
حکومت کےمطابق موجودہ مالی سال میں کپاس کی پیداوار میں 30 فیصد سے زائد کی کمی ریکارڈ کی گئی جو 70 لاکھ بیلز رہی۔ گذشتہ سال ملک میں ایک کروڑ سے زائد بیلز کی پیداوار ہوئی تھی۔ گنے کی فصل تقریباً چار فیصد کمی کے بعد چوراسی لاکھ ٹن رہی۔
موجودہ مالی سال میں چاول کی پیداوار میں تقریباً ڈیڑھ فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی جس کے بعد اس کی پیداوار نوے لاکھ ٹن رہی۔
ملک میں مکئی کی پیداوار بھی موجودہ مالی سال میں 15 فیصد کمی کے بعد 82 لاکھ ٹن رہ گئی۔
اسی طرح موجودہ مالی سال میں گندم کی فصل میں لگ بھگ نو فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی جس کے بعد اس کی پیداوار دو کروڑ 80 لاکھ ٹن رہ گئی جو گذشتہ مال سال میں تین کروڑ دس لاکھ ٹن تھی۔
بڑی فصلوں کی پیداوار کو دیکھا جائے تو اس میں 13 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی جس میں گندم، گنا، کاٹنمکئی وغیرہ شامل ہیںماہرین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ حکومتی پالیسیوں کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی بھی ہے۔
زرعی امور کے ماہر اور صدر سندھ آباد گار بورڈ محمود نواز شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ بڑی فصلوں کی پیداوار میں ہونے والی کمی 25 سال کے بعد ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا 25 سال پہلے ملک میں خشک سالی کی وجہ سے یہ کمی ہوئی تھی تاہم اب اس کی کچھ دوسری وجوہات ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’درجہ حرارت بڑھنے کا بہت منفی اثر گنے، مکئی اور چاول کی فصل پر ہوا۔ اسی طرح بارشوں نے کپاس کی فصل کو خراب کیا تو اس کے ساتھ حکومت کی جانب سے روئی اور خام کاٹن کی درآمد پر ڈیوٹی کی چھوٹ اور ملک میں کاٹن پر ٹیکس نے اس کی ڈیمانڈ کو کم کیا۔ تو دوسری جانب گندم کی قیمت کو ڈی ریگولیٹ کرنے کی حکومتی پالیسی نے اس پر منفی اثر ڈالا۔‘
کاٹن کے شعبے کے ماہر احسان الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ کاٹن کی پیداوار میں کمی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کی ملک میں کھپت ایک ایشو ہے جس کی وجہ سے اس کی پیداوار میں کمی دیکھی گئی۔
انھوں نے کہا اس وقت روئی، خام کاٹن اور گرے کلاتھ کی درآمد بغیر کسی ڈیوٹی کے ہو رہی ہے جبکہ ملک میں ان پر 18 فیصد ٹیکس لگا ہوا ہے۔ ان کی مقامی اور بین الاقوامی قیمتیں یکساں ہیں جس کا مطلب ہے کہ مقامی کاٹن کی کھپت نہیں تو اس کی پیداوار بھی کم ہوئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی نے کپاس کی فصل کو منفی طور پر متاثر کیا جب کہ ملک میں گنے کی فصل کی زیادہ کاشت کی وجہ سے کاٹن اکنامی زون میں کمی واقع ہوئی ہے۔
چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین باٹھ نے بی بی سی کو بتایا اگر گندم کی فصل کو لیا جائے تو گذشتہ سال پنجاب حکومت نے کسانوں سے گندم نہ خریدنے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے کسانوں کو بہت زیادہ نقصان ہوا۔
گندم کے ایک من پر لاگت چار ہزار روپے تھی تاہم انھیں 2000 روپے فی من بھی نہ ملے جس کی وجہ سے اس سال گندم کی کم بوائی کی گئی۔ انھوں نے حکومت کے گندم کی پیداوار میں نو فیصد کمی کو بھی غلط قرار دیا اور کہا یہ پیداوار پندرہ سے بیس فیصد کم ہوئی۔
واضح رہے پنجاب حکومت نے گندم کے ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہ ہونے کی بنیاد پر اس کی خریداری نہیں کی گئی تھی اور بار دانہ یعنی گندم کی سپورٹ پرائس کی پالیسی کو ختم کردیا تھا جس کے تحت حکومت کسانوں سے گندم ایک خاص قیمت پر خریدتی تھی تاکہ کسان کو اس کی گندم پر اٹھنے والی لاگت مل سکے۔

کسان اور عوام کیسے متاثر ہوں گے؟
جی ڈی پی میں ایک بڑا حصہ ہونے کی وجہ سے زراعت کے شعبے کی کارکردگی ملکی شرح نمو کو متاثر کرتی ہے۔ ماہرین نے اس کی وجہ سے کسانوں اور عام لوگو ں کے منفی طور پر متاثر ہونے کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
محمود نواز شاہ نے اس سلسلے میں بتایا کہ زرعی شعبہ ملک میں 40 فیصد تک روزگار فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پیداوار کم ہونے کا مطلب ہے کہ زرعی معشیت سے پانچ سے سات سو ارب روپے باہر نکلے ہیں یعنی اس معیشت میں سرمایہ کاری کم ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کم پیداوار کی وجہ سے کسان کی آمدن میں کمی واقع ہوئی ہے جب کہ دوسری جانب ملک مہنگائی زیادہ ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کی قوت خرید کم ہو گی۔ انھوں نے کہا زراعت سے منسلک افراد اپنی آمدنی کی بنیاد پر چیزیں خریدتے ہیں۔ جب آمدنی ہی کم ہو گی تو وہ کیسے ضرورت کی چیزیں خرید پائیں گے۔
انھوں نے کسانوں کی آمدنی کی کمی کی وجہ سے اس طبقے میں غربت بڑھنے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح ان کی آمدن کم ہونے کی وجہ سے دوسرے شعبے بھی متاثر ہوں گے۔
محمود نواز شاہ نے کہا کسان جہاں زراعت کے شعبے میں پیداواری عمل کا بنیادی کردار ہے تو دوسری جانب وہ صارف بھی ہے اور اسے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے آمدن میں اضافے کی ضرورت ہے۔
وہ مثال دیتے ہیں کہ ملک میں بکنے والی موٹر سائیکلوں کی مجموعی فروخت میں پچاس فیصد سے زائد موٹر سائیکلیں زراعت سے منسلک لوگ خریدتے ہیں اور جب فصل کی کٹائی ہوتی ہے تو یہ طبقہ اکثر موٹو سائیکل خریدتا ہے تاہم یہ خریداری بھی اس وقت ہوتی ہے جب کسان کو اس کی پیداوار پر منافع حاصل ہو۔
انھوں نے کہا اس کے ساتھ یہ خدشہ بھی ہے کہ کم آمدن کی وجہ سے ان کی مالی سکت اتنی نہیں ہے کہ وہ اگلے سال نئی فصل لگانے کے لیے قابل ہوں کیونکہ بیج سے لے کر کھاد، بجلی اور ڈیزل پر اٹھنے والے اخراجات کے لیے کسان کے پاس پیسہ ہو جو فی الحال زرعی شعبے میں ہونے والی کم پیداوار کی وجہ سے ان کے پاس نہیں جو مستقبل میں فصلوں کی کاشت کو متاثر کر سکتی ہے۔
خالد حسین باٹھ نے اس سلسلے میں بتایا کہ کسان اپنی فصلوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر پورے سال کے اخراجات پر تخمینہ لگاتے ہیں۔ جن میں روزمرہ کی ضروریات کے علاوہ اپنی بچوں کی شادیوں کے لیے سونا اور فرنیچر کی خریداری بھی شامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ فصلوں کی پیداوار میں کمی اور پھر لاگت نہ پورا نہ ہونے کی وجہ سے جو حالات بنے ہیں اس کی وجہ سے کسان کی حالت بہت زیادہ خرا ب ہو گئی ہے۔
زرعی شعبے کی خراب کارکردگی کے طویل مدتی اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟

زراعت اور معیشت کے شعبوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے طویل مدتی منفی اثرات پاکستان میں فوڈ سکیورٹی اور صنعتی شعبوں پر پڑیں گے۔
زرعی امور کے ماہر حافظ وصی محمد خان کے مطابق جب کسان کو اس کی پیداوار میں خسارہ ہوگا تو اس کی دلچسپی کم ہوگی اور وہ اس پیشے سے دوسرے شعبوں کی طرف جا سکتا ہے، جیسے کہ دیہات سے شہروں کی طرف منتقل ہونا ہے جو زراعت کے شعبے کے لیے منفی ہونے کے ساتھ شہروں پر بڑھتے دباؤ کا باعث ہو گا۔
ماہر معیشت ڈاکٹر عامر ضیا کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ طویل مدت میں یہ اثرات منفی ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا گندم پاکستانیوں کی غذا کا اہم حصہ ہے اس کا مطلب ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو مستقبل میں پاکستان کی فوڈ سکیورٹی خطرے سے دو چار ہوسکتی ہے اور اس کے لیے پاکستان کو درآمد ی گندم پر انحصار کرنا پڑ سکتا ہے۔
انھوں نے کہا جو حالات نظر آرہے ہیں اس میں تو گندم کا بحران اس سال کے آخر میں بھی ہوتا نظر آرہا ہے۔
’اسی طرح کاٹن پاکستان کی اہم ٹیکسٹائل انڈسٹری کا کلیدی خام مال ہے اس کی پیداوار میں ہونے والی بڑی کمی اس صنعت کے لیے منفی اثرات کی حامل ہو سکتی ہے۔‘
حافظ وصی نے اس سلسلے میں کہا کہ زراعت کے شعبے میں لانگ ٹرم خطرے سے بچنے کے لیے پاکستان کو فوری طور پر پالسی بنانی ہوگی جو زراعت کے شعبے کو سہارا دے سکے۔

معاشی بحالی کے دعوے اور زمینی حقائق
اگلے مالی سال کے لیے پیش کیے جانے والے بجٹ سے ایک دن قبل حکومت کی جانب سےجاری کیے گئے اس اقتصادی سروے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال میں ملکی معاشی ترقی کی شرح 2.7 فیصد رہے گی۔
پاکستانی حکومت نے اس بنیاد پر معاشی ترقی کا دعویٰ کیا ہے کہ اس کی پالیسی اور سخت مالیاتی اقدامات نے ملکی معاشی شرح نمو کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے جو دو سال قبل منفی تھی اور گذشتہ مالی سال میں اس میں معمولی بہتری ریکارڈ کی گئی تھی۔ تاہم بعض معاشی ماہرین نے اعداد و شمار پر سوالات اٹھائے ہیں۔
مشیر وزیر خزانہ خرم شہزاد نے بتایا ہے کہ گذشتہ تین سال کے عرصے میں دنیا بھر میں پیداوار میں کمی دیکھی گئی ہے مگر پاکستان میں پیداوار بڑھی اور مہنگائی میں کمی آئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ زرعی پیداوار میں گراوٹ کی کئی وجوہات ہیں، جیسے پانی اور بارش میں کمی۔
واضح رہے کہ موجودہ مالی سال کی پہلی تین سہہ ماہیوں میں ملکی شرح نمو اوسطاً ڈیڑھ فیصد رہی۔ تاہم حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال کی آخری سہہ ماہی میں ملکی شرح نمو چار فیصد سے زائد رہے گی جس کی وجہ سے پورے سال کی مجموعی ملکی شرح نمو دو 2.7 فیصد رہے گی۔
پاکستان میں معیشت کے ماہرین کے مطابق حکومت کا یہ دعویٰ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔
بڑی صنعتوں کی پیداوار میں مسلسل کمی ریکارڈ کی گئی ہےپلاننگ کمیشن آف پاکستان کے سابقہ ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر ندیم الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کی ساکھ پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
انھوں نے کہا کہ پہلی تین سہہ ماہیوں میں گروتھ کم رہی اور حکومت نے چوتھی سہہ ماہی میں اسے کھینچ کر شرح نمو کے اعداد و شمار کو اوپر ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے کہا اسے ’جادو ہی کہا جا سکتا ہے کہ اچانک سے نمبرز کو اتنا زیادہ دکھایا گیا ہے۔‘
ماہر معیشت ڈاکٹر اکرام الحق بھی ان اعداد و شمار کی ساکھ پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’تین سہہ ماہیوں میں ملکی گروتھ کم رہی اور چوتھی میں اسے زیادہ ظاہر کیا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ابھی اس مالی سال میں کچھ دن رہتے ہیں اور یہ شرح نمو کا نمبر بھی 11 مہینوں پر مشتمل ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب یہ مالی سال مکمل ہو جائے گا تو امکان ہے کہ ملکی شرح نمو کا نمبر دو فیصد یا اس سے کم پر ظاہر کیا جائے۔
مالی سال کے اختتام سے پہلے معاشی ترقی کے دعوے اور معاشی اشاریوں کے تخمینے کے بارے میں وزیر اعظم پاکستان کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل نے رابطہ کرنے پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ کوئی نئی پریکٹس نہیں۔ ان کے مطابق کئی دہائیوں سے ایسا ہی ہوتا ہے کہ بجٹ سے پہلے اقتصادی سروے میں پورے سال کا معاشی ترقی کا تخمینہ دیا جاتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ مالی سال کے اختتام پر معاشی اعداد و شمار پر نظر ثانی کی جاتی ہے۔
جب ان سے بڑی فصلوں اور بڑی صنعتوں کی پیداوار میں کمی کے باوجود معاشی شرح نمو میں اضافے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے تسلیم کیا کہ اگرچہ بڑی فصلوں کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے تاہم 'جو جی ڈی پی کے اعداد و شمار بتائے گئے ہیں وہ مجموعی ہوتے ہیں، جن میں زرعی شعبے کےعلاوہ صعنتی شعبے اور سروسز شعبے کے اعداد و شمار بھی شامل ہوتے ہیں۔'
ان کے بقول اسی بنیاد پر یہ کہا گیا ہے کہ ملکی جی ڈی پی میں ترقی ہوئی ہے۔