پاکستانی طالبعلم عماد پراچہ اُس ٹیم کے ایک اہم رکن تھے جس نے ناسا کے ساتھ ’سُپر بی آئی ٹی‘ نامی پراجیکٹ پر کام کیا اور اسے لانچ کیا۔
پاکستانی طالبعلم عماد پراچہ اُس ٹیم کے ایک اہم رکن تھے جس نے ناسا کے ساتھ ’سُپر بی آئی ٹی‘ نامی پراجیکٹ پر کام کیا اور اسے لانچ کیا۔
سُپر بی آئی ٹی ’سُپر پریشر بیلون بورن امینجگ ٹیلی سکوپ‘ کا مخفف ہے جو کہ ایک کم لاگت سے تیار کی گئی ٹیلی سکوپ ہے جو ایک بڑے غبارے کے نیچے نصب ہوتی ہے اور اس کی مدد سے خلا کی تصاویر اور اس کا مشاہدہ کرنے میں مدد ملی۔
ماہرین کے مطابق یہ ٹیلی سکوپ ڈارک میٹر یعنی تاریک مادے کی تقسیم کا مطالعہ کرنے اور کائنات کو سمجھنے کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔
سپر بی آئی ٹی کو سنہ 2023 میں لانچ کیا گیا تھا اور یہ 40 دن تک پرواز کے بعد زمین پر واپس لوٹی تھی۔ اس مشن کے دوران 50 سے زیادہ مختلف فلکیاتی تحقیق کے اہداف کی تصویر کشی کی گئی تھی۔ عماد اور اُن کی ٹیم اب سُپر بی آئی ٹی کے اگلے ماڈل ’گیگا بی آئی ٹی‘ پر کام کر رہے ہیں جس میں بڑی ٹیلی سکوپ اور کمیونیکیشن ہو گی۔
سپر بی آئی ٹی نامی ٹیلی سکوپ کی خاص بات یہ ہے کہ ناسا کی پچھلی دوربینوں (جیسا کہ ہبل) کے برعکس اُس کو خلا میں بھیجنے کے لیے کسی راکٹ کی ضرورت نہیں ہے جبکہ اسے ہبل سے تین ہزار گنا سستی قیمت میں بنایا جا سکتا ہے۔
بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے عماد نے بتایا کہ انھیں بچپن سے ہی ’آؤٹر سپیس‘ یعنی بیرونی خلا کو پڑھنے اور سمجھنے کا شوق تھا اور یہ شوق انھیں اُس وقت ہوا جب وہ اپنے والد کو پاکستانی فضائیہ کا جیٹ اڑاتے دیکھتے اور سوچتے کہ آخر آسمان کے اس پار کیا ہے؟ اور اسے ایرو سپیس کی مدد سے کیسے فتح کیا جائے؟
ان کے مطابق جب انھیں پتا چلا کہ ناسا میں خلاباز بننے کے لیے روسی زبان کا جاننا ضروری ہے تو انھوں نے تین سال لگا کر یہ بھی سیکھ لی اور اب ناسا کے ساتھ کام کرنے کا خواب پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کو اس بات پر بھی فخر ہے کہ وہ اس پراجیکٹ پر کام کر کے انھوں نے پاکستان کا نام بھی روشن کیا۔
عماد کے مطابق انھوں نے اس ’پراجیکٹ پر ہارڈ ویئر کی تیاری میں مدد سے لے کر فلائٹ کوڈ لکھنے تک مختلف کردار انجام دیے اور اُن کی سب سے اہم معاونت اس پراجیکٹ کے آٹو پائلٹ موڈ کو تیار کرنا تھا جس نے سُپر بی آئی ٹی کو وقت اور اس کے مقام کی بنیاد پر خود بخود تصاویر لینے کی صلاحیت دی اور ایک ایسا فائل پروگرام بنایا جس سے یہ تصاویر زمین پر ڈاؤن لوڈ کر لی جائیں۔‘
عماد نے بتایا کہ ان کا سفر ’آئی بی اے‘ کراچی سے شروع ہوا جہاں انھوں نے میتھمیٹکس (ریاض) اور اکنامکس پڑھی جس کے بعد انھوں نے ٹورنٹو (کینیڈا) منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہاں انھوں نے میتھمیٹکس (ریاضی) اور فلکی طبیعیات پڑھی اور اسی شعبے میں ماسٹرز کرنے کا فیصلہ کیا۔
ٹورنٹو میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی وہ ایک لیب کا حصہ بنے جو ٹیلی سکوپس بناتی ہے۔
اور پھر وہ ’بیلون ایسٹرو فزکس گروپ‘ میں پی ایچ ڈی کے طالبعلم کے طور پر ناسا کے پراجیکٹ کا حصہ بنے۔ اُن کے مطابق وہ نیٹر فیلڈ کے واحد طالبعلم ہیں جو سُپر بی آئی ٹی کے اگلے ماڈل ’گیگا بی آئی ٹی‘ پر کام جاری رکھیں گے۔'
گیگا بی آئی ٹی آئندہ پانچ برسوں میں تیاری کے مراحل سے گزرنے کے بعد خلا میں جانے کے لیے تیار ہو گی، اور عماد کے مطابق اُس وقت تک وہ اپنی ڈاکٹریٹ بھی مکمل کر چکے ہوں گے۔
اُن کا کہنا ہے کہ وہ اپنے سُپر بی آئی ٹی اور ٹیک انڈسٹری کے تجربے کو استعمال کرتے ہوئے خلائی ٹیکنالوجی کے میدان میں قدم رکھنا چاہیں گے جہاں وہ ایسے آلات تیار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکیں گے جو ہیومن ریسرچ اور سائنسی تفہیم کی حدود کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکیں گے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس پراجیکٹ میں میں نے کمیونیکیشن سائیڈ پر بہت کام کیا اور میں اس پر کام جاری رکھنا چاہوں گا، کیونکہ خلا کی کمیونیکیشن ایک بہت بڑا چیلنج اور موضوع ہے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستانی نوجوان طلبا اور بالعموم تعلیم کے اداروں کو وہ یہ مشورہ دیں گے کہ تحقیق پر زیادہ توجہ دی جائے۔ ’میں طلبا کو یہ کہنا چاہوں گا کہ وہ پڑھائی صرف اچھے گریڈز کے لیے نہیں بلکہ سبجیکٹ (مضمون) کو سمجھنے کے لیے کریں۔‘
’یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں تحقیق پر کوئی توجہ نہیں ہے اور طلبہ کے لیے کوئی خاص پلیٹ فارم بھی موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب طلبہ، جو اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں آگے جانا چاہتے ہیں، انھیں بیرون ملک جانا پڑتا ہے۔ لیکن ہمیں پاکستان میں ریسرچ اور ڈویلپمنٹ میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم وہاں اس قسم کے پراجیکٹس چلا سکیں اور پاکستان میں ترقی کر سکیں۔ اس طرح ہم پاکستان سے سامنے آنے والی ٹیکنالوجی کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔‘
جبکہ عماد کے مستقبل کے اہداف خلا پر مبنی ہیں۔ اُن کو امید ہے کہ وہ پاکستان اور عالمی برادری کے درمیان تعاون قائم کر سکیں گے۔
’خلا کی سائنس ایک ملک خود نہیں کر سکتا، آپ دیکھیں کہ اس شعبے میں امریکہ روس کے ساتھ تعاون کر رہا ہیں، اور کینیڈا یورپی ممالک کے ساتھ۔۔۔ میں ایک ایسا پلیٹ فارم قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جہاں پاکستانی سائنسدان اور طلبہ بین الاقوامی برادری سے رابطہ کر سکیں تاکہ پاکستانی سائنس ترقی کر سکے۔‘