’قومی بجٹ اور مداری کا ہیٹ‘

نتیجہ یہ ہے کہ انتظامی اخراجات میں ہر سال کفایت شعاری کے وعدے اور ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے عزم کے لیے اب تک جو اندرونی و بیرونی قرضے لیے جا چکے ہیں ان کے سود کی قسط چکانے کے لیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں۔ پڑھیے وسعت اللہ خان کی تحریر۔
بجٹ
Getty Images
فائل فوٹو

میں بذاتِ خود لگ بھگ نصف صدی سے سالانہ قومی بجٹ کا شاہد ہوں۔ بجٹ تقریر کے کچھ جملے آج تک نہیں بدلے۔

ہر وزیرِ خزانہ جس نے بھلے گذشتہ سال کا بجٹ بھی پیش کیا ہو، نئی بجٹ تقریر میں بھی یہ کہنا کبھی نہیں بھولتا کہ موجودہ بجٹ پچھلے کے برعکس زیادہ عوام دوست ہے، ہم پاکستان کے ہر قابلِ ٹیکس طبقے سے نئے مالی سال میں ٹیکس وصول کریں گے، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے اس بار متمول طبقات کو زیادہ بوجھ اٹھانا پڑے گا (اس سلسلے میں ضروری قانون سازی جاری ہے)۔

یا گذشتہ برس کے برعکس اس سال تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے ریکارڈ رقم مختص کی گئی ہے (مگر تقریر میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد، علاج اور ادویات کی قیمتوں میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے)۔

ہر وزیرِ خزانہ کے بقول زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ چنانچہ کھاد پر ڈیوٹی میں پانچ فیصد کمی البتہ کیڑے مار ادویات پر محصول کی شرح میں پانچ فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے (یعنی ہم دائیں ہاتھ سے رعائیت دے کر بائیں ہاتھ سے واپس لے رہے ہیں)۔

یا غربت میں کمی کے لیے اشیائے خورد نوش پر سبسڈی برقرار رہے گی، انتہائی محروم طبقات کی مالی معاونت کے علاوہ نوجوانوں کو اپنے روزگار کے لیے بلاسود قرضے بھی دیے جائیں گے۔ (مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ اتنی غریب نوازی کے باوجود غربت کی شرح آخر پینتیس سے چالیس فیصد اور اب بڑھ کے پینتالیس فیصد کیسے ہو گئی)۔

یا سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔ تاہم پٹرول اور ڈیزل پر ڈھائی فیصد لیوی لگائی جا رہی ہے (یعنی یہ دس فیصد اضافی تنخواہ مزید مہنگی ہونے والی آمد و رفت کے بوجھ تلے غائب ہو جائے گی)۔

عملاً اس ملک کا ہر شہری براہِ راست ٹیکس سے بچنے کی اپنی سی کوشش کرتا ہے مگر ماچس، کپڑے، لتے، چینی، چائے، روٹی، بچوں کے دودھ، بجلی اور پٹرول سمیت زندگی کی لگ بھگ ہر ہر بنیادی شے پر پوری آبادی خوشی خوشی بلاواسطہ ٹیکس دے رہی ہے۔

pakistan
Getty Images

پہلے سنٹرل بورڈ آف ریوینیو تھا پھر اس کا نام غالباً اس لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کر دیا گیا کہ شاید نام بدلنے سے ہی کچھ بہتری آ جائے۔ مگر ٹیکس نیٹ میں تب بھی دس فیصد مچھلیاں تھیں۔ آج بھی دس گیارہ فیصد تڑپ رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ ٹیکس ملازمین دیتے ہیں کیونکہ ان کا ٹیکس براہِ راست تنخواہ میں سے کٹ جاتا ہے۔

مگر سب سے زیادہ ٹیکس شاید کراچی تا گلگت ان گنت ریڑھی اور چھابڑی والے بلدیہ، پولیس یا محصولاتی عملے کو روزانہ بھتے کی شکل میں سال کے تین سو پینسٹھ دن دیتے ہیں اور پھر یہ بھتہ سبزی اور پھل خریدنے والے گاہک پر ٹھیلے والا فوراً دوگنا کر کے منتقل کر دیتا ہے (اس نظامکو عرفِ عام میں مہنگائی کہا جاتا ہے)۔

مگر اس قدر جاں فشاں بھتہ مشینری تھوک فروشوں، سناروں، بزازوں، تاجروں، صنعت کاروں اور درآمد و برآمد کنندگان سے قانونی طور پر واجب الادا ٹیکس اگلوانے میں مسلسل ناکام کیوں ہے؟

اس ملک نے کئی طاقتور فوجی اور سویلین حکمران دیکھے ہیں مگر ٹیکس چور ادارے اور افراد ان سب سے زیادہ طاقتور ثابت ہوئے ہیں۔

کوئی عدالت، کوئی احتسابی ادارہ ان کا بال بیکا نہیں کر سکا۔ کیونکہ کوئی کسی صاحبِ اقتدار کا واقف ہے، کوئی کسی جماعت کا ووٹ بینک ہے، کوئی آڑے وقت میں کام آ کر بادشاہ گروں کو احسان مند کرنے کا ماہر ہے، کوئی عدالتی سٹے لینے کا اسپیشلسٹ ہے، کوئی کسی نہ کسی طاقت ور کا کالا پیسہ سفید کرنے کا جادوگر ہے، کوئی کسی نوری یا ناری کا کمیشنی دلال ہے اور کوئی میڈیا پر اشتہارات کی بارش کر کے حکمران اشرافیہ پر دباؤ ڈال کے الو سیدھا کرنے کے فن میں طاق ہے۔ ان حالات میں کون مائی کا لال کس مائی کے لال کو ٹیکس نیٹ میں قید کر سکتا ہے؟

نتیجہ یہ ہے کہ انتظامی اخراجات میں ہر سال کفایت شعاری کے وعدے اور ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے عزم کے لیے اب تک جو اندرونی و بیرونی قرضے لیے جا چکے ہیں ان کے سود کی قسط چکانے کے لیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں۔

جو براہِ راست ٹیکس جمع ہو رہا ہے وہ بھی اکثر بنیادی انفراسٹرکچر کے بجائے اگلے الیکشن میں سرخرو رہنے کے لیے نمائشی منصوبوں پر صرف ہو جاتا ہے۔

چنانچہ دو ہزار پچیس میں بھی عالمی ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی) میں شامل ایک سو ترانوے ممالک میں پاکستان ایک سو اڑسٹھویں نمبر پر ہے (اطمینان بس یہ ہے کہ ہم اس انڈیکس میں نیپال اور افغانستان سے بہتر ہیں)۔

pakistan
Getty Images

بہت اچھی بات ہے کہ ہر ریاست کی طرح ہم بھی ترقی کی شاہراہ پر تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کی بھرپور امنگ رکھتے ہیں۔ ہم جنوبی کوریا، ملائشیا، ویتنام یا کم از کم ترکی بننا چاہتے ہیں۔ کاش یہ ہدف سیاسی و اقتصادی اصلاحات، جانفشانی اور تعلیمی معیار کی بہتری کے بغیر ہی حاصل ہو جائے تو کتنا اچھا ہو۔

وزیرِ خزانہ کی سالانہ تقریر سے پہلے پارلیمنٹ کے ہر ڈیسک پر فیتے سے بندھی بھاری بجٹ دستاویزات رکھ دی جاتی ہیں۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ کتنے ارکانِ اسمبلی یہ مالیاتی زنبیل پوری پڑھتے ہیں؟ ارکانِ اسمبلی کو رہنے دیجیے، جو کابینہ بجٹ کی منظوری دیتی ہے اس کے کتنے ارکان اس دستاویز کی ہر سطر پر انگلی پھیرتے ہیں؟

اس تناظر میں جب کوئی وزیرِ خزانہ ہر سال جون میں یہ خوشخبری سناتا ہے کہ ہماری حکومت کی ’بیدار مغز‘ پالیسیوں کے سبب اچھے دن بس اگلے نکڑ پر ہی کھڑے ہیں تو مجھے جانے کیوں سکول کے دور کا وہ نکٹائی والا مداری یاد آ جاتا ہے جو آنکھیں بند کر کے ’اگڑم بگڑم چھاتم شتو تگڑم دھو‘ کا ورد کرتا کرتا بند مٹھی کھولتا تو ہاتھوں سے لگاتار پھول گرنے لگتے۔

پھر وہ منھ سے سو سو روپے کے نوٹ نکالنے کا معجزاتی کرتب دکھاتا۔ آخر میں خالی ہیٹ لے کر دائرے میں کھڑے مجمع کا چکر لگاتا اور چونی، اٹھنی روپیہ نذرانہ وصول کر کے تالیوں کی گونج میں بیگ اٹھا کر سال بھر کے لیے رخصت ہو جاتا۔ ہم بچے یہی سوچتے رہ جاتے کہ اگر یہ جادوگر منھ سے نوٹ نکال سکتا ہے تو پھر خالی ہیٹ مجمعے میں کیوں گھماتا ہے؟

کیسے جانا ہے، کہاں جانا ہے، کیوں جانا ہے

ہم کے چلتے چلے جاتے ہیں، پتہ کچھ بھی نہیں

(جواد شیخ)


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.