ایران بمقابلہ اسرائیل۔۔ کس کا پلڑا کتنا بھاری ؟ زمینی، فضائی اور بحری فوجی طاقت کا موازنہ

image

جمعے کی صبح اسرائیل نے ایران کے فوجی اور جوہری تنصیبات پر حملے کیے، جس سے دونوں دیرینہ حریف ممالک کے درمیان کشیدگی ایک نئے اور خطرناک مرحلے میں داخل ہو گئی۔ یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہوئے جب خطے میں پہلے ہی بے چینی اور ناچاقی کی فضا موجود ہے، اور اب دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔

ماضی کے تناظر میں حالیہ حملے

ایران اور اسرائیل کے درمیان حملوں کا سلسلہ کوئی نئی بات نہیں۔ اپریل 2024 میں دمشق میں واقع ایرانی سفارت خانے پر مشتبہ اسرائیلی فضائی حملے میں ایران کی پاسدارانِ انقلاب کے سات اہلکار مارے گئے تھے۔ اسی طرح، اکتوبر 2024 میں ایران نے اسرائیل پر میزائلوں کی بارش کر دی تھی، جس کے جواب میں اسرائیل نے ایران کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا اور چار ایرانی فوجی مارے گئے تھے۔

این بی سی نیوز کے مطابق، اکتوبر اور اپریل کے ان حملوں میں اسرائیل نے ایران کے S-300 ایئر ڈیفنس نیٹ ورک اور ٹھوس ایندھن تیار کرنے والے آلات کو بھی نشانہ بنایا تھا، جو بیلسٹک میزائلوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

فوجی ماہرین اور سابق امریکی و اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو "سنگین نقصان" پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے، تاہم وہ ایران کے زیرِ زمین جوہری ٹھکانوں پر مؤثر حملہ کرنے کے لیے درکار بھاری بموں اور طیاروں کا حامل نہیں۔ ماہرین کے مطابق، اس تازہ ترین حملے کے بعد ایران اپنے تمام جوہری ساز و سامان کو زیرِ زمین منتقل کرنے کی کوشش کرے گا۔

فضائی دفاعی نظام

دی ملٹری بیلنس 2023 کے مطابق، اسرائیل کا آئرن ڈوم سسٹم اس کے فضائی دفاع کا بنیادی حصہ ہے، جو راڈار سسٹم کے ذریعے میزائلوں کی رفتار اور سمت کا پتا لگاتا ہے۔ ان میزائلوں کو جو خطرناک نہ ہوں، زمین پر گرنے دیا جاتا ہے، جب کہ خطرناک میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کر دیا جاتا ہے۔

ایران نے گزشتہ سال فروری میں قلیل فاصلے اور نچلی پرواز والے "آذرخش" فضائی دفاعی نظام کو تعینات کیا، جو انفرا ریڈ، ریڈار، اور الیکٹرو آپٹک نظام سے لیس ہے تاکہ اہداف کا پتہ لگا کر انہیں روک سکے۔

فوجی افرادی قوت

الجزیرہ کے مطابق، ایران کے پاس 6 لاکھ 10 ہزار فعال اہلکار موجود ہیں، جن میں 3 لاکھ 50 ہزار فوج، 1 لاکھ 90 ہزار پاسدارانِ انقلاب، 18 ہزار بحریہ، 37 ہزار فضائیہ اور 15 ہزار فضائی دفاع کے اہلکار شامل ہیں، جبکہ 3 لاکھ 50 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ایک ریزرو فوج بھی موجود ہے۔

اس کے برعکس اسرائیل کے پاس 1 لاکھ 69 ہزار 500 فعال اہلکار ہیں، جن میں 1 لاکھ 26 ہزار فوج، 9 ہزار 500 بحریہ، اور 34 ہزار فضائیہ کے اہلکار شامل ہیں۔ اسرائیل کی ریزرو فورس 4 لاکھ 65 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ہے۔

دفاعی اخراجات

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI) کی اپریل 2025 میں شائع رپورٹ کے مطابق، 2024 میں ایران کے دفاعی اخراجات 10 فیصد کمی کے بعد 7.9 ارب ڈالر رہ گئے، جس کی وجہ بین الاقوامی پابندیاں بتائی گئی ہیں۔

دوسری جانب، اسرائیل کے دفاعی اخراجات 2024 میں 65 فیصد اضافے کے بعد 46.5 ارب ڈالر ہو گئے جن میں غزہ پر جاری اسرائیلی حملوں کی وجہ سے مزید اضافہ کیا گیا۔ واضح رہے اسرائیلی جارحیت سے اب تک 55 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔

فضائی قوت

الجزیرہ کے مطابق، اسرائیل کے پاس 345 جنگی طیارے اور 43 حملہ آور ہیلی کاپٹر موجود ہیں۔ ایران کے پاس 312 جنگی طیارے اور پاسداران انقلاب کے پاس مزید 23 طیارے ہیں۔ ایران کی فضائیہ کے پاس 2، فوج کے پاس 50، اور پاسدارانِ انقلاب کے پاس 5 حملہ آور ہیلی کاپٹرز بھی ہیں۔

فوربز کے مطابق، ایران کے فضائی بیڑے کو کافی حد تک نظر انداز کیا گیا ہے، جس کے باعث اسرائیل نے بغیر کسی دباؤ کے ایران پر حملے کیے۔ ایران کے MiG-29 جیسے طیارے 35 سال پرانے ہیں، جبکہ F-14A ٹام کیٹس تقریباً 50 سال پرانے ہیں۔ F-4 فینٹمز اور F-5 ٹائیگرز جیسی تیسری نسل کے طیارے دنیا بھر میں تقریباً ناپید ہو چکے ہیں۔

زمینی افواج

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے پاس 10,513 ٹینک، 6,798 توپیں، اور 640 سے زائد بکتر بند گاڑیاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ، فوج کے پاس 50 اور پاسداران انقلاب کے پاس 5 ہیلی کاپٹرز ہیں۔

اسرائیل کے پاس تقریباً 400 ٹینک، 530 توپیں، اور 1,190 بکتر بند گاڑیاں ہیں۔

بحریہ

ایران کے پاس 17 چھوٹے آبدوزیں، 68 گشت کرنے والے بحری جہاز، 7 کورویٹس، 12 لینڈنگ شپس، 11 لینڈنگ کرافٹس، اور 18 معاون جہاز موجود ہیں۔

اسرائیل کے پاس 5 آبدوزیں اور 49 ساحلی گشت کرنے والے بحری جہاز موجود ہیں۔

بیلسٹک میزائل

الجزیرہ کے مطابق، ایران کے پاس 12 مختلف اقسام کے قریبی اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل موجود ہیں، جن میں ٹنڈر 69 (150 کلومیٹر رینج) سے لے کر خرمشہر اور سَجّیل (2,000 کلومیٹر رینج) تک شامل ہیں۔

اسرائیل کے پاس چار اقسام کے قلیل، درمیانے اور درمیانے سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل موجود ہیں، جن میں لورا (280 کلومیٹر) سے لے کر جریکو 3 شامل ہے، جس کی رینج 4,800 سے 6,500 کلومیٹر تک ہے۔

جوہری صلاحیتیں

امریکہ میں قائم "آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن" کے مطابق، اسرائیل کے پاس تقریباً 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔

ایران کے پاس فی الحال کوئی جوہری ہتھیار نہیں، تاہم وہ جوہری سرگرمیوں میں مصروف ہے، جنہیں وہ پُرامن مقاصد کے لیے قرار دیتا ہے، مگر یہی سرگرمیاں اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے ساتھ اس کے تنازعے کی بنیاد بن چکی ہیں۔

ایران اور امریکہ کے درمیان اپریل سے اب تک پانچ بار مذاکرات ہو چکے ہیں، جو 2015 کے ایٹمی معاہدے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علیحدگی کے بعد سب سے اعلیٰ سطح کا رابطہ ہے۔

تاہم، حال ہی میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکہ کا وہ بنیادی مطالبہ رد کر دیا جس کے تحت ایران کو یورینیم کی افزودگی ترک کرنی تھی۔ خامنہ ای نے اسے ایران کے "سو فیصد مفادات کے خلاف" قرار دیا۔


About the Author:

Khushbakht is a skilled writer and editor with a passion for crafting compelling narratives that inspire and inform. With a degree in Journalism from Karachi University, she has honed her skills in research, interviewing, and storytelling.

عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.