ایک جانب پاکستان ایران کے ساتھ اخلاقی اور سفارتی حمایت کا اظہار کر رہا ہے وہیں بعض حلقوں میں یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ پاکستان ایران کی کس حد تک مدد کر سکتا ہے اور اس کا پاکستان پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟

ایران اسرائیل تنازع اور دونوں ممالک کے ایک دوسرے پر حملوں کو چھ دن ہو گئے ہیں۔ جہاں ایک جانب پاکستان نے ایران پر اسرائیلی حملے کی کھل کر مذمت کی ہے وہیں اس بڑھتی کشیدگی کے باعث اسلام آباد میں تشویش بھی پائی جا رہی ہے۔
بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ایران، اسرائیل جنگ ’خطے اور عالمی امن کے لیے خطرناک ہے‘ اسی لیے اس کو روکنے کے لیے عالمی برادری فوری اقدامات کرے۔
انھوں نے کہا کہ ’ایران، اسرائیل جنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال تشویشناک ہے، پاکستان نے ایران پر اسرائیل کی کھلی جارحیت کی بھرپور مذمت کی ہے اور عالمی برداری ایران، اسرائیل جنگ بندی کے لیے فوری کردار ادا کرے۔‘
پاکستان نے اب تک اس تنازع میں سفارتی سطح پر ایران کی حمایت کی ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے 13 جون کو ایک بیان میں کہا کہ ’عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کی پاسداری کریں، اس جارحیت کو فوری طور پر روکیں اور اسرائیل کو اس کے اعمال کے لیے جوابدہ ٹھہرائیں۔‘
پاکستان نے سلامتی کونسل کی اجلاس میں بھی واضح الفاظ میں اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ایران کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
رواں ہفتے پاکستان میں ایرانی سفارتخانے کے ایکس اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو شیئر کی گئی جس میں ایرانی پارلیمنٹ میں اراکین کو ’پاکستان تشکر تشکر‘ کے نعرے لگاتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے ایرانی پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری تنازع میں پاکستان کی جانب سے ایران کی حمایت پر اسلام آباد کا شکریہ ادا کیا جس کے بعد ایرانی اراکینِ پارلیمنٹ نے ’پاکستان تشکر تشکر، پاکستان تشکر تشکر‘ کے نعرے لگائے۔
https://twitter.com/IraninIslamabad/status/1934599321032483280
ایسے میں سوشل میڈیا پر ایک ایرانی فوجی افسر سے منسوب یہ خبریں بھی گردش کرتی رہیں کہ ایران پر ’ممکنہ ایٹمی حملے کی صورت میں پاکستان اسرائیل پر ایٹمی حملہ کر دے گا۔‘
تاہم سوموار کے روز سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے اس خبر کو ’بے بنیاد اور جھوٹ‘ پر مبنی قرار دیتے ہوئے ’فیک نیوز‘ قرار دیا۔
پاکستان کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہماری قوم کی امانت ہے۔ یہ پروگرام پاکستانی قوم نے بہت قربانیوں سے حاصل کیا ہے۔‘
اس تمام تر صورتحال میں جہاں ایک جانب پاکستان ایران کے ساتھ اخلاقی اور سفارتی حمایت کا اظہار کر رہا ہے وہیں بعض حلقوں میں یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ پاکستان ایران کی کس حد تک مدد کر سکتا ہے؟ کیا عسکری تعاون ممکن ہے؟ اور اس کا پاکستان پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟
ادھر امریکی صدر ٹرمپ کے مطابق وائٹ ہاؤس میں ان کی پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ایران کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔۔ شاید دوسروں سے بہتر۔۔ اور وہ اس صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔‘
واضح رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تقریباً 750 کلومیٹر طویل سرحد موجود ہے جہاں سے روزانہ کی بنیاد پر دونوں جانب کے شہری بڑی تعداد میں آتے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تجارتی سامان بشمول تیل اور گیس بھی پاکستان آتا ہے۔
’پاکستان کسی طرح اس جنگ میں شامل ہونا نہیں چاہے گا‘
اسرائیل کے ساتھ تنازع میں پاکستان ایران کی کس حد تک مدد کر سکتا ہے، اس بارے میں بات کرتے ہوئے سابق سفیر اور اسلام آباد میں قائم سینٹر برائے انٹرنیشنل سٹریٹیجک سٹڈیز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر علی سرور نقوی کہتے ہیں ’میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان اسرائیل اور ایران کے تنازع میں براہ راست کوئی پوزیشن لینا چاہے گا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ایران کی اخلاقی حمایت کی ہے۔ علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ اس حوالے سے وزارتِ خارجہ اور وزیرِ خارجہ کی جانب سے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ پاکستان ایران کی حمایت کرتا ہے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا پاکستان ایران کی کوئی عسکری مدد کر سکتا ہے تو ان کا کہنا تھا، ’میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کسی طرح اس میں شامل ہونا چاہے گا کیونکہ پاکستان امن کے لیے کوشاں ہے۔‘
’پاکستان جنگ نہیں چاہتا، پاکستان امن چاہتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سلامتی کونسل کے ذریعے کوشش کرے گا کہ جنگ بندی ہو جائے اور ایران کے خلاف ہونے والی کارروائی کو روکا جائے۔
’پاکستان سفارتی اور سیاسی سطح پر ہی پوزیشن لے سکتا ہے‘
صحافی اور تجزیہ کار نسیم زہرہ بھی علی سرور نقوی سے متفق دکھائی دیتی ہیں۔
انھوں نے اس متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان سفارتی اور سیاسی سطح پر ہی پوزیشن لے سکتا ہے۔ جو اس نے ہر سطح پر لی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک انسانی بنیادوں پر ممکن ہے پاکستان ایران کی مدد کر رہا ہے۔ ان کے مطابق، پاکستان نے فضائی حدود کی بندش کے باعث پھنسے ایرانی حجاج کو پاکستان میں لینڈ کرنے اور انھیں زمینی راستے سے ایران واپس جانے میں مدد کی پیشکش کی ہے۔
آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ایسے وقت امریکہ میں موجودگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر جنرل عاصم منیر کے وہاں ہوتے ہوئے امریکہ اس جنگ میں براہِ راست شامل ہو جاتا ہے۔‘
نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ ’سب کو معلوم ہے کہ پاکستان جو اپنے حق میں بہتر سمجھتا ہے وہ کرتا ہے، تو جنرل عاصم منیر بھی جو پاکستان کے مفاد میں ہو گا وہی بات کریں گے۔‘
اس سوال پر کہ کیا یہ جنگ پاکستان تک پھیل سکتی ہے ان کا کہنا تھا کہ اس جنگ کا پاکستان تک پھیلنے کا خطرہ نہیں۔
’اگر یہ پھیلی بھی تو سمندروں میں پھیلے گی۔ اگر ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی کوشش کی تو یقیناً امریکہ اس پر اپنا عسکری ردِ عمل دے گا تو پاکستان اس سے دور بیٹھا ہوا ہے۔‘
پاکستان پر ایران اسرائیل تنازع کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟

اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازع سے پاکستان کے لیے پیدا ہونے والے ممکنہ مسائل کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے سابق سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں ’اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں خطہ بالکل اسی طرح عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے جس طرح گذشتہ ماہ پاکستان کے خلاف انڈین جارحیت کی وجہ سے ہوا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں ’اس سے قبل ہم نے دیکھا کہ کئی دہائیوں تک افغانستان اسی قسم کی بیرونی مداخلت کا شکار رہا جس کی وجہ سے خطے میں عدم استحکام رہا اور چونکہ ایران پاکستان کا پڑوسی ہے، اس لیے وہاں جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر پاکستان پر پڑتا ہے۔‘
دوسری جانب علی سرور نقوی کا خیال ہے کہ اسرائیل، ایران تنازع کا پاکستان پر براہِ راست اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم ’پڑوسی ملک ہونے کے ناطے ایران میں جو ہو گا اس کا کچھ نہ کچھ اثر پاکستان پر ضرور پڑے گا۔‘
’اقتصادی اثر ہو سکتا جیسے کہ تیل کی قیمتیں بڑھ جائیں لیکن براہِ راست اثر نہیں ہو گا۔‘
ایران اسرائیل جنگ میں پاکستان کی حمایت سے متعلق بات کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ پاکستان سیاسی اور سفارتی طور پر ایران کی مکمل حمایت کر رہا ہے جو کہ ایک دوست پڑوسی ملک ہونے کے ناطے بالکل درست اقدام ہے۔
’ہم نے ماضی میں افغانستان کے لیے ایسا کیا اور اب ہم ایران کے لیے کر رہے ہیں۔‘
ان کا دعویٰ تھا کہ ’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں جب پاکستان کو انڈیا کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا تو ایران نے پاکستان کو سٹریٹجک ڈیپتھ فراہم کی اور پی آئی اے کے طیارے اپنے ملک میں کھڑے کیے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہی وجہ ہے کہ پاکستان دنیا کی پہلی پارلیمنٹ ہے جس نے (اس معاملے میں) ایران کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی طور پر بھرپور حمایت کی اور ایرانی پارلیمنٹ نے بھی اس کو سراہا ہے۔‘
’اسرائیل اب اپنے کیے کا مزہ چکھ رہا ہے‘
مشاہد حسین سید کا مزید کہنا ہے کہ ایران اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
’میرے خیال میں ایران ایک مضبوط ملک ہے، ان کے پاس ایسے لوگ ہیں جو اپنی ملک کے لیے لڑنے کے لیے تیار ہیں، انھیں اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ ان کے پاس فوجی صلاحیت ہے اور وہ اپنے ملک کا دفاع کرنے کا جذبہ بھی رکھتے ہیں۔‘
ایران کے جوابی میزائل حملوں پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں اسرائیل کے شہروں پر ایرانی میزائلوں کے گرنے کے بعد ’اسرائیل کو اب اپنے کیے کا مزہ چکھنا پڑ رہا ہے۔ انھیں اب سمجھ آ رہی ہو گی کہ جب آپ کچھ شروع کرتے ہیں تو اس کے ایسے نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں جنھیں آپ کنٹرول نہیں کر سکتے۔‘
اسرائیل ایران تنازع کے سرحدی علاقوں پر اثرات
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ایران کے ساتھ پانچ اضلاع کی سرحدیں لگتی ہیں جن میں گوادر، پنجگور، کیچ ، واشک اور چاغی شامل ہیں۔ رواں ہفتے کے آغاز میں بی بی سی کے نمائندے محمد کاظم نے خبر دی تھی کہ حکام نے ایران اسرائیل جنگ کے پیش نظر ایران کے ساتھ متصل سرحدی علاقوں سے آمد و رفت کے لیے کراسنگ پوائنٹس کو تاحکم ثانی بند کر دیا ہے۔
سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ ایران کے حالات کی وجہ سے پاکستانی شہریوں کے ایران میں داخلے پر پابندی ہے تاہم ایران سے پاکستانی شہریوں کے واپس آنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
تاہم بدھ کی شب، دفترِ خارجہ نے ایکس پر جاری ایک وضاحتی بیان میں کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تمام سرحدی کراسنگ پوائنٹس ہوری طرح فعال ہیں۔
ہر سال لاکھوں پاکستانی زیارت کے لیے ایران کا رخ کرتے ہیں۔ ایران میں پاکستانی سفارتخانے کے مطابق اسرائیل کے ایران پر حملے کے وقت چار ہزار سے پانچ ہزار کے قریب زائرین موجود تھے، جن کی کچھ تعداد واپس پہنچ چکی ہے اور کچھ واپسی کے راستوں پر ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق اب تک 460 سے زیادہ طلبہ زاہدان اور چاہبہار کے راستے پاکستان پہنچے ہیںدوسری جانب ہزاروں پاکستانی شہری تعلیم، کاروبار یا ملازمت کے لیے ایران میں مقیم ہیں۔ اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن کے مطابق سال 2023 میں 35 ہزار پاکستانی ایران میں رہائش پذیر تھے۔ ان میں سے چند دونوں ممالک کی شہریت رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایران کی مختلف یونیورسٹیوں میں ایک ہزار پاکستانی طلبا زیر تعلیم ہیں۔ کشیدہ حالات کے پیشِ نظر ان میں سے بہت سے طلبا پاکستان واپس پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق اب تک 460 سے زیادہ طلبہ زاہدان اور چاہ بہار کے راستے پاکستان پہنچے ہیں۔ ان طلبہ میں سے زیادہ تر ایران کی یونیورسٹیوں میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
ایران اور پاکستان کے سرد و گرم تعلقات

پاکستان اور ایران کے درمیان ایک طویل سرحد کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ مثالی نہیں رہے ہیں۔
ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے 1947 میں پاکستان کو خودمختار ریاست تسلیم کیا اور انڈیا اور پاکستان کے درمیان 1965 کی جنگ کے دوران ایران نے پاکستان کی حمایت کی تھی۔
تاہم 1979 میں ایران میں انقلاب کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قربت بڑھ گئی۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) کے مطابق، دونوں ملکوں میں تناؤ کی بڑی وجہ پاکستان کا ایران کے روایتی حریف سعودی عرب کی طرف جھکاؤ ہے۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز کے ایک مقالے کے مطابق 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات براہ راست متاثر ہوئے۔
ماضی پاکستان اور ایران ایک دوسرے پر عسکریت پسندوں کی مدد کا الزام بھی لگاتے آئے ہیں جبکہ دونوں ملکوں کے سکیورٹی ادارے ایک دوسرے کے علاقوں میں کارروائیاں بھی کرتے رہے ہیں۔
گذشتہ برس جنوری میں دونوں ممالک کے مابین تعلقات اس وقت مزید کشیدہ ہو گئے جب ایران اور پاکستان نے ایک دوسرے کی سرزمین پر فضائی حملے کیے تھے۔ تاہم جلد ہی دونوں ممالک کی سیاسی قیادت نے صورتحال کو قابو کر لیا تھا۔
رواں برس مئی میں انڈیا کے ساتھ پاکستان کے عسکری تنازعے کے دوران، ایران نے کسی بھی ملک کا فریق بننے سے گریز کیا تھا۔