ڈونلڈ ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ’دو گھنٹے سے زیادہ جاری رہنے والی ملاقات‘ جس میں آئی ایس آئی سربراہ بھی موجود تھے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ روکنے پر شکریہ ادا کرنے کے لیے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس مدعو کیا۔ ملاقات کے بعد ٹرمپ نے بتایا کہ ایران کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی اور ان کے مطابق ’جنرل منیر ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔۔ شاید دوسروں سے بہتر اور وہ صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔‘
getty
Getty Images

پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کا کہنا ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ’شیڈول سے لمبی ملاقات بات چیت کی گہرائی اور ہم آہنگی کو اجاگر کرتا ہے۔‘

دوسری جانب امریکی صدر کا کہنا ہے کہ انھوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ روکنے پر شکریہ ادا کرنے کے لیے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا تھا۔ انھوں نے یہ بات آرمی چیف اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہی۔

ملاقات کے بعد ٹرمپ نے بتایا کہ ان کی جنرل منیر سے ایران کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی ہے اور ’وہ ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔۔ شاید دوسروں سے بہتر۔۔ اور وہ اس صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔‘

امریکی صدر نے بدھ کے روز آرمی چیف عاصم منیر کے اعزاز میں وائٹ ہاؤس کے کیبنٹ روم میں ظہرانہ دیا جہاں صحافیوں کو داخلے کی اجازت نہیں تھی۔

کھانے کے بعد انھوں نے اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنرل عاصم منیر نے (پاکستان انڈیا) جنگ روکنے میں اہم کردار ادا کیا اور ’میں پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر سے ملاقات کو اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتا ہوں۔‘

امریکی صدر نے بتایا کہ ان کی انڈیا کے وزیراعظم مودی سے بھی کچھ ہفتے قبل ملاقات ہوئی ہے۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ پاکستان اور انڈیا دونوں بڑی جوہری طاقتیں ہیں اور دونوں کے بیچ جوہری جنگ چھڑ سکتی تھی مگر ’دو ذہین لوگوں نے جنگ روکنے کا فیصلہ کیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور انڈیا دونوں کے ساتھ تجارتی معاہدے پر بات چیت ہو رہی ہے۔

ایک گھنٹے کے لیے طے ملاقات دو گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہی: آئی ایس پی آر

جمعرات کے روز پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بارے میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ’ابتدائی طور پر ملاقات ایک گھنٹے کے لیے طے تھی جو دو گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہی۔‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ گفتگو کی گہرائی اور ہم آہنگی کو اجاگر کرتا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق، ملاقات میں امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اور صدر ٹرمپ کے خصووصی ایلچی برائے مشرقِ وسطیٰ سٹیو وٹکوف بھی شامل تھے جبکہ قومی سلامتی کے مشیر اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک آرمی چیف کے ہمراہ تھے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس موقع پر آرمی چیف اور امریکی صدر کے درمیان ایران اور اسرائیل کے درمیان موجودہ صورتحال کے بارے میں تفصیلی تبادلہ خیال ہوا اور دونوں جانب سے تنازع کے حل کی اہمیت پر زور دیا گیا۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ملاقات کے دوران آرمی چیف نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی میں سہولت کاری کے لیے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے علاقائی امن و استحکام کے لیے پاکستان کی کوششوں اور، امریکہ اور پاکستان درمیان انسداد دہشت گردی کے حوالے سے تعاون کو سراہا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق، ملاقات میں تجارت، اقتصادی ترقی، معدنیات، مصنوعی ذہانت، توانائی، کرپٹو کرنسی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز سمیت متعدد شعبوں میں دوطرفہ تعاون بڑھانے پر بھی بات ہوئی۔

صدر ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ باہمی فائدہ مند تجارتی شراکت داری قائم کرنے میں بھی دلچسپی ظاہر کی۔

ٹرمپ نے جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے بعد کیا کہا؟

آرمی چیف عاصم منیر کے ساتھ لنچ اور ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کے دوران جب ڈونلڈ ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی پاکستانی جنرل سے ایران کے حوالے سے کوئی بات ہوئی؟

جس پر امریکی صدر کا کہنا تھا ’وہ ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔۔ شاید دوسروں سے بہتر۔ اور وہ اس صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔ یہ نہیں کہ ان کے اسرائیل سے تعلقات خراب ہیں، وہ دونوں کو جانتے ہیں، درحقیقت شاید ایران کو زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ لیکن وہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور انھوں نے مجھ سے اتفاق کیا۔‘

ٹرمپ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ جنرل منیر نے ان سے کس بات پر اتفاق کیا۔

امریکی صدر نے مزید کہا کہ ’میں نے انھیں یہاں اس لیے بلایا کیونکہ میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا کہ انھوں نے جنگ کی طرف قدم نہیں بڑھایا۔‘

خیال رہے اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ ان کی کوششوں کی بدولت پاکستان اور انڈیا کے مابین جوہری جنگ کا خطرہ ٹل گیا تھا۔

امریکی صدر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’میں وزیر اعظم مودی کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو چند دن پہلے یہاں سے گئے۔ ہم انڈیا اور پاکستان دونوں کے ساتھ تجارتی معاہدے پر کام کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ دونوں بہت ذہین لوگ ہیں (فیلڈ مارشل عاصم منیر اور مودی) اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس جنگ کو آگے نہیں بڑھائیں گے جو ممکنہ طور پر ایٹمی جنگ بن سکتی تھی۔ پاکستان اور انڈیا دونوں بڑی نیوکلیئر طاقتیں ہیں۔ اس لیے میرے لیے آج ان سے (فیلڈ مارشل عاصم منیر) سے ملاقات کرنا باعثِ اعزاز تھا۔

یاد رہے پاکستان آرمی چیف 14 جون سے امریکہ کے دورے پر ہیں اور امریکی صدر سے ان کی ملاقات پہلے سے ہی طے شدہ تھی۔

پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان منگل کے روز وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کو اسلام آباد میں ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایران پر اسرائیل کے 13 جون کو ہونے والے حملے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تنازع شدت اختیار کر چکا ہے اور اس وقت یہ چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ آیا امریکہ خود بھی ایران کے خلاف کارروائی کا حصہ بنے گا یا نہیں۔

جنرل عاصم منیر سے ملاقات سے قبل وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایران کے خلاف اسرائیلی حملوں میں شریک ہونے جار رہے ہیں تو ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’میں شاید ایسا کروں یا پھر شاید نہ کروں۔ کوئی نہیں جانتا کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا ایرانی حکومت تبدیل ہو سکتی ہے تو ان کا جواب تھا: ’یقیناً، کچھ بھی ہو سکتا ہے، ہے نا؟‘

ایران اور اسرائیل کے مابین جاری کشیدگی میں ایسے خدشات بھی موجود ہیں کہ یہ تنازع پھیل سکتا ہے اور خطے کے دیگر ممالک بھی اس کی زد میں آ سکتے ہیں۔

یاد رہے فیلڈ مارشل عاصم منیر نے مئی کے اواخر میں ایرانی افواج کے چیف آف سٹاف محمد حسین باقری سے ملاقات کی تھی جو 13 جون کو ہونے والے اسرائیلی حملے میں ہلاک ہو گئے۔ اس کے علاوہ وہ رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقات کرنے والے پاکستانی وفد میں بھی شامل تھے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ صدر ٹرمپ نے کسی غیر ملکی فوجی سربراہ کو اس نوعیت کی براہِ راست ون آن ون ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس مدعو کیا ہو۔ اس سے قبل 2001 میں جنرل پرویز مشرف نے بطور صدر اور فوجی سربراہ، اس وقت کے امریکی صدر جارج بش سے ملاقات کی تھی۔

سفارتی حلقوں میں اسے پاکستان کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب خطے میں ایران اور اسرائیل کے ایک دوسرے پر حملے جاری ہیں۔

اگرچہ اب تک پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ یعنی آئی ایس پی آر یا امریکی حکام کی جانب سے اس ملاقات کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ اس ملاقات کا ایجنڈا کیا تھا تاہم فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکی صدر سے ملاقات کے بارے میں سوشل میڈیا پر بہت سی آرا سامنے آ رہی ہیں۔

کچھ صارفین کا ماننا ہے کہ جنرل منیر سے ملاقات کے بعد ایران کے بارے میں بات کرتے ہوئے ٹرمپ کا لہجہ کچھ نرم ہوا ہے۔

ایک صارف نے لکھا ’ایسا تاثر مل رہا ہے جیسے جنرل عاصم منیر نے ایران سے متعلق امریکی صدر کے سامنے واضح مؤقف اختیار کیا اور ٹرمپ نے نہ صرف اسے سنا بلکہ اس مؤقف کو سمجھا بھی۔۔۔ جو اپنے آپ میں ایک غیرمعمولی بات ہے۔‘

’اور ٹرمپ کی گفتگو اس بار حیرت انگیز طور پر متوازن اور ’غیر معمولی حد تک سنجیدہ‘ لگ رہی ہے۔ یہ وہی ٹرمپ نہیں جو عام طور پر جارحانہ یا غیر سنجیدہ بیانات دیتے ہیں۔۔۔ لگتا ہے کہ جنرل منیر کی موجودگی اور مؤقف نے گفتگو کا لہجہ بدل دیا ہے۔‘

مصنف اور تجزیہ نگار شجاع نواز نے ایکس پر ٹرمپ اور جنرل عاصم کی ملاقات کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے لکھا ’یہ ٹرمپ کے لیے ایک اچھا موقع ہے کہ وہ عاصم منیر کے حالیہ دورۂ تہران سے سیکھیں اور ایران کے خلاف جنگ کی طرف نہ بڑھیں۔ انسداد دہشتگردی کے شعبے میں پاکستان کے تعاون کو سراہا جائے گا تاہم جنرل منیر کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کو ’آقا نہیں، دوستوں‘ کی ضرورت ہے۔‘

محمد تقی نے لکھا ’فیلڈ مارشل عاصم منیر اور ٹرمپ کی ملاقات میں فائدہ کس کا ہوا، یہ دیکھنا باقی ہے۔ البتہ یہ طے ہو گیا کہ نقصان تاوان پی ٹی آئی سے منسلک ان پاکستانی امریکیوں کا ہوا ہے جنھوں نے دسیوں لاکھوں ڈالر واشنگٹن میں لابی کرنے پر خرچ کیے۔‘

صحافی کامران یوسف نے تبصرہ کیا کہ ’انڈیا کی جانب سے پاکستان کو دہشتگردی سے جوڑنے کی تمام کوششیں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات کے بعد نہ تو پہلگام حملے کا ذکر کیا اور نہ ہی انڈین خدشات کو اہمیت دی، بلکہ انھوں نے جنگ سے گریز پر پاکستانی فوج کی تعریف کی۔ ٹرمپ نے کہا: میں ان سے ملاقات کو اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتا ہوں۔‘

بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جب بھی امریکہ و ایران میں ثالثی ہو گی، پاکستان ضرور اس میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کرے گا۔

اور جنگ ہو یا لنچ، پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کا میمز شیئر کرنے کا سلسلہ نہیں رکتا۔

ایک صارف نے ٹرمپ کی الیکشن کیمپین کی ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ میک ڈونلڈ کے کچن میں کام کرتے نظر آئے تھے اور لکھا ’صدر ٹرمپ خود کچن میں جنرل عاصم منیر کے لیے دوپہر کا کھانا تیار کر رہے ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی چیز ہے۔‘

ایک اور صارف نے لکھا ’پاکستان کو اتنی عزت پہلے شاید 1947 میں ملی تھی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.